مختصر جواب:
مفصل جواب:
لفظ (آیت ) سے کیا مراد ہے: لغت میں (آیت ) نشانی اور علامت کو کہتے ہیں۔ قرآن میں یہ لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ مثلا
۱۔ قرآن کے جملے اور فقرے جو خاص علامات کے ساتھ ایک دوسرے سے جدا کئے گئے ہیں وہ آیت کے نام سے مشہور ہیں۔ جیسا کہ خود قرآن میں ہے:
تِلْکَ آیَاتُ اللهِ نَتْلُوہَا عَلَیْکَ بِالْحَقِّ
یہ اللہ کی آیات ہیں جنہیں ہم آپ پر تلاوت کرتے ہیں۔ (بقرہ ۲۵۲)
۲۔ معجزات کا ذکر آیت کے عنوان سے ہواہے۔ چنانکہ حضرت موسی کے مشہور معجزہ ید بیضا کے بارے میں ہے:
وَاضْمُمْ یَدَکَ إِلَی جَنَاحِکَ تَخْرُجْ بَیْضَاءَ مِنْ غَیْرِ سُوءٍ آیَةً اٴُخْرَی
ہاتھ گریبان میں بغل کے نیچے تک لے جاو جب وہ باہر نکلے گا تو سفید چمکنے والا بے عیب و نقص ہوگا اور یہ ایک اور معجزہ ہے۔ (طہ۔۲۲)
۳۔ خدا شناسی کی دلیل یا قیامت کی نشانی کے لئے بھی لفظ آیات قرآن میں آیاہے۔ ارشاد الہی ہے:
و جعلنا الیل و النہار ایتین
رات اور دن کو ہم نے (خدا شناسی کے لئے) دو دلیلیں قرار دیا۔ (بنی اسرائیل۔۱۲)
قیامت پر استدلال کے موقع پر فرمایا:
و من ایتہ انک تری الارض خاشعة فاذا انزلنا علیہا الماء اہتزت و ربت ان الذی احیاھا لمحی الموتی انہ علی کل شی قدیر
اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک اور سونی پڑی ہوئی ہے لیکن جب اس پر (بارش کا) پانی برستاہے تو وہ حرکت میں آتی ہے اور اس کے سبزے اگنے لگتے ہیں۔ وہی ذات جس نے زمین کو زندہ کیاہے۔ مردوں کو بھی زندہ کرے گی۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (حم السجدہ۔۳۹)
۴۔ آنکھوں کو متاثر کرنے والی چیزوں کے لئے بھی یہ لفظ آیاہے۔ مثلا اس آیت میں بلند و عالی محلات کے بارے میں ہے:
اتبنون بکل ریع ایة تعبثون
کیا ہر بلند جگہ پر عمارتیں بناتے ہو تا کہ ان میں مصروف لہو و لعب رہ سکو۔ (شعراء۔۱۲۸)
واضح ہے کہ ان مختلف معانی میں ایک قدر مشترک ہے اور و ہ ہے (نشانی)۔ البتہ زیر بحث آیات میں قرآن نے کہاہے(ہم اگر ایک آیت منسوخ کرتے ہیں تو اس جیسی یا اس سے بہتر لاتے، ہیں) یہاں آیت سے مراد حکم سے۔ اگر ایک منسوخ ہوا تو اس سے بہتر نازل ہوگا یا اگر ایک نبی کا معجزہ منسوخ ہوا تو بعد والے نبی کو زیادہ واضح معجزہ دیاجاتاہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ بعض روایات میں مندرجہ بالا آیت کی تفسیر کے ذیل میں ہے کہ نسخ آیت ایک امام کی وفات اور اس کی جگہ دوسرے کی تقرری کی طرف اشارہ ہے۔ تو یہ مفہوم زیر نظر آیت کا ایک مصداق ہے۔
)(!!!)ننسھا) کی تفسیر: (ننسھا) کا لفظ محل بحث آیات میں (ننسخ) پر عطف ہے۔ اس کا مادہ (انساء) ہے۔ یہاں یہ لفظ تاخیر کرنے، حذف کرنے اور اذہان سے زائل کرنے کے معنی میں آیاہے۔
