مختصر جواب:
مفصل جواب:
پہلے ہم اس واقعے کی تشریح اور آیات کی تفسیر بیان کرتے ہیں بعد ازاں اس کے نکات کی طرف جائیں گے ۔
جیسا کہ اایات قرآن اور اقوال مفسرین سے ظاہر ہوتا ہے بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نامعلوم طور پر قتل ہوجاتا ہے اس کے قاتل کا کسی طرح پتہ نہیں چلتا بنی اسرائیل کے قبائل کے درمیان جھگرا اور نزاع شروع ہوجاتا ہے ۔ ان مین سے ہر ایک دوسرے قبیلے اور دیگر لوگون کو اس کاذمہ دار گردانتا ہے اور اپنے تئیں بری الذمہ قرار دیتا ہے ، جھگڑا ختم کرنے کے لئے مقدمہ حضرت موسیٰ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے اور لوگ آپ سے اس موقع پر مشکل کشائی کی درخواست کرتے ہیں اور اس کا حل چاہتے ہیں ۔ چونکہ عام اور معروف طریقوں سے اس فیصلے کا فیصلہ ممکن نہ تھا اور دوسری طرف اس کشمکش کے جاری رہنے سے ممکن تھا بنی اسرائیل میں ایک عطیم فتنہ کھڑا ہوجاتا لہذا جیسا کہ آپ ان آیات کی تفسیر میں پڑھیں گے حضرت موسیٰ پروردگار سے مدد لے کر اعجاز کے راستے اس مشکل کو حل کرتے ہیں اس طرف توجہ ضروری ہے کہ موجودہ تورات کی فصل ۲۱ سفر تثنیہ میں بھی اس واقعے کی طرف اشارہ موجود ہے البتہ موجودہ تورات میں جو کچھ ہے وہ ایک حکم کی صورت میں ہے جب کہ قرآن میں جو کچھ ہے وہ ایک واقعے کی صورت میں ہے ۔ بہر حال فصل ۲۱ میں پہلے جملے سے لے کر نویں جملے تک کی عبادت کچھ یوں ہے : اگر کسی مقتول کو ایسی زمین میں جو خدا وندے عالم نے تجھے میراث دی ہے۔ صحرا میں پڑا دیکھو اور معلوم نہ ہوسکے کہ اس کا قاتل کون ہے ۔ اس وقت تیرے مشائخ اور قاضی باہر جاکر ان شہروں کے فاصلے کی پیمائش کریں جو مقتول کے ارد گرد ہیں اور وہی شہر مقرر ہے جو مقتول کے زیادہ قریب ہے ۔
اس شہر کے مشائخ ہی اس گائے کو درہ ناہموار میں ایسی جگہ لے جائیں جہاں کوئی کھیتی باڑی نہ ہوئی ہو ۔ وہی درہ کے دروازے پر گائے کی گردن کاٹ دیں ۔ بنی لیوی کے کاہن حضرات نزدیک آئیں ۔ خدا وند تیرے خدا نے انہیں منتخب کیا ہے تاکہ وہ اس کی خدمت کریں اور خدا کے نام کے ساتھ دعائے خیر کریں اور نزاع اور جھگڑے کا فییصلہ ان کے حکم کے مطابق ہو اور وہ شہر جو قتل کے نزدیک ہے اس کے تمام مشائخ اپنے ہاتھ اس گائے پر دھو ئیں جو درہ کے دروازے پر ذبح ہوئی ہے اور بآواز کہیں کہ یہ خون ہمارے ہاتھوں نے نہیں بہایا اور ہماری آنکھوں نے نہیں دیکھا ۔ اے خدا وند ! : اپنی قوم اسرائیل کو کہ جسے دوبارہ تو نے خرید کیا ہے بخش دے اور اپنی قوم اسرائیل کو ناحق سے منسوب نہ کر اور وہ خون ان کے لئے معاف ہوجائے ۔ اس طریقہ سے خون ناحق اپنے درمیان سے رفع کرے گا ۔ کیونکہ خدا وند کی نظر میں وہی درست ہے جسے تو عمل میں لائے گا ) عہد قدیم مطبوعہ ۱۸۷۸
قرآن نے فرمایا : یاد کرو اس وقت کو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا ( قاتل کو تلاش کرنے کے لئے ) پہلی گائے ( جو تمہیں مل جائے اس کو ذبح کرو ( و اذ قال موسیٰ لقومہ ان اللہ یا مرکم ان تذبحو ا بقرة)
