مختصر جواب:
مفصل جواب:
اس حدیث کے تمام رجال، اہل سنت کے نزدیک ثقہ ہیں۔
الف : ترمذی ، : اہل سنت کے نزدیک ترمذی تعریف کے محتاج نہیں ہیں۔
ب : قتیبہ بن سعید : سمعانی کے بقول محدث جلیل القدر ہیں ، بخاری، مسلم ، ابودائود اور ترمذی نے ان سے حدیث نقل کی ہے (٢) ۔
ناصر الدین البانی نے بھی اس حدیث کو کتاب "" سلسلة الاحادیث الصحیحة"" میں حدیث نمبر ٢٢٢٣ پر نقل کیا ہے اور اس کی سند کی تصحیح میں بہت زیادہ کوشش کی ہے ۔
انہوں نے بعض سندوں کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے : اگر کوئی اعتراض کرے کہ اجلح بعض سندوں میں ذکرہوئے ہیں، یہ شیعہ ہیں، اور دوسری سندوں میں جعفر بن سلیمان موجود ہیں یہ بھی شیعہ ہیں ، کیااس سے حدیث میں خدشہ وارد نہیں ہوتا ہے؟
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں : ہرگز نہیں ، کیونکہ روایت حدیث میں صدق اور حفظ معتبر ہے ، مذہب کو وہ خود اور ان کا خدا جانتا ہے وہ حساب کرنے والا ہے ۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ صاحب صحیح بخاری اور مسلم وغیرہ نے بہت سے مخالفین جیسے خوارج اور شیعہ کی احادیث کو تخریج کیا ہے ۔
اس کے علاوہ اس حدیث کی ابن حیان تصحیح کی ہے جب کہ ان کی کتاب میں اس اس کا روای جعفر بن سلیمان ہے ، جو کہ شیعہ تھے اور غالی تھے ۔ یہاں تک کہ کتاب الثقات میں ان کی تصریح کے مطابق وہ شیخین سے بغض رکھتے تھے (٣) ۔
اس کے علاوہ مذکورہ حدیث دوسرے مختلف طرق سے بھی نقل ہوئی ہے جن کی سند میں شیعہ نہیں ہیں۔ جیسا کہ جملہ "" ان علیا منی و انا منہ"" صحیح بخاری کی حدیث نمبر ٢٦٩٩ میں ذکر ہوا ہے ۔
اور سب سے تعجب کی بات یہ ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ""منہاج السنہ "" (٤) میں اس حدیث کے انکار اور تکذیب کی جرائت کی ہے جس طرح سے پہلی والی حدیث کے متعلق کہا تھا۔ اس حدیث کی تکذیب کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، ابن تیمیہ نے اس کی تکذیب اس لئے کی ہے کہ وہ شیعہ کی مخالفت کرنے میں بہت جلدبازی سے کام لیتے ہیں ، خداوند عالم ان کے اور ہمارے گناہوں کو معاف کرے (٥) (٦) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.