مختصر جواب:
مفصل جواب:
خداى متعال سوره «بقره» آیت ۱۱۷ مین ارشاد فرماتا ہے : (بَدیعُ السَّماوَاتِ وَ الاَْرْضِ) کلمه بدیع ماده «بدع» سے ہے کسی چیز کا وجود میں آنا جبکہ وہ پہلے سے موجود نہ ہو یہ تمام چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ خدا نے زمین وآسمان کو بغیر کسی مادہ کے وجود میں آئی ہے ،کیونکہ
خالق بھی وہی ہے (بدیع السموات و الارض)۔ حتی کہ پہلے کی کسی منصوبے کے بغیر اور کسی مادہ کی احتیاج کے بغیر ہے اس نے ان سب کو تخلیق کیاہے۔
اسے بیٹے کی کیا ضرورت ہے حالانکہ جب کسی چیز کے وجود کا حکم صادر فرماتاہے تو کہتاہے ہوجا اور وہ فورا ہوجاتی ہے ( و اذا قضی امرا فانما یقول لہ کن فیکون)۔
چند اہم نکات
(!) عدم فرزند کے دلائل: خدا کا بیٹا ہونا، بے شک ان لوگوں کے کمزور افکار کی پیداوار ہے جو تمام امور میں خدا کو اپنے محدود وجود پر قیاس کرتے ہیں۔
مختلف دلائل کی بناء پر انسان بیٹے کا محتاج ہے۔ ایک طرف تو اس کی عمر محدود ہے اور بقائے نسل کے لئے بیٹا ضروری ے۔ دوسری طرف اس کی قدرت محدود ہے۔ خصوصا بڑھاپے اور ناتوانی کے عالم میں اسے معاون و مددگار کی ضرورت ہے جو بیٹے کے ذریعے پوری ہوسکتی ہے تیسرا یہ کہ انسانی نفسیات میں محبت و انس کی خواہش کے پیش نظر ضروری ہے کہ کوئی اس کا مونس و مددگار ہو۔ یہ مقصد بھی اولاد کے ذریعے پورا ہوجاتاہے۔ واضح ہے کہ خدا کے ہاں ان میں سے کوئی بھی بات کچھ مفہوم نہیں رکھتی کیونکہ وہ تو عالم ہستی کو پیدا کرنے والا، تمام چیزوں پر قدرت رکھنے والا اور ازلی و ابدی ہے۔ علاوہ ازیں جسم صاحب اولاد ہونے کالا زمہ ہے اور خدا اس سے بھی منزہ ہے۔ (!!) کن فیکون کی تفسیر: یہ تعبیر قرآن کی بہت سی آیات مےں آئی ہے۔ ان میں سورہ آل عمران ۴۷ اور ۵۹، سورہ انعام آیہ ۷۳، سورہ نحل آیہ ۴۰، سورہ مریم آیہ ۳۵ اور سورہ یس آیہ ۸۲ و غیرہ شامل ہیں۔
یہ جملہ خدا کے ارادہ تکوینی اور امر خلقت میں اس کی حاکمیت کے متعلق گفتگو کرتاہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ کن فیکون (ہوجا پس وہ فورا ہوجاتاہے) سے مراد یہ نہیں کہ خدا کوئی لفظی فرمان(ہوجا) کی صورت میں صادر فرماتا ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ جس وقت وہ کسی چیز کو وجود عطا فرمانے کا ارادہ کرتاہے وہ بڑی ہویا چھوٹی، پیچیدہ ہو یا سادہ، ایک اٹیم کے برابر ہو یا تمام آسمانوں اور زمین کے برابر ہوکسی علت کی احتیاج کے بغیر وہ ارادہ خود بخود عمل جامہ پہن لیتاہے۔ اس ارادہ اور موجود کی پیدائش کے در میان لحظے کا فاصلہ بھی نہیں ہوتا۔
اصولی طور پر کوئی زمانہ اس کے در میان نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے حرف فا (فیکون میں) جو عموما تاخیر زمانی کے لئے آتاہے البتہ ایسی تاخیر جو اتصال کی قوام ہو یہاں صرف تاخیر رتبہ کے لحاظ سے ہے (جیسا کہ فلسفہ میں ثابت ہوچکا ہے کہ معلول اپنی علت سے رتبے کے لحاظ سے تو متایخر ہے لیکن زمانے کے لحاظ سے نہیں)۔
یہ اشتباہ نہیں ہونا چاہئیے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ ارادہ الہی آنی الوجود ہے( ۲)
۲۔یعنی ارادہ الہی سے کوئی چیز آنا فانا وجود میں آجاتی ہے۔ (مترجم)
بلکہ مراد یہ ہے کہ جیسا وہ ارادہ کرے موجود اسی طرح وجود پاتاہے۔