انہوں نے بطورتعجب کہا : میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں ( قال اعوذ با اللہ ان اکون من الجٰھلین) ۔ یعنی استہزاء اور تمسخر کرنا نادان اور جاہل افراد کا کام ہے اور خدا کا رسول یقینا ایسا نہیں ہے ۔اس کے بعد انہیں اطمینان ہوگیا کہ استہزاء و مذاق نہیں بلکہ سنجیدہ گفتگو ہے تو کہنے لگے اب اگر ایسا ہی ہے تو اپنے پروردگار سے کہیے کہ ہمارے لیے مشخص و معین کردے کہ وہ گائے کس قسم کی ہو ( قالوا ادع لنا ربک یبین لنا ماھی ) ”اپنے خدا سے کہو “ ان کے سوالات میں یہ جملہ بتکرار آیا ہے ۔ اس میں ایک طرح کا سوئے ادب یا سربستہ استہزاء و مذاق پایا جاتا ہے ۔یہ کیوں نہیں کہتے تھے ” ہمارے خدا سے دعا کیجئے “ کیا وہ حضرت موسیٰ کے خدا کو اپنے خدا سے جدا سمجھتے تھے ۔
بہر حال حضرت موسیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا : خدا فرماتا ہے ایسی گائے ہو جو نہ بوڑھی ہو او بے کار ہوچکی ہو اور نہ ہی جو ان بلکہ ان کے درمیان ہو ( قال انہ یقول انھا بقرة لا فارض ولا بکر عوان بین ذٰلک ) ۔
اس مقصد کے لئے کہ وہ اس سے زیادہ اس مسئلے کو طول نہ دیں اور بہانہ تراشی سے حکم ِ خدا میں تاخیر نہ کریں اپنے کلام کے آخر میں مزید کہا : جو تمہیں حکم دیا گیا ہے ( جتنی جلدی ہوسکے ) اسے انجام دو (فافعلو ا ما توء مرون )۔
لیکن انہوں نے پھر بھی زیادہ باتیں بنانے اور ڈھٹائی دکھانے سے ہاتھ نہیں اٹھایا اور کہنے لگے اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ وہ ہمارے لئے واضح کرے کہ اس کا رنگ کیسا ہو ( قالو ا ادع لنا ربک یبین لنا ما لونھا ) ۔
موسیٰ نے جواب میں کہا : وہ گائے ساری کی ساری زرد رنگ کی ہو جس کارنگ دیکھنے والوں کو بھلا لگے ( و قال انہ یقول انھا بقرة صفراء فاقع لونھا تسر النٰظرین) ۔
خلاصہ یہ کہ وہ گائے مکمل طور پر خوش رنگ اور چمکیلی ہو ۔ ایسی دیدہ زیب کہ دیکھنے والوں کو تعجب میں ڈال دے ۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس پر اکتفاء نہ کیا اور اسی طرح ہر مرتبہ بہانہ جوئی سے کام لے کر اپنے آپ کو اور مشکل میں ڈالتے گئے۔ پھر کہنے لگے اپنے پروردگار سے کہیے کہ ہمیں واضح کرے کہ یہ گائے ( کام کرنے کے لحاظ سے ) کیسی ہونی چاہیئے،
(قالوا ادع لنا یبین لنا ماھی ) ۔ کیونکہ یہ گائے ہمارے لئے مبہم ہوگئی ہے ( ان البقرہ تشابہ علینا ) اور اگر خدا نے چاہا تو ہم ہدایت پالیں گے (و انا ان شاء اللہ لمھتدون )۔
حضرت موسیٰ نے پھر سے کہا : خدا فرماتا ہے وہ ایسی گائے ہو جو اتنی سدھائی ہوئی نہ ہو کہ زمین جوتے اور کھیتی سینچے ( قال انہ یقول انھا بقرة لا ذلول تثیر الارض ولا تسقی الحرث ) ہر عیب سے پاک ہو ( مسلمة ) حتی کہ اس میں کسی قسم کا دوسرا رنگ نہ ہو ( لاشیة فیھا ) ۔
اب کہ بہانہ سازی کے لئے ان کے پاس کوئی سوال باقی نہ تھا ، جتنے سوالات وہ کر سکتے تھے سب ختم ہو گئے تو کہنے لگے : اب تو نے حق بات کہی ہے ( قالوا الان جئت بالحق )
پھر جس طرح ہوسکا انہوں نے وہ گائے مہیا کی اور اسے ذبح کیا لیکن در اصل وہ یہ کام کرنا نہ چاہتے تھے ( فذبحوھا و ما کادو یفعلون )
