مختصر جواب:
مفصل جواب:
خداى متعال نےسوره «بقره» کی آیت نمبر ۱۳۷ میں بعض حرام گوشت کی طرف اشارہ کیا ہے
جیسے مردارکا گوشت ،خون ، سور کاگوشت ،اور ہر اس حیوان کا گوشت جس کو ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے تو وہ حرام ہوجائنگے ،(إِنَّما حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزیرِ وَ ما أُهِلَّ بِهِ لِغَیْرِ اللّ،المیتة و الدم و لحم الخنزیر و ما اہل بہ لغیر اللہ)۔
یہاں پر چار طرح کے گوشت اور خون کی حرمت کا حکم ہے۔ یاد ہے کہ خون ان لوگوں کو بہت مرغوب تھا۔ ان میں سے بعض چیزوں میں تو ظاہری نجاست ہے جیسے مردار، خون اور سور کا گوشت اور بعض میں معنوی نجاست ہے جیسے وہ قربانیاں جو وہ بتوں کے لئے کیاکرتے تھے۔
آیت سے بالعموم اور لفظ ”انما“ جو کلمہ حصر ہے اور اصطلاحی طور پر حصر اضافی ہے سے بالخصوص ظاہر ہوتاہے کہ مقصد تمام محرمات کو بیان کرنا نہیں بلکہ اصل غرض بدعات کی نفی ہے جو بعض حلال غذاؤں کو حرام قرار دے کر انہوں نے جاری کی ہوئی تھیں۔ بہ الفاظ دیگر انہوں نے کچھ پاکیزہ اور حلال گوشت خرافات اور توہمات کے نتیجے میں اپنے اوپر حرام قرار دیئے ہوئے تھے۔ لیکن غذا کی کمی کے وقت وہ مردار، سور کا گوشت اور خون تک استعمال کرلیتے تھے۔ قرآن انہیں بتاتاہے کہ یہ تمہارے لئے حرام ہیں نہ کہ وہ اور یہی حصر اضافی کا مطلب ہے)۔
بعض اوقات ایسی ضروریات پیش آتی ہیں کہ انسان بعض حرام چیزوں کے استعمال پر بھی مجبور ہوجاتاہے لہذا قرآن اس استثنائی پہلو کے بارے میں کہتاہے: لیکن جو شخص (اپنی جان کے تحفظ کے لئے) مجبور ہوکر انہیں کھالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ و ہ ظالم و متجاوز نہ ہو (فمن اضطر غیر باغ و لا عاد فلا اثم علیہ)۔ اس بناء پر کہ کہیں اضطرار کو بہانہ ہی نہ بنالیاجائے ان حرام غذاؤں کے کھانے میں زیادتی اور تجاوز روکنے کے لئے ”غیر باغ و لا عاد“ فرمایا گیاہے۔
یعنی یہ اجازت صرف، ان افراد کے لئے ہے جو ان محرمات کو لذت کے لئے نہ کھانا چاہیں اور اتناہی کھائیں جتنا حفظ جان کے لئے ضروری ہو اس سے تجاوز نہ کریں۔ باغ ٍاور عادٍ اصل میں باغی اور عادی ہیں۔ باغی کا مادہ ہے ”بغی“جس کا معنی ہے طلب کرنا یہاں مقصود طلب لذت ہے اور عادی متجاوز کے معنی میں ہے۔
"غیر باغ و لا عاد“ کی ایک اور تفسیر بھی مذکور ہے جو پیش کر دہ مفہوم سے متضاد نہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں معانی آیت کے مفہوم میں شامل ہوں۔ وہ تفسیر یہ ہے کہ ”بغی“ کا ایک معنی ظلم و ستم بھی ہے۔ لہذا مقصد یہ ہوا کہ حرام گوشت کھانے کی اجازت فقط ان لوگوں کے لئے ہے جو ظلم و ستم اور گناہ کا سفر نہ کررہے ہوں (سفر کا ذکر اس لئے ہے کہ عموما اضطراری کیفیت اور مجبوری کی حالت سفر میں ہی در پیش ہوتی ہے) لہذا اگر سفر گناہ کے لئے ہو اور مسافر حالت مجبوری کو پہنچ جائے کہ حفظ جان کے لئے اسے حرام غذا کھانی پڑے تو اس کا گناہ اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں اگر چہ ان ستمگروں کے لئے بحکم عقل واجب ہے کہ جان کی حفاظت کے لئے ایسے حرام گوشت کھائیں لیکن یہ وجوب ان کی مسئولیت اور ذمہ داری میں کمی نہیں کرسکے گا۔