یا مثلا۔ اگر وہ ارادہ کرے کہ بچہ شکم مادر کی جنین میں نو ماہ اور نودن میں اپنی تکمیل کے مرحلے طے کرے تو لحظہ بھر کی کمی بیشی کے بغیر یونہی انجام پذیر ہوگا اور اگر ارادہ کرے کہ تکامل کا یہ دور ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے سے بھی کم مقدار میں پورا کرے تو یقینا ایسا ہوگا کیونکہ خلقت کے لئے انکا ارادہ علت تامہ ہے اور علت تامہ و معلول کے در میان کسی قسم کا فاصلہ نہیں ہوسکتا۔
(!!!) کوئی چیز کیسے عدم سے وجود میں آتی ہے: لفظ (بدیع) کا مادہ ہے (بدع) جس کا معنی ہے بغیر کسی سابقہ کے کسی چیز کا وجود میں آنا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ آسمانوں اور زمین کو خدانے بغیر کسی مادے اور بغیر کسی پہلو نمونے کے وجود بخشاہے۔
اب یہ سوال ہوگا کہ کیا ایسا بھی ہوسکتاہے کہ کوئی چیز عدم سے وجود میں آجائے جب کہ عدم وجود کی ضروت مندہے۔ لہذا یہ کیسے علت اور منشاء وجود ہوسکتاہے۔ کیا واقعا یہ باور کیاجاسکتاہے کہ نیستی سبب ہستی ہو۔ مسئلہ ابداع پر ماد یین کا یہ پرانا اعتراض ہے۔
اس کا جواب پیش خدمت ہے:
پہلے مرحلے میں تو یہ اعترا ض خود مادہ پرستوں پر بھی وارد ہوتاہے اس کی وضاحت یہ ہے کہ ان کا اعتقاد ہے کہ یہ جہان قدیم اور ازلی ہے اور کوئی چیز بھی آج تک اس میں سے کم نہیں ہوئی اور یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات میں کئی تغیرات آئے ہیں جن سے مادے کی یہ صورت بدلی ہے جو ہمیشہ بدلتی رہتی۔ گویا صورت بدلتی ہے نہ کہ مادہ۔
اب ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ مادے کی جو موجودہ صورت ہے یقینا وہ پہلے تو نہ تھی۔ اب یہ صورت کیسے وجود میں آئی کیا عدم سے وجود میں آئی۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر عدم کیسے وجود صورت کا منشاء ہوسکتاہے۔
مثلا ایک نقاش قلم اور سیاہی سے کاغذ پر ایک بہترین منظر بناتا ہے۔ مادہ پرست کہتے ہیں کہ اس کا جوہر اور سیاہی تو پہلے سے موجود تھی۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ منظر (صورت) جو پہلے موجود نہ تھا کس طرح وجود میں آیا۔ جو جواب وہ صورت کے عدم سے پیدا ہوجانے کے متعلق دیں گے وہی جواب ہم مادہ کے سلسلے میں دیں گے
دوسرے مرحلہ میں قابل توجہ امر یہ ہے کہ لفظ (سے) کی وجہ سے اشتباہ ہواہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ عالم نیستی سے ہستی میں آیاہے کا مطلب ایسے ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ میز لکڑی سے بنائی گئی ہے۔ جس میں میز بنانے کے لئے لکڑی کا پہلے موجود ہونا ضروری ہے تا کہ میز بن سکے جب کہ عالم نیستی سے ہستی میں آیاہے کا معنی یوں نہیں بلکہ اس کا معنی ہے کہ عالم پہلے موجود نہ تھا بعد میں وجود پذیر ہوا۔
فلسفے کی زباں میں یوں کہنا چاہئیے کہ ہر موجود ممکن (جو اپنی ذات سے وجود نہ رکھتا ہو) کو اپنی تشکیل کے لئے دو پہلو درکارہیں (ماہیت) اور ( وجود)۔
(ماہیت )ایک اعتباری معنی ہے کہ جس کی نسبت وجود و عدم کے ساتھ مساوی ہے۔ یہ الفاظ دیگر وہ قدر مشترک جو کسی چیز کے وجود اور عدم کو دیکھنے سے دستیاب ہو اس کا نام ماہیت ہے۔ مثلا یہ درخت پہلے نہیں تھا۔ اب وجود رکھتاہے۔ جو چیز وجود و عدم سے ثابت ہو وہ ماہیت ہے لہذا جب ہم کہتے ہیں کہ خدا عالم کو عدم سے وجود میں لایاہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عالم حالت عدم کے بعد حالت وجود میں آگیاہے دوسرے لفظوں میں ماہیت کو حالت عدم سے حالت وجود میں لایاگیاہے۔