جیسا کہ اایات قرآن اور اقوال مفسرین سے ظاہر ہوتا ہے بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نامعلوم طور پر قتل ہوجاتا ہے اس کے قاتل کا کسی طرح پتہ نہیں چلتا بنی اسرائیل کے قبائل کے درمیان جھگرا اور نزاع شروع ہوجاتا ہے ۔ ان مین سے ہر ایک دوسرے قبیلے اور دیگر لوگون کو اس کاذمہ دار گردانتا ہے اور اپنے تئیں بری الذمہ قرار دیتا ہے ، جھگڑا ختم کرنے کے لئے مقدمہ حضرت موسیٰ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے اور لوگ آپ سے اس موقع پر مشکل کشائی کی درخواست کرتے ہیں اور اس کا حل چاہتے ہیں ۔ چونکہ عام اور معروف طریقوں سے اس فیصلے کا فیصلہ ممکن نہ تھا اور دوسری طرف اس کشمکش کے جاری رہنے سے ممکن تھا بنی اسرائیل میں ایک عطیم فتنہ کھڑا ہوجاتا لہذا جیسا کہ آپ ان آیات کی تفسیر میں پڑھیں گے حضرت موسیٰ پروردگار سے مدد لے کر اعجاز کے راستے اس مشکل کو حل کرتے ہیں اس طرف توجہ ضروری ہے کہ موجودہ تورات کی فصل ۲۱ سفر تثنیہ میں بھی اس واقعے کی طرف اشارہ موجود ہے البتہ موجودہ تورات میں جو کچھ ہے وہ ایک حکم کی صورت میں ہے جب کہ قرآن میں جو کچھ ہے وہ ایک واقعے کی صورت میں ہے ۔ بہر حال فصل ۲۱ میں پہلے جملے سے لے کر نویں جملے تک کی عبادت کچھ یوں ہے : اگر کسی مقتول کو ایسی زمین میں جو خدا وندے عالم نے تجھے میراث دی ہے۔ صحرا میں پڑا دیکھو اور معلوم نہ ہوسکے کہ اس کا قاتل کون ہے ۔ اس وقت تیرے مشائخ اور قاضی باہر جاکر ان شہروں کے فاصلے کی پیمائش کریں جو مقتول کے ارد گرد ہیں اور وہی شہر مقرر ہے جو مقتول کے زیادہ قریب ہے ۔
اس شہر کے مشائخ ہی اس گائے کو درہ ناہموار میں ایسی جگہ لے جائیں جہاں کوئی کھیتی باڑی نہ ہوئی ہو ۔ وہی درہ کے دروازے پر گائے کی گردن کاٹ دیں ۔ بنی لیوی کے کاہن حضرات نزدیک آئیں ۔ خدا وند تیرے خدا نے انہیں منتخب کیا ہے تاکہ وہ اس کی خدمت کریں اور خدا کے نام کے ساتھ دعائے خیر کریں اور نزاع اور جھگڑے کا فییصلہ ان کے حکم کے مطابق ہو اور وہ شہر جو قتل کے نزدیک ہے اس کے تمام مشائخ اپنے ہاتھ اس گائے پر دھو ئیں جو درہ کے دروازے پر ذبح ہوئی ہے اور بآواز کہیں کہ یہ خون ہمارے ہاتھوں نے نہیں بہایا اور ہماری آنکھوں نے نہیں دیکھا ۔ اے خدا وند ! : اپنی قوم اسرائیل کو کہ جسے دوبارہ تو نے خرید کیا ہے بخش دے اور اپنی قوم اسرائیل کو ناحق سے منسوب نہ کر اور وہ خون ان کے لئے معاف ہوجائے ۔ اس طریقہ سے خون ناحق اپنے درمیان سے رفع کرے گا ۔ کیونکہ خدا وند کی نظر میں وہی درست ہے جسے تو عمل میں لائے گا ) عہد قدیم مطبوعہ ۱۸۷۸
قرآن نے فرمایا : یاد کرو اس وقت کو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا ( قاتل کو تلاش کرنے کے لئے ) پہلی گائے ( جو تمہیں مل جائے اس کو ذبح کرو ( و اذ قال موسیٰ لقومہ ان اللہ یا مرکم ان تذبحو ا بقرة)
