مختصر جواب:
مفصل جواب:
ثانیا : حدیث ولایت کے ایک راوی ""اجلح"" ثقہ ہیں اور بہت سے علماء اہل سنت نے ان کے ثقہ ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے ،منجملہ یحیی بن معین،(٢) احمد بن حنبل (٣) ابن عدی(٤) حاکم نیشاپوری (٥) اور ابن حجر (٦) نے ان کے ثقہ ہونے کی تائید کی ہے ۔
حاکم نیشاپوری ان کے متعلق کہتے ہیں : بخاری اور مسلم نے اجلح کی روایات کو ترک کیا ہے لیکن ان کی روایات میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کو ترک کیا جائے ، جی ہاں جس وجہ سے ان پر اعتراض کیاجاتا ہے وہ ان کے مذہب کی وجہ سے ہے ۔
ابن حجر کہتے ہیں : "" اجلح بن عبداللہ ... صادق اور شیعہ ہیں"" ۔
ثالثا : اجلح کا شمار سنن میں ابی دائود، صحیح میں ترمذی اور سنن اور ابن ماجہ میں میں نسائی کے رجال میں ہوتا ہے ۔
رابعا : اہل سنت کے بزرگ علماء جیسے شعبہ، سفیان ثوری اور ابن مبارک نے ان سے روایت نقل کی ہے ۔ شعبہ نے ان سے روایت نقل کیا ہے جب کہ وہ غیر ثقہ سے روایت نقل نہیں کرتے ۔ اس کے علاوہ وہ مسند میں احمد بن حنبل کے مشایخ میں سے ہیں۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ صرف ان لوگوں سے روایت نقل کرتے ہیں جن کی صداقت اور دیانت ان کے نزدیک ثابت ہو ، اس کے علاوہ ان سے نسائی جیسے شخص نے روایت نقل کی ہے جب کہ ان کے رجال میں ان کے شرائط بخاری اور مسلم سے بھی زیادہ شدید ہیں (٧) ۔
خامسا : حدیث ولایت اور بھی بہت سے طرق سے وارد ہوئی ہے جن میں اجلح نہیں ہیں لہذا حدیث ولایت عمران بن حصین کی سند کے ساتھ بھی وارد ہوئی ہے (٨) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.