وہ روایات جو یہ کہتی ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو امام مسلمین کے خلاف اقدام نہ کریں در اصل ایسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں جیسے نماز مسافر کے احکام میں آیاہے کہ نماز قصر صرف ان مسافروں کے لئے ہے جن کا سفر حرام نہ ہو۔ اسی لئے ”غیر باغ و لا عاد“ سے روایات میں دونوں احکام کے لئے استدلال کیاگیاہے (یعنی نماز مسافر اور حالت اضطرار میں گوشت کھانے کے احکام)۔۱
۱ امام صادق سے ایک روایت ہے کہ آپ نے مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں فرمایا:
باغی سے مراد وہ ہے جوشکار کے پیچھے سیر و تفریح کے طور پر (نہ کہ ضرورت و احتیاج کے لئے جائے اور عادی سے مراد چورہے۔ یہ دونوں حق نہیںکھتے کہ مردار کا گوشت کھائیں وہ ان کے لئے حرام ہے اور یہ نماز قصر بھی نہیں پڑھ سکتے۔ (وسائل الشیعہ، ج۵، ص۵۰۹)
آیت کے آخر میں فرمایا: خدا غفور و رحیم ہے (ان اللہ غفور رحیم) وہی خدا جس نے یہ گوشت حرام قرار دیے ہیں اسی نے اپنی رحمت خاص سے شدید ضرورت کے وقت ان سے استفادہ کرنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔
چند اہم نکات
(!) حرام گوشت کی تحریم کا فلسفہ: اس میں شک نہیں کہ زیر نظر آیت میں جو غذائیں حرام قرار دی گئی ہیں۔ وہ دیگر خدائی محرمات کی طرح ایک خاص فلسفے کی حامل ہیں۔ انسانی جسم و جان اور اس کی کیفیت اور وضع کی تمام تر خصوصیات کو پیش نظر رکھ کر انہیں حرام قرار دیاگیاہے۔ روایات اسلامی میں ان میں سے ہر ایک کے نقصانات اور حرمت کے مضرات کو بھی تفصیل سے بیان کیاگیاہے نیز علوم انسانی کی پیش رفت نے بھی ان سے پردہ اٹھایاہے۔
کتاب کافی میں مردار کے گوشت کے متعلق امام صادق سے مروی ہے:
اما المیتة فانہ لم ینل منہا احد الاضعف بدنہ و ذہبت قوتہ و انقطع نسلہ و لا یموت اکل المیتة الافجاة
(یہ فرمانے کے بعد کہ یہ تمام احکام مصالح بشر کے ما تحت ہیں امام فرماتے ہیں) باقی رہا مردار کا گوشت تو جو کوئی بھی اسے کھائے گا اس کا بدن کمزور ہوگا اور تکالیف میں مبتلا ہوگا۔ اس کی قوت و طاقت ختم ہوجائے گی اور نسل منقطع ہوجائے گی اور جو ہمیشہ مردار کا گوشت کھاتارہے گا سکتے کے عالم میں مرے گا۔
ممکن ہے یہ نقصانات اس لئے ہوں کہ مردار سے غذا ہضم کرنے کا نظام صحیح خون نہیں بنا سکتا۔ علاوہ ازیں مردار طرح طرح کے جراثیم کا مرکز ہوتاہے اسلام نے نہ صرف مردار گوشت کو حرام کہاہے بلکہ اسے نجس بھی قرار دیا ہے تا کہ مسلمان مکمل طور پراس سے دوررہیں۔
دوسری چیز جو آیت میں حرام قرار دی گئی ہے خون ہے (والدم)۔ خون کو استعمال کرنا جسم کے لئے بھی نقصان دہ اور اخلاقی طور پر بھی بد اثر ہے کیونکہ ایک طرف تو یہ ایسے مختلف جراثیم کی پرورش کرتاہے جو پورے بدن میں داخل ہوکر انسانی خون پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اسے ہی اپنی کارگزاری کا مرکز بناتے ہیں۔ سفید رنگ کے گلبول