خالق بھی وہی ہے (بدیع السموات و الارض)۔ حتی کہ پہلے کی کسی منصوبے کے بغیر اور کسی مادہ کی احتیاج کے بغیر ہے اس نے ان سب کو تخلیق کیاہے۔
اسے بیٹے کی کیا ضرورت ہے حالانکہ جب کسی چیز کے وجود کا حکم صادر فرماتاہے تو کہتاہے ہوجا اور وہ فورا ہوجاتی ہے ( و اذا قضی امرا فانما یقول لہ کن فیکون)۔
چند اہم نکات
(!) عدم فرزند کے دلائل: خدا کا بیٹا ہونا، بے شک ان لوگوں کے کمزور افکار کی پیداوار ہے جو تمام امور میں خدا کو اپنے محدود وجود پر قیاس کرتے ہیں۔
مختلف دلائل کی بناء پر انسان بیٹے کا محتاج ہے۔ ایک طرف تو اس کی عمر محدود ہے اور بقائے نسل کے لئے بیٹا ضروری ے۔ دوسری طرف اس کی قدرت محدود ہے۔ خصوصا بڑھاپے اور ناتوانی کے عالم میں اسے معاون و مددگار کی ضرورت ہے جو بیٹے کے ذریعے پوری ہوسکتی ہے تیسرا یہ کہ انسانی نفسیات میں محبت و انس کی خواہش کے پیش نظر ضروری ہے کہ کوئی اس کا مونس و مددگار ہو۔ یہ مقصد بھی اولاد کے ذریعے پورا ہوجاتاہے۔ واضح ہے کہ خدا کے ہاں ان میں سے کوئی بھی بات کچھ مفہوم نہیں رکھتی کیونکہ وہ تو عالم ہستی کو پیدا کرنے والا، تمام چیزوں پر قدرت رکھنے والا اور ازلی و ابدی ہے۔ علاوہ ازیں جسم صاحب اولاد ہونے کالا زمہ ہے اور خدا اس سے بھی منزہ ہے۔ (!!) کن فیکون کی تفسیر: یہ تعبیر قرآن کی بہت سی آیات مےں آئی ہے۔ ان میں سورہ آل عمران ۴۷ اور ۵۹، سورہ انعام آیہ ۷۳، سورہ نحل آیہ ۴۰، سورہ مریم آیہ ۳۵ اور سورہ یس آیہ ۸۲ و غیرہ شامل ہیں۔
یہ جملہ خدا کے ارادہ تکوینی اور امر خلقت میں اس کی حاکمیت کے متعلق گفتگو کرتاہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ کن فیکون (ہوجا پس وہ فورا ہوجاتاہے) سے مراد یہ نہیں کہ خدا کوئی لفظی فرمان(ہوجا) کی صورت میں صادر فرماتا ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ جس وقت وہ کسی چیز کو وجود عطا فرمانے کا ارادہ کرتاہے وہ بڑی ہویا چھوٹی، پیچیدہ ہو یا سادہ، ایک اٹیم کے برابر ہو یا تمام آسمانوں اور زمین کے برابر ہوکسی علت کی احتیاج کے بغیر وہ ارادہ خود بخود عمل جامہ پہن لیتاہے۔ اس ارادہ اور موجود کی پیدائش کے در میان لحظے کا فاصلہ بھی نہیں ہوتا۔
اصولی طور پر کوئی زمانہ اس کے در میان نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے حرف فا (فیکون میں) جو عموما تاخیر زمانی کے لئے آتاہے البتہ ایسی تاخیر جو اتصال کی قوام ہو یہاں صرف تاخیر رتبہ کے لحاظ سے ہے (جیسا کہ فلسفہ میں ثابت ہوچکا ہے کہ معلول اپنی علت سے رتبے کے لحاظ سے تو متایخر ہے لیکن زمانے کے لحاظ سے نہیں)۔
یہ اشتباہ نہیں ہونا چاہئیے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ ارادہ الہی آنی الوجود ہے( ۲)
۲۔یعنی ارادہ الہی سے کوئی چیز آنا فانا وجود میں آجاتی ہے۔ (مترجم)
بلکہ مراد یہ ہے کہ جیسا وہ ارادہ کرے موجود اسی طرح وجود پاتاہے۔
یا مثلا۔ اگر وہ ارادہ کرے کہ بچہ شکم مادر کی جنین میں نو ماہ اور نودن میں اپنی تکمیل کے مرحلے طے کرے تو لحظہ بھر کی کمی بیشی کے بغیر یونہی انجام پذیر ہوگا اور اگر ارادہ کرے کہ تکامل کا یہ دور ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے سے بھی کم مقدار میں پورا کرے تو یقینا ایسا ہوگا کیونکہ خلقت کے لئے انکا ارادہ علت تامہ ہے اور علت تامہ و معلول کے در میان کسی قسم کا فاصلہ نہیں ہوسکتا۔
