مختصر جواب:
مفصل جواب:
قرآن مجید سوره «بقره» کی آیت ۲۸ میں انسان کی ایک بہترین خلقت کا تذکرہ کرتے ہوئے انسان کو اپنے پروردگار کی عظمت کی طرف متوجہ کررہاہے ،
قرآن یہاں وجودخداکے اثبات کو ایسے نکتہ سے شروع کر رہا ہے جس کاکو ئی انکار نہیں کرسکتا اور وہ ہے زندگی کا پر اسرار مسئلہ ۔
پہلے کہتا ہے تم خداکا کس طرح انکار کرتے ہو حالانکہ تم بے روح جسم تھے اس نے تمہیں زندہ کیا اور تمہارے بد ن پر زندگی کا لباس پہنایا(کیف تکفرون بااللہ وکنتم امواتاََفاحیاکم)۔
قرآن ہم سب کو یاددہانی کرواتا ہے کہ -اس سے پہلے تم پتھروں،لکڑیوں اور بے جا ن موجودات کی طرح مردہ تھے اور نسیم زندگی کاتمہارے کو چے سے گذر نہ تھا لیکن اب تم نعمت حیات وہستی کے مالک ہو ۔تمہیں اعضاء حواس اور ادراک کے کارخا نہ عطا کئے گئے ہیں۔ یہ وجود حیات تمہیں کس نے عطا کیاہے کیا یہ سب کچھ خود تم نے اپنے آپ کو دیا ہے ۔واضح ہے کہ ہر مصنف مزاج انسان بغیر کسی ترددکے اعتراف کر تا ہے کہ یہ نعمت خود اس کی اپنی طرف سے نہیں ہے بلکہ ایک مبداء عالم وقادر کی طرف سے اسے ملی ہے جو زندگی کے تمام رموز اور پیچیدہ قوانین سے واقف تھا ، انہیںمنظم کرنے کی قدرت رکھتا تھا یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیوںحیات وہستی بخشنے والے خدا کا انکار کرتے ہیں۔
آج کے زمانے میں تمام علماء ومحققین پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے پاس اس دنیا میں حیات وہستی سے زیادہ پیچیدہ کو ئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ تمام تر عجیب وغریب ترقی کے باوجودجو طبعی علوم فنون کے سلسلے میں انسان کو نصیب ہوئی ہے ابھی تک حیات کا معمہ حل نہیں ہوسکا۔یہ مسئلہ اس قدر اسرار آمیز ہے کہ لاکھوں علماء افکار اور کوششیں اب تک اس مسٴلے کے ادراک سے عاجز ہوچکی ہیں ۔ہوسکتا ہے کہ انتھک کوششوں کے سائے میں آئندہ تدریجاََانسان رموز حیات سے آگاہ ہوسکے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیاکوئی شخص اس معاملے کو جو بہت گہرے غوروفکر کا نتیجہ ہے ،اسرارانگیز ہے اور بہت زیادہ علم وقدرت کا محتاج ہے بے شعور طبیعت کی طرف نسبت دے سکتا ہے ،وہ طبیعت جو خود حیات وزندگی سے عاری ہے ۔
یہ وہ مقام ہے جہاں ہم کہتے ہیں کہ اس جہان طبیعت میں حیات وزندگی کا ظہو ر وجو دخدا کے اثبات کی سب سے بڑی سند ہے اور اس مو ضوع پربہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔
قرآن اوپر والی آیت میں خصوصیت کے ساتھ اسی مسٴلے کاسہارا لیتا ہے ہم سر دست اسی مختصر اشارے سے گذرجاتے ہیں ۔قرآن اس نعمت کی یاد دہانی کے بعد ایک واضح دلیل پیش کرتا ہے اور وہ ہے مسئلہٴ موت ،قرآن کہتا ہے :پھر خدا تمہیں مارے گا(ثم یحییکم )
ا نسان دیکھتاہے کہ اس کے اعزاء واقربااور دوست و احباب یکے بعد دیگرے مرتے رہتے ہیں اور ان کا بے جان جسم مٹی کے نیچے دفن ہوجاتا ہے ۔یہ مقام بھی غوروفکر کا ہے کہ آخر کس نے ان سے وجود کو چھین لیا ہے اگر ان کی زندگی اپنی طرف سے تھی توہمیشہ رہتی یہ جو لے لی گئی ہے اس کی دلیل ہے کہ کسی دوسرے نے انہیںد ی تھی ۔
زندگی پیدا کرنے والا وہی موت پیدا کرنے والا ہے چنانچہ سورہ ملک کی آیت ۲میں ہے : الذین خلق الموت والحیٰوة لیبکوکم احسن عملاََ
خداوہ ہے جس نے موت وحیات کو پیدا کیاتاکہ تمہیں حسن عمل کے میدان میں آزمائے
قرآن نے وجود خدا پر ان دو و اضح دلیلوں کو پیش کیا ہے دوسرے مسائل کے لئے روح انسانی کو آمادہ کیا ہے اور بحث سے مسئلہ معاداور موت کے بعد زندگی کو بیان کیا ہے ۔پھر کہتا ہے :اس کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا (ثم یحییکم )۔البتہ موت کے بعد یہ زندگی کسی طرح تعجب خیز نہیں کیونکہ پہلے بھی انسان اسی طرح تھا پہلی دلیل (یعنی بے جان کو زندگی عطا کرنا)کی طرف متوجہ ہونے کے بعد دوسری مرتبہ اجزاء بدن کے منتشر ہونے کے بعد زندگی ملنے کے مسٴلے کو قبو ل کر نامشکل نہیں بلکہ پہلی دفعہ کی نسبت آسان ہے اگر چہ جس ذات کی قدرت لامتناہی ہو اس کے لئے تسہیل ومشکل کوئی مفہوم نہیں رکھتا)۔