جو ملک بدن کے محافظ ہیں ہمیشہ اس کے خون کے علاقے کی حفاظت کرتے رہتے ہیں تا کہ جراثیم اس حساس علاقے میں نہ پہنچنے پائیں کیونکہ یہ بدن کے تمام حصوں سے قریبی رابطہ رکھتاہے۔ خصوصا جب جریان خون رک جائے اور اصطلاح کے مطابق مرجائے تو سفید گلبول بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ اس وجہ سے جب جراثیم میدان خالی دیکھتے ہیں تو بڑی تیزی سے انڈے دیتے ہیں بچے پیدا ہوتے ہیں۔
اس طرح ان کی تعداد میں بہت اضافہ ہوجاتاہے۔ لہذا اگر یہ کہاجائے کہ خون کا جریان رک جائے تو یہ انسان اور حیوان کے بدن کا غلیظ ترین حصہ ہوتاہے تو غلط نہ ہوگا۔
دوسری طرف آج علم غذا شناسی نے یہ ثابت کردیاہے کہ غذائیں غدودوں پر اثر انداز ہونے کے علاوہ انسانی نفسیات اور اخلاق پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں جب کہ خون انسان میں ہارمون پر اثر انداز ہوکر سنگدلی پیدا کرتاہے۔ یہ بات تو قدیم زمانے سے مسلمہ ہے کہ خونخواری انسان میں قساوت و سنگدلی پیدا کرتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ بات ضرب المثل ہوگئی ہے کہ سنگدل کو خونخوار کہتے ہیں اسی لئے ایک حدیث میں ہے۔
جو لوگ خون پیتے ہیں وہ اس قدر سنگدل ہوجاتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ اور اولاد تک کو قتل کرڈالیں۔
تیسری چیز جس کا کھانا آیت میں حرام قرار دیا گیاہے سور کا گوشت (و لحم الخنزیر) ہے۔
اہل یو رپ زیادہ تر خنزیر کا گوشت کھاتے ہیں۔ ان کے لئے یہ گوشت بے غیرتی کا نشان بن گیاہے۔ یہ ایسا گھٹیا جانور ہے کہ علم جدید کی روشنی میں یہ ثابت ہوچکاہے کہ اس کا کھانا جنسی امور میں بے حیائی اور لا ابالی کا باعث ہے اور یہی اس کی نفسیاتی تاثیر ہے جو مشاہدے میں آچکی ہے۔
شریعت حضرت موسی میں بھی سوکر کا گوشت حرام تھا۔ موجودہ اناحیل میں گناہگاروں کو سور سے تشبیہ دی گئی ہے۔ داستانوں میں سوکر کو مظہر شیطان کے عنوان سے متعارف کرایاگیاہے۔
بڑے تعجب کی بات ہے کہ انسان اپنی آنکھوں سے دیکھتاہے کہ سور غلیظ چیزیں کھاتاہے اور کبھی کبھی تو وہ اپنا ہی پاخانہ کھاجاتاہے۔ دوسری طرف یہ بھی سب پرواضح ہوچکاہے کہ اس پلید جانور میں دو قسم کے خطرناک جراثیم پائے جاتے ہیں جن میں سے ایک کو تریشین (trichin) اور دوسرے کو کرم کدو کہتے ہیں۔ اس کے با وجود وہ اس کا گوشت کھانے پر مصر ہیں۔
صرف ایک تریشین (trichin) ہر ماہ پندرہ ہزار انڈے دیتاہے اور انسان میں طرح طرح کی بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بنتاہے مثلا خون کی کمی، سردرد، ایک مخصوص بخار، اسہال، دردرماتیسمی، اعصاب کا تناؤ، جسم میں خارش، بدن میں چربی کی کثرت، تھکن کا احساس، غذا چبانے اور نگلنے میں دشواری ، سانس کا رکنا و غیرہ۔ ایک کلو گوشت میں چالیس کروڑ تک نوزائیدہ تریشین (trichin) ہوسکتے ہیں۔
انہی وجوہ کے پیش نظر چند سال پیشتر حکومت روس نے اپنے ایک علاقے میں سور کا گوشت کھانے پر پابندی عائد کردی ہے۔
جی ہاں۔ روشن بینی کے یہ احکام کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جن کے تازہ جلوے نمایاں ہوتے ہیں ہمیشہ رہنے والے دین اسلام ہی کا حصہ ہیں۔
