مختصر جواب:
مفصل جواب:
بعض لوگ جان بوکھ کر یا اپنی غفلت کی وجہ سے شیعوں پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ لوگ تحریف قرآن کے قائل ہیں اور ان کے دلائل میں ایک دلیل یہ ہے جو وہ کہتے ہیں کہ اگر تمہارایہ عقیدہ نہیں ہے تو پھر تمہارے علماء نے اپنی کتابوں میں تحریف قرآن کے متعلق روایات کیوںذکرکی ہیں جوظاہرا تحریف قرآن پر دلالت کرتی ہے ۔
ہم اس بے بنیاداور بڑے الزام کے جواب میں کہتے ہیں : اس بات کی طرف توجہ کرنی چاہئے کہ حدیث کی کتابوں اور اعتقاد و اصول کی کتابوں میں بہت زیاہ فرق ہے ، حدیث اور روایت کے مآخذ کو لکھتے وقت صرف تمام روایات اور احادیث کو جمع کیا جاتا ہے چاہے وہ صحیح بخاری سے ہوں یا حسن، ثقہ یا ضعیف ہوں، حدیثوں کی جمع آوری ہر گز اس بات پر دلیل نہیں ہے کہ صاحب کتاب نے جو کچھ جمع کیا ہے وہ اس کا عقیدہ بھی رکھتاہے چونکہ روایات پر ایمان یا اعتقادرکھنے کے بہت سے شرائط ہیں اور وہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔روایت کی سند صحیح ہو۔
۲۔روایت کی دلالت مکمل طور سے اس کے معنی و مقصود پر دلالت کرتی ہو ۔
۳۔جو روایت نقل ہوئی ہے اس کا کوئی معارض نہ ہو ۔
۴۔روایت کا مضمون ایسا ہو کہ اس مسئلہ میں خبر واحد سے تمسک کیا جا سکتا ہو اور اس مضمون پر اعتقاد بھی کیا جا سکتا ہو ۔
اگرکسی روایت میں اوپر بیان کئے گئے شرائط پائے جاتے ہیں تو پھر اس روایت کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اس روایت کا نقل کرنے والا اس روایت پر اعتقادرکھتا ہے ۔
لیکن اگر روایت میں یہ تمام شرائط نہیں پائے جاتے تو صرف روایات کونقل کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس کاجمع کرنے والا ان احادیث و روایات پر اعتقاد و ایمان بھی رکھتاہے ۔
پس اگر علماء شیعہ نے اپنی کتابوں میں ان احادیث کو نقل کیا ہے جن کا مضمون تحریف قرآن پر دلالت کرتا ہے تو اس میں چند چیزوں کو ملاحظہ کرنا ہوگا:
۱۔ آیا ان روایات کی سند صحیح ہے یا نہیں ؟
۲۔ ایاروایات کی دلالت مکمل طور سے تحریف قرآن پر کافی ہے یا نہیں؟ ۔
۳۔جو روایات نقل ہوئی ہیں آیا ان کا کوئی معارض ہے یا نہیں؟ اس متعلق ہم کہتے ہیں کہ بہت سی روایتیںہیں جودلالت کرتی ہیں کہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی ہے قرآن مجید میں نہ کچھ کم ہوا ہے اور نہ ہی کوئی نقصان ہوا ہے۔ لہذا یہ تمام روایات ان روایات کے معارض ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ قرآن کریم میںتحریف ہوئی ہے۔
۴۔روایت کا مضمون ایسا ہو کہ اس مسئلہ میں خبر واحد سے تمسک کیا جا سکتا ہو اور اس مضمون پر اعتقاد بھی کیا جا سکتا ہو ۔
جبکہ تحریف قرآن ایک بہت اہم مسئلہ ہے ممکن ہے کہ اس کو خبرواحد کے ذریعے سے ثابت کیا جاسکے بلکہ اس کو محکم دلائل اور ثبوتوں کے ذریعے ثابت کرنا چاہئے ۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ قرآن مجیدمیں ایک آیت ولایت تھی جو کو مخالفین نے جان بوجھ کر حذف کر دیا ہے انکا یہ دعویٰ کوئی چھوٹا دعویٰ نہیں ہے جس کو خبر واحد کے ذریعے سے ثابت یا اس کی تاکید کی جائے۔ قرآن مجید میں زیادتی اور نقصان کا مسئلہ، اصول عقائد کے مسائل میں سے ہے لہذا ضروری ہے کہ محکم برہان و دلائل کے ذریعے سے اس کو ثابت یا اس کی تائید کی جائے، خبر واحد اوراس کے جیسی دوسری دلیلوں کے ذریعے سے نہیں۔
ہماری احادیث کے بعض مآخذ میں کچھ ایسی روایا ت نقل ہوئیں ہیں جنکا مضمون اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نعوذ باللہ خدا وند عالم، جسم رکھتا ہے اور اس کو قیامت کے روز آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ شیعہ مطلقا اس بات کے معتقد ہیں کہ خدا وند عالم جسم نہیں رکھتا اور دنیا و آخرت میں اس کو دیکھا نہیں جا سکتا۔
پس صرف کسی کتاب میں ایک یا چند روایات کو نقل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صاحب کتاب ایسی روایات کے مضمون پر اعتقاد رکھتا ہے ۔
اس کے علاوہ اگر چہ بعض محدثین نے تحریف قرآن کی روایات کو بغیر کسی اظہارنظرکے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے جیسے شیخ صدوق، عقائد امامیہ میں تحریر فرماتے ہیں: اگر کوئی اس طرح کی نسبت ہماری (شیعوں ) طرف دے تو وہ جھوٹا اور کاذب ہے (۱) ۔ اسی طرح شیخ طوسی اور فیض کاشانی نے اپنی کتابوں میں خصوصاکتاب تبیان اوروافی میں تحریف قرآن کے مسئلہ کو تاکید کے ساتھ جھوٹا قرار دیا ہے (۲) ۔
