مختصر جواب:
مفصل جواب:
سوره «بقره» کی آیت نمبر ۲۵۶ میں ملتا هے : «دین کو قبول کرنے میں کوئی زبردستی نہیی ہےدین( لا إِکْراهَ فِی الدِّینِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ).
« رشد“ لغت میں راستہ پانے اور واقع تک پہنچنے کے معنی میںہے ۔اس کے بر عکس ”غی “ حقیقت سے انحراف اور واقع کے دور ہونے کے معنی میں ہے ۔دین مذہب کا تعلق چونکہ لوگوں کی فکر اور روح سے ہے اوراس کی اساس وبنیا د ایمان ویقین پر استوار ہے لہٰذا منطق واستدلال کے علاوہ اس کے لئے کوئی دوسرا راستہ صحیح نہیں ۔
جیسا کہ آیت کی شان نزول سے معلوم ہوتا ہے بعض افراد پیغمبر اکرم سے چاہتے تھے کہ آ پ بھی جابر حکمرانو ں کی طرح طاقت اور زور سے لوگوں کے عقائدتبدیل کرنے کے لئے عملی اقدام کریں ۔مندرجہ بالاآیت نے اس پر صراحت سے جواب دیا کہ دین وآئین ایسی چیز نہیں کہ جس کی جبری تبلیغ کی جائے ۔
یہ آیت ان لوگو ں کا دندان شکن جواب ہے جو اسلام کوزبردستی اورجبری پہلوکا حامل قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ا س کی ترقی فوج اور تلوار کی مر ہون منت ہے ۔
جب اسلام باپ کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے بیٹے کو مذہبی عقیدہ زبردستی بدلنے پر مجبور کرے تو دوسروں کی ذمہ داری اس سے واضح ہو جاتی ہے ۔اگر عقیدہ بدلنے کے لئے جبر ممکن اور جائز ہوتا تو ضرور ی تھا کہ سب سے پہلے باپ کو بیٹے کے بارے میں اجازت دی جاتی جبکہ اسے یہ حق نہیں دیا گیا۔
مذہب جبری نہیں ہو سکتا
اصولی طور پر اسلام یا کوئی مذہب حق دو وجوہ کی بناء پر جبر واکراہ کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔
۱۔ ان تمام واضح دلائل منطقی استدلال اور آشکار معجزات کے ہوتے ہوئے اس بات کی ضرورت ہی نہیں کہ جبر واکراہ کا راستہ اختیار کیا جائے ۔ جبر و اکراہ تو وہ اختیار کرتے ہیں جومنطق سے عاری ہو تے ہیں نہ کہ اسلام جیسا دین جو واضح اور قوی استدلالات کا حامل ہے ۔
۲۔اصولی طور پر دین جس کی بنیا د قلبی اعتقادات کاایک سلسلہ ہے ممکن ہی نہیں کہ جبری ہو ۔زور، طاقت ، تلوار اور فوجی قوت ہمارے جسمی اعمال وحرکات پر تو اثر اند از ہو سکتے ہیں لیکن ہما رے افکار وعقائد کو تو نہیں بدل سکتے ۔
جو کچھ کہا گیا ہے کلیسا کی زہریلی تبلیغ کا واضح جواب ہے کیو نکہ قر آن کے ان الفاظ”لااکراہ فی الدین “سے بڑھ کر اس سلسلے کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔
البتہ یہ لوگ اسلامی جنگوں کو غلط رنگ دینے کے درپے رہتے ہیںجب کہ ان اسلامی جنگوں کے مطالعے سے پو ری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ ان میں سے بعض تو دفاعی تھیں اور بعض ابتدائی جہاد کی حیثیت رکھتی تھیں ۔ان میں کشور کشائی اورلوگوں کو دین اسلام کے لئے مجبو ر کر نے کا کو ئی پہلو نہ تھا۔ان کا مقصدغلط اور ظالمانہ نظام کو تہ و بالاکرنا تھا تاکہ لوگو ں کو آزدانہ طور پر مذہب اور اجتماعی زندگی کے مطالعے کو موقع فراہم کیا جا ئے ۔تاریخ شاہد ہے کہ مسلما ن جب کسی شہر کو فتح کرتے تو دوسرے مذہب کے پیروں کارو ں کو مسلمانوں کی طرح آزادی دیتے تھے اور جزیہ کے طور پر جو ٹیکس ان سے وصول کیا جاتا وہ در اصل امن وامان بر قرار رکھنے والی قو توں کے اخراجات کی تکمیل کے لئے ہو تا تھاکیونکہ کے اسلام میں غیر مسلموں کی جان و مال ا ور عزت وناموس محفوظ تھی ۔یہا ں تک کے وہ اپنی مذ ہبی رسوم بھی آزادانہ بجا لاتے تھے ۔
وہ سب لو گ جو تاریخ اسلام سے واقف ہیں اس حقیقت کو جانتے ہیں ۔حتی کہ وہ عیسائی جنہیوں نے اسلام کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں انہو نے اس با ت کا اعتراف کیا ہے مثلا کتاب تمد ن اسلام وعرب میں ہے :
مسلما نو ں کا دوسرے لوگوں سے سلوک اس قدر محبت بھرا اور نرم تھا کہ ان کے سردارو ں نے انہیں اپنی مذہبی تقریبا ت تک منعقد کرنے کی اجاززت دے رکھی تھی۔
کئی ایک تواریخ میں ہے کہ عیسائیوں کا ایک گروہ جو بعض سوالات اور تحقیقات کے لئے پیغمبر اکرم کی خدمت میں پہنچا تھا اس نے اپنی مذہبی عباد ت مد ینہ کی مسجد نبوی میں آزادانہ انجام دی۔