انہوں نے بطورتعجب کہا : میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں ( قال اعوذ با اللہ ان اکون من الجٰھلین) ۔ یعنی استہزاء اور تمسخر کرنا نادان اور جاہل افراد کا کام ہے اور خدا کا رسول یقینا ایسا نہیں ہے ۔اس کے بعد انہیں اطمینان ہوگیا کہ استہزاء و مذاق نہیں بلکہ سنجیدہ گفتگو ہے تو کہنے لگے اب اگر ایسا ہی ہے تو اپنے پروردگار سے کہیے کہ ہمارے لیے مشخص و معین کردے کہ وہ گائے کس قسم کی ہو ( قالوا ادع لنا ربک یبین لنا ماھی ) ”اپنے خدا سے کہو “ ان کے سوالات میں یہ جملہ بتکرار آیا ہے ۔ اس میں ایک طرح کا سوئے ادب یا سربستہ استہزاء و مذاق پایا جاتا ہے ۔یہ کیوں نہیں کہتے تھے ” ہمارے خدا سے دعا کیجئے “ کیا وہ حضرت موسیٰ کے خدا کو اپنے خدا سے جدا سمجھتے تھے ۔
بہر حال حضرت موسیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا : خدا فرماتا ہے ایسی گائے ہو جو نہ بوڑھی ہو او بے کار ہوچکی ہو اور نہ ہی جو ان بلکہ ان کے درمیان ہو ( قال انہ یقول انھا بقرة لا فارض ولا بکر عوان بین ذٰلک ) ۔
اس مقصد کے لئے کہ وہ اس سے زیادہ اس مسئلے کو طول نہ دیں اور بہانہ تراشی سے حکم ِ خدا میں تاخیر نہ کریں اپنے کلام کے آخر میں مزید کہا : جو تمہیں حکم دیا گیا ہے ( جتنی جلدی ہوسکے ) اسے انجام دو (فافعلو ا ما توء مرون )۔
لیکن انہوں نے پھر بھی زیادہ باتیں بنانے اور ڈھٹائی دکھانے سے ہاتھ نہیں اٹھایا اور کہنے لگے اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ وہ ہمارے لئے واضح کرے کہ اس کا رنگ کیسا ہو ( قالو ا ادع لنا ربک یبین لنا ما لونھا ) ۔
موسیٰ نے جواب میں کہا : وہ گائے ساری کی ساری زرد رنگ کی ہو جس کارنگ دیکھنے والوں کو بھلا لگے ( و قال انہ یقول انھا بقرة صفراء فاقع لونھا تسر النٰظرین) ۔
خلاصہ یہ کہ وہ گائے مکمل طور پر خوش رنگ اور چمکیلی ہو ۔ ایسی دیدہ زیب کہ دیکھنے والوں کو تعجب میں ڈال دے ۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس پر اکتفاء نہ کیا اور اسی طرح ہر مرتبہ بہانہ جوئی سے کام لے کر اپنے آپ کو اور مشکل میں ڈالتے گئے۔ پھر کہنے لگے اپنے پروردگار سے کہیے کہ ہمیں واضح کرے کہ یہ گائے ( کام کرنے کے لحاظ سے ) کیسی ہونی چاہیئے،
(قالوا ادع لنا یبین لنا ماھی ) ۔ کیونکہ یہ گائے ہمارے لئے مبہم ہوگئی ہے ( ان البقرہ تشابہ علینا ) اور اگر خدا نے چاہا تو ہم ہدایت پالیں گے (و انا ان شاء اللہ لمھتدون )۔
حضرت موسیٰ نے پھر سے کہا : خدا فرماتا ہے وہ ایسی گائے ہو جو اتنی سدھائی ہوئی نہ ہو کہ زمین جوتے اور کھیتی سینچے ( قال انہ یقول انھا بقرة لا ذلول تثیر الارض ولا تسقی الحرث ) ہر عیب سے پاک ہو ( مسلمة ) حتی کہ اس میں کسی قسم کا دوسرا رنگ نہ ہو ( لاشیة فیھا ) ۔
اب کہ بہانہ سازی کے لئے ان کے پاس کوئی سوال باقی نہ تھا ، جتنے سوالات وہ کر سکتے تھے سب ختم ہو گئے تو کہنے لگے : اب تو نے حق بات کہی ہے ( قالوا الان جئت بالحق )
پھر جس طرح ہوسکا انہوں نے وہ گائے مہیا کی اور اسے ذبح کیا لیکن در اصل وہ یہ کام کرنا نہ چاہتے تھے ( فذبحوھا و ما کادو یفعلون )
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.