ہم اس بے بنیاداور بڑے الزام کے جواب میں کہتے ہیں : اس بات کی طرف توجہ کرنی چاہئے کہ حدیث کی کتابوں اور اعتقاد و اصول کی کتابوں میں بہت زیاہ فرق ہے ، حدیث اور روایت کے مآخذ کو لکھتے وقت صرف تمام روایات اور احادیث کو جمع کیا جاتا ہے چاہے وہ صحیح بخاری سے ہوں یا حسن، ثقہ یا ضعیف ہوں، حدیثوں کی جمع آوری ہر گز اس بات پر دلیل نہیں ہے کہ صاحب کتاب نے جو کچھ جمع کیا ہے وہ اس کا عقیدہ بھی رکھتاہے چونکہ روایات پر ایمان یا اعتقادرکھنے کے بہت سے شرائط ہیں اور وہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔روایت کی سند صحیح ہو۔
۲۔روایت کی دلالت مکمل طور سے اس کے معنی و مقصود پر دلالت کرتی ہو ۔
۳۔جو روایت نقل ہوئی ہے اس کا کوئی معارض نہ ہو ۔
۴۔روایت کا مضمون ایسا ہو کہ اس مسئلہ میں خبر واحد سے تمسک کیا جا سکتا ہو اور اس مضمون پر اعتقاد بھی کیا جا سکتا ہو ۔
اگرکسی روایت میں اوپر بیان کئے گئے شرائط پائے جاتے ہیں تو پھر اس روایت کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اس روایت کا نقل کرنے والا اس روایت پر اعتقادرکھتا ہے ۔
لیکن اگر روایت میں یہ تمام شرائط نہیں پائے جاتے تو صرف روایات کونقل کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس کاجمع کرنے والا ان احادیث و روایات پر اعتقاد و ایمان بھی رکھتاہے ۔
پس اگر علماء شیعہ نے اپنی کتابوں میں ان احادیث کو نقل کیا ہے جن کا مضمون تحریف قرآن پر دلالت کرتا ہے تو اس میں چند چیزوں کو ملاحظہ کرنا ہوگا:
۱۔ آیا ان روایات کی سند صحیح ہے یا نہیں ؟
۲۔ ایاروایات کی دلالت مکمل طور سے تحریف قرآن پر کافی ہے یا نہیں؟ ۔
۳۔جو روایات نقل ہوئی ہیں آیا ان کا کوئی معارض ہے یا نہیں؟ اس متعلق ہم کہتے ہیں کہ بہت سی روایتیںہیں جودلالت کرتی ہیں کہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی ہے قرآن مجید میں نہ کچھ کم ہوا ہے اور نہ ہی کوئی نقصان ہوا ہے۔ لہذا یہ تمام روایات ان روایات کے معارض ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ قرآن کریم میںتحریف ہوئی ہے۔
۴۔روایت کا مضمون ایسا ہو کہ اس مسئلہ میں خبر واحد سے تمسک کیا جا سکتا ہو اور اس مضمون پر اعتقاد بھی کیا جا سکتا ہو ۔
جبکہ تحریف قرآن ایک بہت اہم مسئلہ ہے ممکن ہے کہ اس کو خبرواحد کے ذریعے سے ثابت کیا جاسکے بلکہ اس کو محکم دلائل اور ثبوتوں کے ذریعے ثابت کرنا چاہئے ۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ قرآن مجیدمیں ایک آیت ولایت تھی جو کو مخالفین نے جان بوجھ کر حذف کر دیا ہے انکا یہ دعویٰ کوئی چھوٹا دعویٰ نہیں ہے جس کو خبر واحد کے ذریعے سے ثابت یا اس کی تاکید کی جائے۔ قرآن مجید میں زیادتی اور نقصان کا مسئلہ، اصول عقائد کے مسائل میں سے ہے لہذا ضروری ہے کہ محکم برہان و دلائل کے ذریعے سے اس کو ثابت یا اس کی تائید کی جائے، خبر واحد اوراس کے جیسی دوسری دلیلوں کے ذریعے سے نہیں۔
ہماری احادیث کے بعض مآخذ میں کچھ ایسی روایا ت نقل ہوئیں ہیں جنکا مضمون اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نعوذ باللہ خدا وند عالم، جسم رکھتا ہے اور اس کو قیامت کے روز آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ شیعہ مطلقا اس بات کے معتقد ہیں کہ خدا وند عالم جسم نہیں رکھتا اور دنیا و آخرت میں اس کو دیکھا نہیں جا سکتا۔
پس صرف کسی کتاب میں ایک یا چند روایات کو نقل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صاحب کتاب ایسی روایات کے مضمون پر اعتقاد رکھتا ہے ۔
اس کے علاوہ اگر چہ بعض محدثین نے تحریف قرآن کی روایات کو بغیر کسی اظہارنظرکے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے جیسے شیخ صدوق، عقائد امامیہ میں تحریر فرماتے ہیں: اگر کوئی اس طرح کی نسبت ہماری (شیعوں ) طرف دے تو وہ جھوٹا اور کاذب ہے (۱) ۔ اسی طرح شیخ طوسی اور فیض کاشانی نے اپنی کتابوں میں خصوصاکتاب تبیان اوروافی میں تحریف قرآن کے مسئلہ کو تاکید کے ساتھ جھوٹا قرار دیا ہے (۲) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.