مختصر جواب:
مفصل جواب:
سورہ بقرہ کی ۱۲۴ویں آیت میں فرمایا ۔(وہ وقت یاد کرو) جب خدانے ابراہیم کو مختلف طریقوں سے آزمایا اور وہ ان سے عمدگی سے عہدہ برآںہوئے تو خدا نے ان سے کہا: میں نے تمہیں لوگوں کا امام و رہبر قرار دیا۔ ابراہیم نے کہا: میری نسل اور خاندان میں سے (بھی ائمہ قرار دے)۔ خدا نے فرمایا: میرا عہد (مقام امامت) ظالموں کو نہیں پہنچتا (اور تماری اولاد میں سے جو پاک اور معصوم ہیں وہی اس مقام کے لائق ہیں)۔
وَ إِذِ ابْتَلى إِبْراهیمَ رَبُّهُ بِکَلِمات فَأَتَمَّهُنَّ قالَ إِنِّی جاعِلُکَ لِلنّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتی قالَ لایَنالُ عَهْدِی الظّالِمینَ
امام کا تعین خدا کی طرف سے ہونا چاہئیے:
زیر بحث آیت سے ضمنا یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ امام (ہر لحاظ سے لوگوں کے رہبر کے مفہوم کے اعتبارسے) خدا کی طرف سے معین ہونا چاہئیے۔ کیونکہ امامت ایک قسم کا خدائی عہد و پیمان ہے اور واضح ہے کہ جسے خدا معین کرے گا اس پیمان کے ایک طرف خود خدا ہوگا۔
یہ بھی ظاہر ہوا کہ جن لوگوں کے ہاتھ ظلم و ستم سے رنگے ہوئے ہیں اور ان کی زندگی میں کہیں ظلم کا نشان موجود ہے۔ چاہے اپنے اوپر ظلم ہی کیوں نہ ہو یہاں تک کہ ایک لحظے کے لئے بت پرستی کی ہو وہ امامت کی اہلیت نہیں رکھتے۔
اصطلاح میں کہتے ہیں کہ امام کو اپنی تمام زندگی میں معصوم ہوناچاہئیے۔
کیا خدا کے سوا کوئی صفت عصمت سے آگاہ ہوسکتاہے:۔
اگر اس معیار پر جانشین پیغمبر کا تعین کیاجائے تو حضرت علی کے علاوہ کوئی خلیفہ نہیں ہوسکتا۔
تعجب کی بات ہے کہ المنار کے مولف نے حضرت ابو حنیفہ کا ایک قول نقل کیاہے جس کے مطابق ان کا اعتقاد تھا کہ خلافت منحصرا اولاد علی کے شایان شان ہے، اسی بناء پر وہ حاکم وقت (منصور عباسی) کے خلاف مظاہرات کو جائز سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے خلفائے بنی عباس کی حکومت میں انہوں نے منصب قضاوت قبول کرنے سے انکار کردیا۔
المنار کا مولف اس کے بعد مزید لکھتاہے کہ آئمہ اربع سب کے سب اپنے وقت کی حکومتوں کے مخالف تھے اور انہیں مسلمانوں کی حکمرانی کے لئے اہل نہ سمجھتے تھے کیونکہ وہ ظالم و ستمگر تھے۔
لیکن یہ بات باعث تعجب ہے کہ ہمارے زمانے میں بہت سے علماء اہل سنت ظالم و جابر اور خود سر حکومتوں کی تائید کرتے ہیں اور انہیں تقویت پہنچاتے ہیں جب کہ یہ سب پر آشکار ہے کہ ان حکومتوں کے روابط ان دشمنان اسلام سے ہیں جن کا ظلم و فساد کسی سے پوشیدہ نہیں۔ صرف اتنی سی بات نہیں بلکہ انہیں اولوا الامر واجب الاطاعت سمجھتے ہیں۔
وَ إِذِ ابْتَلى إِبْراهیمَ رَبُّهُ بِکَلِمات فَأَتَمَّهُنَّ قالَ إِنِّی جاعِلُکَ لِلنّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتی قالَ لایَنالُ عَهْدِی الظّالِمینَ
امام کا تعین خدا کی طرف سے ہونا چاہئیے:
زیر بحث آیت سے ضمنا یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ امام (ہر لحاظ سے لوگوں کے رہبر کے مفہوم کے اعتبارسے) خدا کی طرف سے معین ہونا چاہئیے۔ کیونکہ امامت ایک قسم کا خدائی عہد و پیمان ہے اور واضح ہے کہ جسے خدا معین کرے گا اس پیمان کے ایک طرف خود خدا ہوگا۔
یہ بھی ظاہر ہوا کہ جن لوگوں کے ہاتھ ظلم و ستم سے رنگے ہوئے ہیں اور ان کی زندگی میں کہیں ظلم کا نشان موجود ہے۔ چاہے اپنے اوپر ظلم ہی کیوں نہ ہو یہاں تک کہ ایک لحظے کے لئے بت پرستی کی ہو وہ امامت کی اہلیت نہیں رکھتے۔
اصطلاح میں کہتے ہیں کہ امام کو اپنی تمام زندگی میں معصوم ہوناچاہئیے۔
کیا خدا کے سوا کوئی صفت عصمت سے آگاہ ہوسکتاہے:۔
اگر اس معیار پر جانشین پیغمبر کا تعین کیاجائے تو حضرت علی کے علاوہ کوئی خلیفہ نہیں ہوسکتا۔
تعجب کی بات ہے کہ المنار کے مولف نے حضرت ابو حنیفہ کا ایک قول نقل کیاہے جس کے مطابق ان کا اعتقاد تھا کہ خلافت منحصرا اولاد علی کے شایان شان ہے، اسی بناء پر وہ حاکم وقت (منصور عباسی) کے خلاف مظاہرات کو جائز سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے خلفائے بنی عباس کی حکومت میں انہوں نے منصب قضاوت قبول کرنے سے انکار کردیا۔
المنار کا مولف اس کے بعد مزید لکھتاہے کہ آئمہ اربع سب کے سب اپنے وقت کی حکومتوں کے مخالف تھے اور انہیں مسلمانوں کی حکمرانی کے لئے اہل نہ سمجھتے تھے کیونکہ وہ ظالم و ستمگر تھے۔
لیکن یہ بات باعث تعجب ہے کہ ہمارے زمانے میں بہت سے علماء اہل سنت ظالم و جابر اور خود سر حکومتوں کی تائید کرتے ہیں اور انہیں تقویت پہنچاتے ہیں جب کہ یہ سب پر آشکار ہے کہ ان حکومتوں کے روابط ان دشمنان اسلام سے ہیں جن کا ظلم و فساد کسی سے پوشیدہ نہیں۔ صرف اتنی سی بات نہیں بلکہ انہیں اولوا الامر واجب الاطاعت سمجھتے ہیں۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.