بعض کہتے ہیں کہ آج کے جدید وسائل کے ذریعے ان تمام جراثیم کو مارا جاسکتاہے اور سور کا گوشت ان سے پاک کیا جاسکتاہے۔ لیکن صحت کے جدید وسائل کے ذریعے یا سور کے گوشت کو زیادہ حرارت دے کرپکانے کے ذریعے یہ کیڑے کاملا ختم بھی کردیئے جائیں تو بھی سور کے گوشت کا نقصان دہ اور مضر ہونا قابل انکار نہیں ہے کیونکہ بنیادی طور پریہ تو مسلم ہے کہ ہر جانور کا گوشت اس کی صفات کا حامل ہوتاہے اور غدودوں (glands) ار ہا رمونز (hormones)کے ذریعے کھانے والے اشخاص کے اخلاق پر اثر انداز ہوتاہے۔ لہذا ممکن ہے سورکھانے والے پر سور کی بے لگام جنسی صفات اور بے حیائی جو اس کے واضح خصوصیات میں سے ہے اثر انداز ہوجائے۔ مغربی ممالک میں جو شدید جنسی بے راہ روی پائی جاتی ہے اس کا ایک اہم سبب اس گندے جانور کے گوشت کا استعمال بھی ہوسکتاہے۔
چو تھی چیز جسے زیر نظر آیت میں حرام قراردیا گیاہے وہ گوشت ہیں جن پر ذبح کرتے وقت غیر خدا کا نام لیاجائے (و ما اہل بہ لغیر اللہ)۔وہ گوشت جنہیں کھانے سے منع کیاگیاہے ان میں ان جانوروں کا گوشت بھی شامل ہے جو زمانہ جاہلیت کی طرح غیر خدا و بتوں کے نام پر ذبح ہوتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا ذبح کے وقت خدا یا غیر خدا کا نام لینا بھی صحت و سلامتی کے نقطہ نظر سے جانور کے گوشت پر اثر انداز ہوتاہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ ضروری نہیں کہ خدا یا غیر خدا کا نام صحت کے نقطہ نظر سے گوشت پر اثر انداز ہو کیونکہ اسلام میں جن چیزوں کو حرام قرار دیا گیاہے اس کے مختلف پہلو ہیں۔ بعض اوقات کسی چیز کو صحت اور بدن کی حفاظت کے لئے کبھی تہذیب روح کے لئے اور کبھی نظام اجتماعی کے تحفظ کے لئے حرام قرار دیاجاتاہے۔ اسی طرح بتوں کے نام پر ذبح کیے جانے والے جانوروں کے گوشت کی حرمت در حقیقت معنوی، اخلاقی اور تربیتی پہلو سے ہے۔
(!!) تکرار و تاکید: جن چار چیزوں کی حرمت کا ذکر یہاں کیاگیاہے قرآن میں چار مقامات پر اسی طرح آیا ہے۔ دو مرتبہ مکہ میں (انعام ۔۱۴۵ اور نحل ۔۱۱۵) اور دو مرتبہ مدینہ میں (بقرہ ۱۷۳ اور مائدہ ۳) یہ حکم نازل ہوا۔
یوں لگتاہے کہ پہلی مرتبہ اوائل بعثت کا زمانہ تھا جب ان کی حرمت کی خبردی گئی۔ دوسری مرتبہ پیغمبر کے مکہ میں قیام کے آخری دن تھے۔ تیسرے مرتبہ ہجرت مدینہ کے ابتدائی ایام تھے اور چوتھی دفعہ پیغمبر کی عمر کے آخری دن تھے کہ سورہ مائدہ میں اسے بیان کیاگیا جو قرآن کی آخری سورتوں میں سے ہے۔
نزول آیات کا یہ انداز جو بے نظیر یا کم نظیر ہے اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ہے اور ان چیزوں میں موجود بہت زیادہ بدنی اور روحانی خطرات کی وجہ سے ہے اور اس بناء پر بھی کہ لوگ ان کے کھانے میں زیادہ مبتلا تھے۔
(!!!) بیمار کو خون دینا: شاید وضاحت کی ضرورت نہ ہو کہ مندرجہ بالا آیت میں خون کو حرام قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ خون پینا حرام ہے لہذا اس سے مناسب فائدہ حاصل کرنے میں کوئی اشکال نہیں مثلا کسی مجروح یا بیمار کو موت سے بچانے کے لئے خون دینے میں کوئی حرج نہیں بلکہ ان مقاصد کے لئے تو خو ن کی خرید و فروخت کی حرمت کے لئے بھی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کیونکہ یہ تو عقلی طور پر صحیح ہے اور عمومی احتیاج کے موقع پر فائدہ اٹھانے کے ضمن میں آتاہے۔
