مختصر جواب:
مفصل جواب:
قرآن میں اسلامی جہاد کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ آیت کے مطابق جنگ کا ہدف وہ اغراض نہیں ہیں جو عموما جنگوںمیں لوگوں کی ہوتی ہیں۔ اسلامی جہاد نہ زمین پر فرماں روائی اور کشور گشائی کے لیے ہے اور نہ غنائم پر قبضہ کر نے کے لیے
اس کا مقصد اپنے مال کی فروخت کے لیے منڈیوں کا حصول ہے نہ خام مال پر قبضہ اور نہ ہی یہ جہاد ایک نسل کی دو سری نسل پر فوقیت قائم کر نے کے لیے ہے بلکہ اس کا مقصد ہے فقط پروردگار کی خوشنودی کا حصول ،اجتماعی عدالت کا قیام، ان لوگوں کی حمایت جو مکرر و فریب اور گمراہی کی رد میں ہیں ، انسانی معاشر ے سے شرک اور بت پرستی کی بساط الٹنا اور احکام الہی کا نفاذ ۔ اس بناء پر جیسا کہ مشاہدہ بتاتا ہے کہ اسلامی جنگ اس لیے ہوتی ہے کہ انسانی معاشرے میں فتنہ باقی نہ رہے اور توحید پرستی کا دین تمام انسانی معاشروں میں رواج پاجائے ۔
آیت کے ذیل میں مزید ارشاد ہو تا ہے کہ لوٹ آنے اور کفر ، فساد اور بت پرستی سے دست بردار ہو جانے کی صورت میں مسلمانوں کو چا ہئیے کہ وہ ان سے متعرض نہ ہوں اور گذشتہ واقعات کا انتقام لینے کے در پے نہ ہوں اور ماضی کو بھول جائیں کیونکہ تعرض اور تجاوز فقط ستمگر اور ظالم لوگ ہی کیا کر تے ہیں۔
اسلامی جہادوں کو حقیقت میں تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۱۔ ابتدائی جہاد آزادی:
خداوند عالم کے احکام اور پرواگرام نوع انسان کی سعادت ،آزادی، تکامل ، خوش بختی اور آسایش و آرام کے لیے ہیں اور اس نے اپنے انبیاء و مرسین کا یہ فریضہ قرار دیا ہے کہ وہ ان احکام کو لوگوں تک پہنچائیں۔ اب اگر کوئی شخص یا گروہ ان احکام کی تبلیغ کو اپنے پست منافع سے مزاحم سمجھتے ہوئے اس کی راہ میں روڑے اٹکائے تو انہیں حق پہچنتاہے کہ وہ پہلے صلح و آشتی سے اور اگر اس سے ممکن نہ ہو تو قوت و طاقت سے اپنے دعوت کی راہ سے یہ رکاوٹیں ہٹادیں اور اپنے لیے تبلیغ کی آزادی حاصل کریں ۔
دوسر ے لفظوں میں تمام معاشروں میں لوگ یہ حق رکھتے ہیں کہ راہ حق کی طرف دعوت دینے والوں کی آواز سنیں اور ان کی دعوت قبول کرنے میں آزاد ہوں اب اگر کچھ لوگ انکا یہ جائز حق چھیننا چاہیں اور انھیں اجازت نہ دیں کہ وہ راہ حق پکارنے والوں کی پکار گوش دل سے سن سکیں اور فکری و اجتماعی قید و بند سے آزاد ہوں تو پھران پروگراموں کے طرفداروں کو حق پہچتا ہے کہ وہ حصول آزادی کے لیے ہر ذریعہ استعمال کریں ۔ یہیں سے اسلام اور دیگر آسمانی ادیان میں ابتدائی جہاد کی ضرورت واضح ہو تی ہے۔ اس طرح اگر کچھ لوگ مومنین پردباد ڈالیں کہ وہ اپنے پرانے مذہب کی طرف جائیں تو یہ دباؤ دور کر نے کے لیے بھی ہر ذریعہ استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
۲۔ دفاعی جہاد
بعض اوقات کسی فرد یا گروہ پر جنگ ٹھونسی جاتی ہے اور اس پر تجاوز کیا جا تا ہے یا دشمن اس کی غفلت سے فائدہ اٹھا کراچانک حملہ کردیتا ایسی صورت میں حملے کا نشانہ نبنے والے فرد یا گروہ کو تمام آسمانی اور انسانی قوانین دفاع کا حق دیتے ہیں ۔ اُ سے حق پہنچتا ہے کہ ایسے ہیں جو کچھ اس سے اپنے وجود کی بقاء کے لیے بن پڑ ے کر ے اور اپنی حقاظت کے لیے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کر ے ۔ جہاد کی اس قسم کو دفاعی جہاد کہتے ہیں ۔ احد ، احزاب، موتہ، تبوک ، حنین، اور بعض دیگر اسلام جنگیں جہاد کے اسی حصے کا جزء ہیں اور یہ سب جنگیں دفاعی پہلوکی حامل ہیں ۔