قرآن یہاں وجودخداکے اثبات کو ایسے نکتہ سے شروع کر رہا ہے جس کاکو ئی انکار نہیں کرسکتا اور وہ ہے زندگی کا پر اسرار مسئلہ ۔
پہلے کہتا ہے تم خداکا کس طرح انکار کرتے ہو حالانکہ تم بے روح جسم تھے اس نے تمہیں زندہ کیا اور تمہارے بد ن پر زندگی کا لباس پہنایا(کیف تکفرون بااللہ وکنتم امواتاََفاحیاکم)۔
قرآن ہم سب کو یاددہانی کرواتا ہے کہ -اس سے پہلے تم پتھروں،لکڑیوں اور بے جا ن موجودات کی طرح مردہ تھے اور نسیم زندگی کاتمہارے کو چے سے گذر نہ تھا لیکن اب تم نعمت حیات وہستی کے مالک ہو ۔تمہیں اعضاء حواس اور ادراک کے کارخا نہ عطا کئے گئے ہیں۔ یہ وجود حیات تمہیں کس نے عطا کیاہے کیا یہ سب کچھ خود تم نے اپنے آپ کو دیا ہے ۔واضح ہے کہ ہر مصنف مزاج انسان بغیر کسی ترددکے اعتراف کر تا ہے کہ یہ نعمت خود اس کی اپنی طرف سے نہیں ہے بلکہ ایک مبداء عالم وقادر کی طرف سے اسے ملی ہے جو زندگی کے تمام رموز اور پیچیدہ قوانین سے واقف تھا ، انہیںمنظم کرنے کی قدرت رکھتا تھا یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیوںحیات وہستی بخشنے والے خدا کا انکار کرتے ہیں۔
آج کے زمانے میں تمام علماء ومحققین پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے پاس اس دنیا میں حیات وہستی سے زیادہ پیچیدہ کو ئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ تمام تر عجیب وغریب ترقی کے باوجودجو طبعی علوم فنون کے سلسلے میں انسان کو نصیب ہوئی ہے ابھی تک حیات کا معمہ حل نہیں ہوسکا۔یہ مسئلہ اس قدر اسرار آمیز ہے کہ لاکھوں علماء افکار اور کوششیں اب تک اس مسٴلے کے ادراک سے عاجز ہوچکی ہیں ۔ہوسکتا ہے کہ انتھک کوششوں کے سائے میں آئندہ تدریجاََانسان رموز حیات سے آگاہ ہوسکے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیاکوئی شخص اس معاملے کو جو بہت گہرے غوروفکر کا نتیجہ ہے ،اسرارانگیز ہے اور بہت زیادہ علم وقدرت کا محتاج ہے بے شعور طبیعت کی طرف نسبت دے سکتا ہے ،وہ طبیعت جو خود حیات وزندگی سے عاری ہے ۔
یہ وہ مقام ہے جہاں ہم کہتے ہیں کہ اس جہان طبیعت میں حیات وزندگی کا ظہو ر وجو دخدا کے اثبات کی سب سے بڑی سند ہے اور اس مو ضوع پربہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔
قرآن اوپر والی آیت میں خصوصیت کے ساتھ اسی مسٴلے کاسہارا لیتا ہے ہم سر دست اسی مختصر اشارے سے گذرجاتے ہیں ۔قرآن اس نعمت کی یاد دہانی کے بعد ایک واضح دلیل پیش کرتا ہے اور وہ ہے مسئلہٴ موت ،قرآن کہتا ہے :پھر خدا تمہیں مارے گا(ثم یحییکم )
ا نسان دیکھتاہے کہ اس کے اعزاء واقربااور دوست و احباب یکے بعد دیگرے مرتے رہتے ہیں اور ان کا بے جان جسم مٹی کے نیچے دفن ہوجاتا ہے ۔یہ مقام بھی غوروفکر کا ہے کہ آخر کس نے ان سے وجود کو چھین لیا ہے اگر ان کی زندگی اپنی طرف سے تھی توہمیشہ رہتی یہ جو لے لی گئی ہے اس کی دلیل ہے کہ کسی دوسرے نے انہیںد ی تھی ۔
زندگی پیدا کرنے والا وہی موت پیدا کرنے والا ہے چنانچہ سورہ ملک کی آیت ۲میں ہے : الذین خلق الموت والحیٰوة لیبکوکم احسن عملاََ
خداوہ ہے جس نے موت وحیات کو پیدا کیاتاکہ تمہیں حسن عمل کے میدان میں آزمائے
قرآن نے وجود خدا پر ان دو و اضح دلیلوں کو پیش کیا ہے دوسرے مسائل کے لئے روح انسانی کو آمادہ کیا ہے اور بحث سے مسئلہ معاداور موت کے بعد زندگی کو بیان کیا ہے ۔پھر کہتا ہے :اس کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا (ثم یحییکم )۔البتہ موت کے بعد یہ زندگی کسی طرح تعجب خیز نہیں کیونکہ پہلے بھی انسان اسی طرح تھا پہلی دلیل (یعنی بے جان کو زندگی عطا کرنا)کی طرف متوجہ ہونے کے بعد دوسری مرتبہ اجزاء بدن کے منتشر ہونے کے بعد زندگی ملنے کے مسٴلے کو قبو ل کر نامشکل نہیں بلکہ پہلی دفعہ کی نسبت آسان ہے اگر چہ جس ذات کی قدرت لامتناہی ہو اس کے لئے تسہیل ومشکل کوئی مفہوم نہیں رکھتا)۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.