جیسے مردارکا گوشت ،خون ، سور کاگوشت ،اور ہر اس حیوان کا گوشت جس کو ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے تو وہ حرام ہوجائنگے ،(إِنَّما حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزیرِ وَ ما أُهِلَّ بِهِ لِغَیْرِ اللّ،المیتة و الدم و لحم الخنزیر و ما اہل بہ لغیر اللہ)۔
یہاں پر چار طرح کے گوشت اور خون کی حرمت کا حکم ہے۔ یاد ہے کہ خون ان لوگوں کو بہت مرغوب تھا۔ ان میں سے بعض چیزوں میں تو ظاہری نجاست ہے جیسے مردار، خون اور سور کا گوشت اور بعض میں معنوی نجاست ہے جیسے وہ قربانیاں جو وہ بتوں کے لئے کیاکرتے تھے۔
آیت سے بالعموم اور لفظ ”انما“ جو کلمہ حصر ہے اور اصطلاحی طور پر حصر اضافی ہے سے بالخصوص ظاہر ہوتاہے کہ مقصد تمام محرمات کو بیان کرنا نہیں بلکہ اصل غرض بدعات کی نفی ہے جو بعض حلال غذاؤں کو حرام قرار دے کر انہوں نے جاری کی ہوئی تھیں۔ بہ الفاظ دیگر انہوں نے کچھ پاکیزہ اور حلال گوشت خرافات اور توہمات کے نتیجے میں اپنے اوپر حرام قرار دیئے ہوئے تھے۔ لیکن غذا کی کمی کے وقت وہ مردار، سور کا گوشت اور خون تک استعمال کرلیتے تھے۔ قرآن انہیں بتاتاہے کہ یہ تمہارے لئے حرام ہیں نہ کہ وہ اور یہی حصر اضافی کا مطلب ہے)۔
بعض اوقات ایسی ضروریات پیش آتی ہیں کہ انسان بعض حرام چیزوں کے استعمال پر بھی مجبور ہوجاتاہے لہذا قرآن اس استثنائی پہلو کے بارے میں کہتاہے: لیکن جو شخص (اپنی جان کے تحفظ کے لئے) مجبور ہوکر انہیں کھالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ و ہ ظالم و متجاوز نہ ہو (فمن اضطر غیر باغ و لا عاد فلا اثم علیہ)۔ اس بناء پر کہ کہیں اضطرار کو بہانہ ہی نہ بنالیاجائے ان حرام غذاؤں کے کھانے میں زیادتی اور تجاوز روکنے کے لئے ”غیر باغ و لا عاد“ فرمایا گیاہے۔
یعنی یہ اجازت صرف، ان افراد کے لئے ہے جو ان محرمات کو لذت کے لئے نہ کھانا چاہیں اور اتناہی کھائیں جتنا حفظ جان کے لئے ضروری ہو اس سے تجاوز نہ کریں۔ باغ ٍاور عادٍ اصل میں باغی اور عادی ہیں۔ باغی کا مادہ ہے ”بغی“جس کا معنی ہے طلب کرنا یہاں مقصود طلب لذت ہے اور عادی متجاوز کے معنی میں ہے۔
"غیر باغ و لا عاد“ کی ایک اور تفسیر بھی مذکور ہے جو پیش کر دہ مفہوم سے متضاد نہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں معانی آیت کے مفہوم میں شامل ہوں۔ وہ تفسیر یہ ہے کہ ”بغی“ کا ایک معنی ظلم و ستم بھی ہے۔ لہذا مقصد یہ ہوا کہ حرام گوشت کھانے کی اجازت فقط ان لوگوں کے لئے ہے جو ظلم و ستم اور گناہ کا سفر نہ کررہے ہوں (سفر کا ذکر اس لئے ہے کہ عموما اضطراری کیفیت اور مجبوری کی حالت سفر میں ہی در پیش ہوتی ہے) لہذا اگر سفر گناہ کے لئے ہو اور مسافر حالت مجبوری کو پہنچ جائے کہ حفظ جان کے لئے اسے حرام غذا کھانی پڑے تو اس کا گناہ اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں اگر چہ ان ستمگروں کے لئے بحکم عقل واجب ہے کہ جان کی حفاظت کے لئے ایسے حرام گوشت کھائیں لیکن یہ وجوب ان کی مسئولیت اور ذمہ داری میں کمی نہیں کرسکے گا۔