اب یہ سوال پیدا ہوگا کہ (ننسخ) کو سامنے رکھتے ہوئے اس لفظ کا مفہوم کیا ہوگا۔ جواب یہ ہے کہ یہاں مقصد یہ ہے کہ اگر ہم کسی آیت کو منسوخ کریں یا اس کا تنسیخ میں بعض مصالح کے پیش نظر تاخیر کریں تو ہر صورت میں اس سے بہتر یا اس جیسی آیت لے آئیں گے۔ اس بناء پر لفظ (ننسخ) تھوڑی مدت کے نسخ کے لئے اور (ننسہا) دراز مدت کے نسخ کے لئے ہے۔
(!) (او مثلہا) کی تفسیر: مندرجہ بالا بات کو پیش نظر رکھیں تو فورا سوال پیدا ہوگا کہ (او مثلھا )سے کیا مراد ہے۔ اگر کوئی حکم پہلے جیسے حکم کی طرح کاہے تو فضول نظر آتاہے۔ اس کی کیا ضرورت ہے کہ ایک چیز منسوخ کرکے اس جیسی ہی دوسری چیز لائی جائے ناسخ کو منسوخ سے بہتر ہونا چاہیئے تا کہ نسخ قابل قبول ہو۔
اس سوال کے جواب میں کہنا چاہیئے کہ مثل سے مراد یہ ہے کہ ایسا حکم اور قانون پیش کیاجائے جس کا اثر بھی گذشتہ زمانے میں گذشتہ قانون کا ساہو۔
اس کی توضیح یہ ہے کہ ہوسکتاہے ایک حکم آج کئی آثار و فوائد کا حامل ہو لیکن اس سے یہ آثار کھو جائیں۔
اس صورت میں اسے منسوخ ہوجانا چاہئیے اور اس کی جگہ نیا حکم آنا چاہیئے جو اگر اس سے بہتر نہ ہو تو کم از کم اس جیسے آثار کا حامل ہو اور یہ چیز زمانے اور حالات سے وابستہ ہے کہ کبھی گذشتہ حکم کی طرح کا قانون چاہیئے اور کبھی اس سے بہتر۔ اس طرح کسی قسم کا کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا۔
۱۔ قرآن کے جملے اور فقرے جو خاص علامات کے ساتھ ایک دوسرے سے جدا کئے گئے ہیں وہ آیت کے نام سے مشہور ہیں۔ جیسا کہ خود قرآن میں ہے:
تِلْکَ آیَاتُ اللهِ نَتْلُوہَا عَلَیْکَ بِالْحَقِّ
یہ اللہ کی آیات ہیں جنہیں ہم آپ پر تلاوت کرتے ہیں۔ (بقرہ ۲۵۲)
۲۔ معجزات کا ذکر آیت کے عنوان سے ہواہے۔ چنانکہ حضرت موسی کے مشہور معجزہ ید بیضا کے بارے میں ہے:
وَاضْمُمْ یَدَکَ إِلَی جَنَاحِکَ تَخْرُجْ بَیْضَاءَ مِنْ غَیْرِ سُوءٍ آیَةً اٴُخْرَی
ہاتھ گریبان میں بغل کے نیچے تک لے جاو جب وہ باہر نکلے گا تو سفید چمکنے والا بے عیب و نقص ہوگا اور یہ ایک اور معجزہ ہے۔ (طہ۔۲۲)
۳۔ خدا شناسی کی دلیل یا قیامت کی نشانی کے لئے بھی لفظ آیات قرآن میں آیاہے۔ ارشاد الہی ہے:
و جعلنا الیل و النہار ایتین
رات اور دن کو ہم نے (خدا شناسی کے لئے) دو دلیلیں قرار دیا۔ (بنی اسرائیل۔۱۲)
قیامت پر استدلال کے موقع پر فرمایا:
و من ایتہ انک تری الارض خاشعة فاذا انزلنا علیہا الماء اہتزت و ربت ان الذی احیاھا لمحی الموتی انہ علی کل شی قدیر
اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک اور سونی پڑی ہوئی ہے لیکن جب اس پر (بارش کا) پانی برستاہے تو وہ حرکت میں آتی ہے اور اس کے سبزے اگنے لگتے ہیں۔ وہی ذات جس نے زمین کو زندہ کیاہے۔ مردوں کو بھی زندہ کرے گی۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (حم السجدہ۔۳۹)
۴۔ آنکھوں کو متاثر کرنے والی چیزوں کے لئے بھی یہ لفظ آیاہے۔ مثلا اس آیت میں بلند و عالی محلات کے بارے میں ہے:
اتبنون بکل ریع ایة تعبثون
کیا ہر بلند جگہ پر عمارتیں بناتے ہو تا کہ ان میں مصروف لہو و لعب رہ سکو۔ (شعراء۔۱۲۸)
واضح ہے کہ ان مختلف معانی میں ایک قدر مشترک ہے اور و ہ ہے (نشانی)۔ البتہ زیر بحث آیات میں قرآن نے کہاہے(ہم اگر ایک آیت منسوخ کرتے ہیں تو اس جیسی یا اس سے بہتر لاتے، ہیں) یہاں آیت سے مراد حکم سے۔ اگر ایک منسوخ ہوا تو اس سے بہتر نازل ہوگا یا اگر ایک نبی کا معجزہ منسوخ ہوا تو بعد والے نبی کو زیادہ واضح معجزہ دیاجاتاہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ بعض روایات میں مندرجہ بالا آیت کی تفسیر کے ذیل میں ہے کہ نسخ آیت ایک امام کی وفات اور اس کی جگہ دوسرے کی تقرری کی طرف اشارہ ہے۔ تو یہ مفہوم زیر نظر آیت کا ایک مصداق ہے۔
)(!!!)ننسھا) کی تفسیر: (ننسھا) کا لفظ محل بحث آیات میں (ننسخ) پر عطف ہے۔ اس کا مادہ (انساء) ہے۔ یہاں یہ لفظ تاخیر کرنے، حذف کرنے اور اذہان سے زائل کرنے کے معنی میں آیاہے۔
اب یہ سوال پیدا ہوگا کہ (ننسخ) کو سامنے رکھتے ہوئے اس لفظ کا مفہوم کیا ہوگا۔ جواب یہ ہے کہ یہاں مقصد یہ ہے کہ اگر ہم کسی آیت کو منسوخ کریں یا اس کا تنسیخ میں بعض مصالح کے پیش نظر تاخیر کریں تو ہر صورت میں اس سے بہتر یا اس جیسی آیت لے آئیں گے۔ اس بناء پر لفظ (ننسخ) تھوڑی مدت کے نسخ کے لئے اور (ننسہا) دراز مدت کے نسخ کے لئے ہے۔
(!) (او مثلہا) کی تفسیر: مندرجہ بالا بات کو پیش نظر رکھیں تو فورا سوال پیدا ہوگا کہ (او مثلھا )سے کیا مراد ہے۔ اگر کوئی حکم پہلے جیسے حکم کی طرح کاہے تو فضول نظر آتاہے۔ اس کی کیا ضرورت ہے کہ ایک چیز منسوخ کرکے اس جیسی ہی دوسری چیز لائی جائے ناسخ کو منسوخ سے بہتر ہونا چاہیئے تا کہ نسخ قابل قبول ہو۔
اس سوال کے جواب میں کہنا چاہیئے کہ مثل سے مراد یہ ہے کہ ایسا حکم اور قانون پیش کیاجائے جس کا اثر بھی گذشتہ زمانے میں گذشتہ قانون کا ساہو۔
اس کی توضیح یہ ہے کہ ہوسکتاہے ایک حکم آج کئی آثار و فوائد کا حامل ہو لیکن اس سے یہ آثار کھو جائیں۔
اس صورت میں اسے منسوخ ہوجانا چاہئیے اور اس کی جگہ نیا حکم آنا چاہیئے جو اگر اس سے بہتر نہ ہو تو کم از کم اس جیسے آثار کا حامل ہو اور یہ چیز زمانے اور حالات سے وابستہ ہے کہ کبھی گذشتہ حکم کی طرح کا قانون چاہیئے اور کبھی اس سے بہتر۔ اس طرح کسی قسم کا کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.