(!!!) کوئی چیز کیسے عدم سے وجود میں آتی ہے: لفظ (بدیع) کا مادہ ہے (بدع) جس کا معنی ہے بغیر کسی سابقہ کے کسی چیز کا وجود میں آنا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ آسمانوں اور زمین کو خدانے بغیر کسی مادے اور بغیر کسی پہلو نمونے کے وجود بخشاہے۔
اب یہ سوال ہوگا کہ کیا ایسا بھی ہوسکتاہے کہ کوئی چیز عدم سے وجود میں آجائے جب کہ عدم وجود کی ضروت مندہے۔ لہذا یہ کیسے علت اور منشاء وجود ہوسکتاہے۔ کیا واقعا یہ باور کیاجاسکتاہے کہ نیستی سبب ہستی ہو۔ مسئلہ ابداع پر ماد یین کا یہ پرانا اعتراض ہے۔
اس کا جواب پیش خدمت ہے:
پہلے مرحلے میں تو یہ اعترا ض خود مادہ پرستوں پر بھی وارد ہوتاہے اس کی وضاحت یہ ہے کہ ان کا اعتقاد ہے کہ یہ جہان قدیم اور ازلی ہے اور کوئی چیز بھی آج تک اس میں سے کم نہیں ہوئی اور یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات میں کئی تغیرات آئے ہیں جن سے مادے کی یہ صورت بدلی ہے جو ہمیشہ بدلتی رہتی۔ گویا صورت بدلتی ہے نہ کہ مادہ۔
اب ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ مادے کی جو موجودہ صورت ہے یقینا وہ پہلے تو نہ تھی۔ اب یہ صورت کیسے وجود میں آئی کیا عدم سے وجود میں آئی۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر عدم کیسے وجود صورت کا منشاء ہوسکتاہے۔
مثلا ایک نقاش قلم اور سیاہی سے کاغذ پر ایک بہترین منظر بناتا ہے۔ مادہ پرست کہتے ہیں کہ اس کا جوہر اور سیاہی تو پہلے سے موجود تھی۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ منظر (صورت) جو پہلے موجود نہ تھا کس طرح وجود میں آیا۔ جو جواب وہ صورت کے عدم سے پیدا ہوجانے کے متعلق دیں گے وہی جواب ہم مادہ کے سلسلے میں دیں گے
دوسرے مرحلہ میں قابل توجہ امر یہ ہے کہ لفظ (سے) کی وجہ سے اشتباہ ہواہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ عالم نیستی سے ہستی میں آیاہے کا مطلب ایسے ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ میز لکڑی سے بنائی گئی ہے۔ جس میں میز بنانے کے لئے لکڑی کا پہلے موجود ہونا ضروری ہے تا کہ میز بن سکے جب کہ عالم نیستی سے ہستی میں آیاہے کا معنی یوں نہیں بلکہ اس کا معنی ہے کہ عالم پہلے موجود نہ تھا بعد میں وجود پذیر ہوا۔
فلسفے کی زباں میں یوں کہنا چاہئیے کہ ہر موجود ممکن (جو اپنی ذات سے وجود نہ رکھتا ہو) کو اپنی تشکیل کے لئے دو پہلو درکارہیں (ماہیت) اور ( وجود)۔
(ماہیت )ایک اعتباری معنی ہے کہ جس کی نسبت وجود و عدم کے ساتھ مساوی ہے۔ یہ الفاظ دیگر وہ قدر مشترک جو کسی چیز کے وجود اور عدم کو دیکھنے سے دستیاب ہو اس کا نام ماہیت ہے۔ مثلا یہ درخت پہلے نہیں تھا۔ اب وجود رکھتاہے۔ جو چیز وجود و عدم سے ثابت ہو وہ ماہیت ہے لہذا جب ہم کہتے ہیں کہ خدا عالم کو عدم سے وجود میں لایاہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عالم حالت عدم کے بعد حالت وجود میں آگیاہے دوسرے لفظوں میں ماہیت کو حالت عدم سے حالت وجود میں لایاگیاہے۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.