وہ روایات جو یہ کہتی ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو امام مسلمین کے خلاف اقدام نہ کریں در اصل ایسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں جیسے نماز مسافر کے احکام میں آیاہے کہ نماز قصر صرف ان مسافروں کے لئے ہے جن کا سفر حرام نہ ہو۔ اسی لئے ”غیر باغ و لا عاد“ سے روایات میں دونوں احکام کے لئے استدلال کیاگیاہے (یعنی نماز مسافر اور حالت اضطرار میں گوشت کھانے کے احکام)۔۱
۱ امام صادق سے ایک روایت ہے کہ آپ نے مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں فرمایا:
باغی سے مراد وہ ہے جوشکار کے پیچھے سیر و تفریح کے طور پر (نہ کہ ضرورت و احتیاج کے لئے جائے اور عادی سے مراد چورہے۔ یہ دونوں حق نہیںکھتے کہ مردار کا گوشت کھائیں وہ ان کے لئے حرام ہے اور یہ نماز قصر بھی نہیں پڑھ سکتے۔ (وسائل الشیعہ، ج۵، ص۵۰۹)
آیت کے آخر میں فرمایا: خدا غفور و رحیم ہے (ان اللہ غفور رحیم) وہی خدا جس نے یہ گوشت حرام قرار دیے ہیں اسی نے اپنی رحمت خاص سے شدید ضرورت کے وقت ان سے استفادہ کرنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔
چند اہم نکات
(!) حرام گوشت کی تحریم کا فلسفہ: اس میں شک نہیں کہ زیر نظر آیت میں جو غذائیں حرام قرار دی گئی ہیں۔ وہ دیگر خدائی محرمات کی طرح ایک خاص فلسفے کی حامل ہیں۔ انسانی جسم و جان اور اس کی کیفیت اور وضع کی تمام تر خصوصیات کو پیش نظر رکھ کر انہیں حرام قرار دیاگیاہے۔ روایات اسلامی میں ان میں سے ہر ایک کے نقصانات اور حرمت کے مضرات کو بھی تفصیل سے بیان کیاگیاہے نیز علوم انسانی کی پیش رفت نے بھی ان سے پردہ اٹھایاہے۔
کتاب کافی میں مردار کے گوشت کے متعلق امام صادق سے مروی ہے:
اما المیتة فانہ لم ینل منہا احد الاضعف بدنہ و ذہبت قوتہ و انقطع نسلہ و لا یموت اکل المیتة الافجاة
(یہ فرمانے کے بعد کہ یہ تمام احکام مصالح بشر کے ما تحت ہیں امام فرماتے ہیں) باقی رہا مردار کا گوشت تو جو کوئی بھی اسے کھائے گا اس کا بدن کمزور ہوگا اور تکالیف میں مبتلا ہوگا۔ اس کی قوت و طاقت ختم ہوجائے گی اور نسل منقطع ہوجائے گی اور جو ہمیشہ مردار کا گوشت کھاتارہے گا سکتے کے عالم میں مرے گا۔
ممکن ہے یہ نقصانات اس لئے ہوں کہ مردار سے غذا ہضم کرنے کا نظام صحیح خون نہیں بنا سکتا۔ علاوہ ازیں مردار طرح طرح کے جراثیم کا مرکز ہوتاہے اسلام نے نہ صرف مردار گوشت کو حرام کہاہے بلکہ اسے نجس بھی قرار دیا ہے تا کہ مسلمان مکمل طور پراس سے دوررہیں۔
دوسری چیز جو آیت میں حرام قرار دی گئی ہے خون ہے (والدم)۔ خون کو استعمال کرنا جسم کے لئے بھی نقصان دہ اور اخلاقی طور پر بھی بد اثر ہے کیونکہ ایک طرف تو یہ ایسے مختلف جراثیم کی پرورش کرتاہے جو پورے بدن میں داخل ہوکر انسانی خون پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اسے ہی اپنی کارگزاری کا مرکز بناتے ہیں۔ سفید رنگ کے گلبول
جو ملک بدن کے محافظ ہیں ہمیشہ اس کے خون کے علاقے کی حفاظت کرتے رہتے ہیں تا کہ جراثیم اس حساس علاقے میں نہ پہنچنے پائیں کیونکہ یہ بدن کے تمام حصوں سے قریبی رابطہ رکھتاہے۔ خصوصا جب جریان خون رک جائے اور اصطلاح کے مطابق مرجائے تو سفید گلبول بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ اس وجہ سے جب جراثیم میدان خالی دیکھتے ہیں تو بڑی تیزی سے انڈے دیتے ہیں بچے پیدا ہوتے ہیں۔