« رشد“ لغت میں راستہ پانے اور واقع تک پہنچنے کے معنی میںہے ۔اس کے بر عکس ”غی “ حقیقت سے انحراف اور واقع کے دور ہونے کے معنی میں ہے ۔دین مذہب کا تعلق چونکہ لوگوں کی فکر اور روح سے ہے اوراس کی اساس وبنیا د ایمان ویقین پر استوار ہے لہٰذا منطق واستدلال کے علاوہ اس کے لئے کوئی دوسرا راستہ صحیح نہیں ۔
جیسا کہ آیت کی شان نزول سے معلوم ہوتا ہے بعض افراد پیغمبر اکرم سے چاہتے تھے کہ آ پ بھی جابر حکمرانو ں کی طرح طاقت اور زور سے لوگوں کے عقائدتبدیل کرنے کے لئے عملی اقدام کریں ۔مندرجہ بالاآیت نے اس پر صراحت سے جواب دیا کہ دین وآئین ایسی چیز نہیں کہ جس کی جبری تبلیغ کی جائے ۔
یہ آیت ان لوگو ں کا دندان شکن جواب ہے جو اسلام کوزبردستی اورجبری پہلوکا حامل قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ا س کی ترقی فوج اور تلوار کی مر ہون منت ہے ۔
جب اسلام باپ کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے بیٹے کو مذہبی عقیدہ زبردستی بدلنے پر مجبور کرے تو دوسروں کی ذمہ داری اس سے واضح ہو جاتی ہے ۔اگر عقیدہ بدلنے کے لئے جبر ممکن اور جائز ہوتا تو ضرور ی تھا کہ سب سے پہلے باپ کو بیٹے کے بارے میں اجازت دی جاتی جبکہ اسے یہ حق نہیں دیا گیا۔
مذہب جبری نہیں ہو سکتا
اصولی طور پر اسلام یا کوئی مذہب حق دو وجوہ کی بناء پر جبر واکراہ کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔
۱۔ ان تمام واضح دلائل منطقی استدلال اور آشکار معجزات کے ہوتے ہوئے اس بات کی ضرورت ہی نہیں کہ جبر واکراہ کا راستہ اختیار کیا جائے ۔ جبر و اکراہ تو وہ اختیار کرتے ہیں جومنطق سے عاری ہو تے ہیں نہ کہ اسلام جیسا دین جو واضح اور قوی استدلالات کا حامل ہے ۔
۲۔اصولی طور پر دین جس کی بنیا د قلبی اعتقادات کاایک سلسلہ ہے ممکن ہی نہیں کہ جبری ہو ۔زور، طاقت ، تلوار اور فوجی قوت ہمارے جسمی اعمال وحرکات پر تو اثر اند از ہو سکتے ہیں لیکن ہما رے افکار وعقائد کو تو نہیں بدل سکتے ۔
جو کچھ کہا گیا ہے کلیسا کی زہریلی تبلیغ کا واضح جواب ہے کیو نکہ قر آن کے ان الفاظ”لااکراہ فی الدین “سے بڑھ کر اس سلسلے کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔
البتہ یہ لوگ اسلامی جنگوں کو غلط رنگ دینے کے درپے رہتے ہیںجب کہ ان اسلامی جنگوں کے مطالعے سے پو ری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ ان میں سے بعض تو دفاعی تھیں اور بعض ابتدائی جہاد کی حیثیت رکھتی تھیں ۔ان میں کشور کشائی اورلوگوں کو دین اسلام کے لئے مجبو ر کر نے کا کو ئی پہلو نہ تھا۔ان کا مقصدغلط اور ظالمانہ نظام کو تہ و بالاکرنا تھا تاکہ لوگو ں کو آزدانہ طور پر مذہب اور اجتماعی زندگی کے مطالعے کو موقع فراہم کیا جا ئے ۔تاریخ شاہد ہے کہ مسلما ن جب کسی شہر کو فتح کرتے تو دوسرے مذہب کے پیروں کارو ں کو مسلمانوں کی طرح آزادی دیتے تھے اور جزیہ کے طور پر جو ٹیکس ان سے وصول کیا جاتا وہ در اصل امن وامان بر قرار رکھنے والی قو توں کے اخراجات کی تکمیل کے لئے ہو تا تھاکیونکہ کے اسلام میں غیر مسلموں کی جان و مال ا ور عزت وناموس محفوظ تھی ۔یہا ں تک کے وہ اپنی مذ ہبی رسوم بھی آزادانہ بجا لاتے تھے ۔
وہ سب لو گ جو تاریخ اسلام سے واقف ہیں اس حقیقت کو جانتے ہیں ۔حتی کہ وہ عیسائی جنہیوں نے اسلام کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں انہو نے اس با ت کا اعتراف کیا ہے مثلا کتاب تمد ن اسلام وعرب میں ہے :
مسلما نو ں کا دوسرے لوگوں سے سلوک اس قدر محبت بھرا اور نرم تھا کہ ان کے سردارو ں نے انہیں اپنی مذہبی تقریبا ت تک منعقد کرنے کی اجاززت دے رکھی تھی۔
کئی ایک تواریخ میں ہے کہ عیسائیوں کا ایک گروہ جو بعض سوالات اور تحقیقات کے لئے پیغمبر اکرم کی خدمت میں پہنچا تھا اس نے اپنی مذہبی عباد ت مد ینہ کی مسجد نبوی میں آزادانہ انجام دی۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.