مختصر جواب:
مفصل جواب:
حضرت یعقوب جو حضرت یوسف کے والد تھے ان کا ایک نام ” اسرائیل “ بھی ہے ۔حضرت یعقوب نے اپنا یہ نام کیوں رکھا تھا ۔ اس سلسلہ میں غیر مسلم مئورخین نے ایسی باتیں لکھی ہیں جو خرافات کا پلندہ ہیں جیسے ” کتاب مقدس “ میں لکھا ہے :
اسرائیل کا معنی وہ شخص ہے جو خدا پر غالب اور کامیاب ہو گیا ہو "
وہ مزید لکھتا ہے :
" یہ لفط یعقوب بن اسحاق کا لقب ہے جنہیں خدا کے فرشتوں نے کشتی لڑتے وقت یہ لقب ملا تھا "
اسی کتاب میں یہ لفظ یعقوب کے نیچے لکھا ہے :
" جب انہوں نے اپنے اثبات و استقا مت ایمان کو ظاہر کیا تو خدا وند نے اس کا نام بدل کر اسرائیل رکھ دیا اور وعدہ کیا کہ وہ عوام کے گروہوں کے باپ ہوں گے ۔ خلاصہ یہ کہ وہ انتہائی کمال کے ساتھ اس دنیا سے گئے اور دنیا کے کسی بادشاہ کی طرح دفن نہ ہوئے اور اسم یعقوب و اسرائیل ان کی پوری قوم کے لئے بولا جاتا ہے "
لفظ ”اسرائیل “ کے ذیل میں لکھتاہے :
اس نام کے بہت سے موارد ہیں چنانچہ کبھی اس سے مراد نسل اسرائیل و نسل یعقوب بھی ہوتی ہے۔
علماء اسلام اس سلسلے میں اختلاف رکھتے ہیں مثلاََ مشہور طبرسی مجمع البیان میں لکھتے ہیں :
"اسرائیل وہی فرزند اسحاق بن ابراہیم ہیں "
وہ لکھتے ہیں :’
’اس ، کے معنی عبد ، اور ئیل ، کے معنی ، اللہ ، لہذا ، اسرائیل ، کے معنی ، عبداللہ ، یعنی اللہ کا بندہ "
واضح ہے کہ اسرائیل کی فرشتوں سے کشتی لڑنے کی داستان جیسے کہ تحر یف شدہ تورات میں اب بھی موجود ہے ایک خود ساختہ اور بچگانہ کہانی ہے جو آسمانی کتاب کی شان سے بعید ہے اور یہی داستان موجودہ تورات کے تحریف شدہ ہونے کی دلیل و مدرک ہے۔
اسرائیل کا معنی وہ شخص ہے جو خدا پر غالب اور کامیاب ہو گیا ہو "
وہ مزید لکھتا ہے :
" یہ لفط یعقوب بن اسحاق کا لقب ہے جنہیں خدا کے فرشتوں نے کشتی لڑتے وقت یہ لقب ملا تھا "
اسی کتاب میں یہ لفظ یعقوب کے نیچے لکھا ہے :
" جب انہوں نے اپنے اثبات و استقا مت ایمان کو ظاہر کیا تو خدا وند نے اس کا نام بدل کر اسرائیل رکھ دیا اور وعدہ کیا کہ وہ عوام کے گروہوں کے باپ ہوں گے ۔ خلاصہ یہ کہ وہ انتہائی کمال کے ساتھ اس دنیا سے گئے اور دنیا کے کسی بادشاہ کی طرح دفن نہ ہوئے اور اسم یعقوب و اسرائیل ان کی پوری قوم کے لئے بولا جاتا ہے "
لفظ ”اسرائیل “ کے ذیل میں لکھتاہے :
اس نام کے بہت سے موارد ہیں چنانچہ کبھی اس سے مراد نسل اسرائیل و نسل یعقوب بھی ہوتی ہے۔
علماء اسلام اس سلسلے میں اختلاف رکھتے ہیں مثلاََ مشہور طبرسی مجمع البیان میں لکھتے ہیں :
"اسرائیل وہی فرزند اسحاق بن ابراہیم ہیں "
وہ لکھتے ہیں :’
’اس ، کے معنی عبد ، اور ئیل ، کے معنی ، اللہ ، لہذا ، اسرائیل ، کے معنی ، عبداللہ ، یعنی اللہ کا بندہ "
واضح ہے کہ اسرائیل کی فرشتوں سے کشتی لڑنے کی داستان جیسے کہ تحر یف شدہ تورات میں اب بھی موجود ہے ایک خود ساختہ اور بچگانہ کہانی ہے جو آسمانی کتاب کی شان سے بعید ہے اور یہی داستان موجودہ تورات کے تحریف شدہ ہونے کی دلیل و مدرک ہے۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.