اس طرح ان کی تعداد میں بہت اضافہ ہوجاتاہے۔ لہذا اگر یہ کہاجائے کہ خون کا جریان رک جائے تو یہ انسان اور حیوان کے بدن کا غلیظ ترین حصہ ہوتاہے تو غلط نہ ہوگا۔
دوسری طرف آج علم غذا شناسی نے یہ ثابت کردیاہے کہ غذائیں غدودوں پر اثر انداز ہونے کے علاوہ انسانی نفسیات اور اخلاق پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں جب کہ خون انسان میں ہارمون پر اثر انداز ہوکر سنگدلی پیدا کرتاہے۔ یہ بات تو قدیم زمانے سے مسلمہ ہے کہ خونخواری انسان میں قساوت و سنگدلی پیدا کرتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ بات ضرب المثل ہوگئی ہے کہ سنگدل کو خونخوار کہتے ہیں اسی لئے ایک حدیث میں ہے۔
جو لوگ خون پیتے ہیں وہ اس قدر سنگدل ہوجاتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ اور اولاد تک کو قتل کرڈالیں۔
تیسری چیز جس کا کھانا آیت میں حرام قرار دیا گیاہے سور کا گوشت (و لحم الخنزیر) ہے۔
اہل یو رپ زیادہ تر خنزیر کا گوشت کھاتے ہیں۔ ان کے لئے یہ گوشت بے غیرتی کا نشان بن گیاہے۔ یہ ایسا گھٹیا جانور ہے کہ علم جدید کی روشنی میں یہ ثابت ہوچکاہے کہ اس کا کھانا جنسی امور میں بے حیائی اور لا ابالی کا باعث ہے اور یہی اس کی نفسیاتی تاثیر ہے جو مشاہدے میں آچکی ہے۔
شریعت حضرت موسی میں بھی سوکر کا گوشت حرام تھا۔ موجودہ اناحیل میں گناہگاروں کو سور سے تشبیہ دی گئی ہے۔ داستانوں میں سوکر کو مظہر شیطان کے عنوان سے متعارف کرایاگیاہے۔
بڑے تعجب کی بات ہے کہ انسان اپنی آنکھوں سے دیکھتاہے کہ سور غلیظ چیزیں کھاتاہے اور کبھی کبھی تو وہ اپنا ہی پاخانہ کھاجاتاہے۔ دوسری طرف یہ بھی سب پرواضح ہوچکاہے کہ اس پلید جانور میں دو قسم کے خطرناک جراثیم پائے جاتے ہیں جن میں سے ایک کو تریشین (trichin) اور دوسرے کو کرم کدو کہتے ہیں۔ اس کے با وجود وہ اس کا گوشت کھانے پر مصر ہیں۔
صرف ایک تریشین (trichin) ہر ماہ پندرہ ہزار انڈے دیتاہے اور انسان میں طرح طرح کی بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بنتاہے مثلا خون کی کمی، سردرد، ایک مخصوص بخار، اسہال، دردرماتیسمی، اعصاب کا تناؤ، جسم میں خارش، بدن میں چربی کی کثرت، تھکن کا احساس، غذا چبانے اور نگلنے میں دشواری ، سانس کا رکنا و غیرہ۔ ایک کلو گوشت میں چالیس کروڑ تک نوزائیدہ تریشین (trichin) ہوسکتے ہیں۔
انہی وجوہ کے پیش نظر چند سال پیشتر حکومت روس نے اپنے ایک علاقے میں سور کا گوشت کھانے پر پابندی عائد کردی ہے۔
جی ہاں۔ روشن بینی کے یہ احکام کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جن کے تازہ جلوے نمایاں ہوتے ہیں ہمیشہ رہنے والے دین اسلام ہی کا حصہ ہیں۔
بعض کہتے ہیں کہ آج کے جدید وسائل کے ذریعے ان تمام جراثیم کو مارا جاسکتاہے اور سور کا گوشت ان سے پاک کیا جاسکتاہے۔ لیکن صحت کے جدید وسائل کے ذریعے یا سور کے گوشت کو زیادہ حرارت دے کرپکانے کے ذریعے یہ کیڑے کاملا ختم بھی کردیئے جائیں تو بھی سور کے گوشت کا نقصان دہ اور مضر ہونا قابل انکار نہیں ہے کیونکہ بنیادی طور پریہ تو مسلم ہے کہ ہر جانور کا گوشت اس کی صفات کا حامل ہوتاہے اور غدودوں (glands) ار ہا رمونز (hormones)کے ذریعے کھانے والے اشخاص کے اخلاق پر اثر انداز ہوتاہے۔ لہذا ممکن ہے سورکھانے والے پر سور کی بے لگام جنسی صفات اور بے حیائی جو اس کے واضح خصوصیات میں سے ہے اثر انداز ہوجائے۔ مغربی ممالک میں جو شدید جنسی بے راہ روی پائی جاتی ہے اس کا ایک اہم سبب اس گندے جانور کے گوشت کا استعمال بھی ہوسکتاہے۔
چو تھی چیز جسے زیر نظر آیت میں حرام قراردیا گیاہے وہ گوشت ہیں جن پر ذبح کرتے وقت غیر خدا کا نام لیاجائے (و ما اہل بہ لغیر اللہ)۔وہ گوشت جنہیں کھانے سے منع کیاگیاہے ان میں ان جانوروں کا گوشت بھی شامل ہے جو زمانہ جاہلیت کی طرح غیر خدا و بتوں کے نام پر ذبح ہوتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا ذبح کے وقت خدا یا غیر خدا کا نام لینا بھی صحت و سلامتی کے نقطہ نظر سے جانور کے گوشت پر اثر انداز ہوتاہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ ضروری نہیں کہ خدا یا غیر خدا کا نام صحت کے نقطہ نظر سے گوشت پر اثر انداز ہو کیونکہ اسلام میں جن چیزوں کو حرام قرار دیا گیاہے اس کے مختلف پہلو ہیں۔ بعض اوقات کسی چیز کو صحت اور بدن کی حفاظت کے لئے کبھی تہذیب روح کے لئے اور کبھی نظام اجتماعی کے تحفظ کے لئے حرام قرار دیاجاتاہے۔ اسی طرح بتوں کے نام پر ذبح کیے جانے والے جانوروں کے گوشت کی حرمت در حقیقت معنوی، اخلاقی اور تربیتی پہلو سے ہے۔
(!!) تکرار و تاکید: جن چار چیزوں کی حرمت کا ذکر یہاں کیاگیاہے قرآن میں چار مقامات پر اسی طرح آیا ہے۔ دو مرتبہ مکہ میں (انعام ۔۱۴۵ اور نحل ۔۱۱۵) اور دو مرتبہ مدینہ میں (بقرہ ۱۷۳ اور مائدہ ۳) یہ حکم نازل ہوا۔
یوں لگتاہے کہ پہلی مرتبہ اوائل بعثت کا زمانہ تھا جب ان کی حرمت کی خبردی گئی۔ دوسری مرتبہ پیغمبر کے مکہ میں قیام کے آخری دن تھے۔ تیسرے مرتبہ ہجرت مدینہ کے ابتدائی ایام تھے اور چوتھی دفعہ پیغمبر کی عمر کے آخری دن تھے کہ سورہ مائدہ میں اسے بیان کیاگیا جو قرآن کی آخری سورتوں میں سے ہے۔
نزول آیات کا یہ انداز جو بے نظیر یا کم نظیر ہے اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ہے اور ان چیزوں میں موجود بہت زیادہ بدنی اور روحانی خطرات کی وجہ سے ہے اور اس بناء پر بھی کہ لوگ ان کے کھانے میں زیادہ مبتلا تھے۔
(!!!) بیمار کو خون دینا: شاید وضاحت کی ضرورت نہ ہو کہ مندرجہ بالا آیت میں خون کو حرام قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ خون پینا حرام ہے لہذا اس سے مناسب فائدہ حاصل کرنے میں کوئی اشکال نہیں مثلا کسی مجروح یا بیمار کو موت سے بچانے کے لئے خون دینے میں کوئی حرج نہیں بلکہ ان مقاصد کے لئے تو خو ن کی خرید و فروخت کی حرمت کے لئے بھی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کیونکہ یہ تو عقلی طور پر صحیح ہے اور عمومی احتیاج کے موقع پر فائدہ اٹھانے کے ضمن میں آتاہے۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.