۳۔ شرک و بت پرستی کے خلاف جہاد:
اسلام لوگوں کو یہ آخری اور بلند ترین دین انتخاب کرنے کی دعوت دیتا ہے اس کے با وحود وہ عقید ے کی آزادی کو بھی محترم شمار کرتا ہے ۔ اسی لیے آسمانی کتب کی حامل قوموں کو اسلام نے کافی مہلت اور رعایت دی ہے کہ وہ مطالعہ اور غور و فکر سے دین اسلام کو قبول کریں اور اگر وہ اسے قبول نہ کریں تب بھی ان سے اسلام ایک ہم پیمان اقلیت والا معاملہ کرتا ہے اور مخصوص شرائط کے ساتھ جو پیچیدہ ہیں نہ مشکل ان سے صلح آشتی سے باہمی زندگی گذار تا ہے۔
لیکن۔۔۔شرک اور بت پرستی کوئی دین اور آئین نہیں اور نہ ہی وہ قابل احترام ہے بلکہ وہ تو ایک قسم کی بے ہودگی، کجروی اور حماقت ہے ۔ در اصل وہ ایک فکری اور اخلاقی بیماری ہے حبس کی ہر قیمت پر ریشہ کنی ضروری ہے دو سروں کی فکر و نظر کی آزادی اور احترام کے الفاظ ان کے لیے استعمال ہو تے ہیں جن کے فکر و عقیدہ کی کم از کم کوئی صحیح بنیاد تو ہو لیکن کجروی ، بے ہودگی ، گمراہی ، اور بیماری تو کوئی ایسی چیز نہیں جسے محترم سمجھا جا ئے ۔ اسی لیے اسلام حکم دیتا ہے کہ جیسے بھی ہو انسانی معاشر ے سے بت پرستی کی ریشہ کنی کی جائے چاہے اس کے لیے جنگ مول لینا پڑ ے ۔ بت خانے اور بت پرستی کے آثار صلح صفائی سے نہ مٹ سکیں تو قوت و طاقت کے بل بوتے پر انہیں ویران و منہدم کیا جانا چا ہئیے۔
مدینہ میں جہاد کا حکم کیوں دیا گیا
ہم جانتے ہیں کہ جہاد ہجرت کے دوسرے سال مسلمانوںپر واجب ہوا اس سے پہلے واحب نہ تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مکہ میں ایک تو مسلمانوںکی تعداد اتنی کم تھی کہ مسلح قیام عملا خود کشی کے مترادف تھا اور دسری طرف مکہ میں دشمن بہت زیادہ طاقتور تھا لہذا مکہ کے اندر ان کا مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا۔
جب پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) مدینہ میں تشریف لائے تو بہت لوگ آپ پر ایمان لے آئے اور آپ نے اپنی دعوت مدینہ کے اندر اور با ہر ہر طرف پھیلائی ۔ اس طرح آپ ایک مختصر سی حکومت کے قیام اور دشمن کے مقابلے میں ضروری وسائل جمع کر نے کے قابل ہو گئے ۔ مدینہ چونکہ مکہ سے کافی دور تھا اس لیے یہ امور آسانی سے انجام پاگئے ۔ انقلاب اور آزادی پسند قوتیں دشمن سے مقابلے اور دفاع کے لیے تیار ہو گئیں۔
فتنہ کا قرانی مفہوم
نفظ فتنہ اور اس کے مشتقات قرآن میں مختلف معانی میں استعمال ہوئے ہیں ۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
۱۔ آزمائش و امتحان ۔۔۔۔۔جیسے یہ آیت ہے
احسب الناس ان یترکوآ ان یقولوا امنا و ہم لا یفتنون :عنکبوت آیہ ۲
کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ کہنا کافی ہے کہ وہ ایمان لی آئے ہیں اور ان کا امتحان اور آزمائش نہیں ہوگی؟
۲۔ فریب دہی ۔۔۔۔۔ارشاد الہی ہے:
یا بنی آدم لا یفتننکم الشیطان اعراف : آیت۲۷
ای اولاد آدم شیطان تمہیں مکر و فریب نہ د ے
۳۔ بلاء اور عذاب ۔۔۔۔۔فرمان الہی ہے:
و اتقوا فتنة لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصة :انفال آیت ۲۵
اس عذاب سے ڈرو جو فقط ظالموں ہی کے لیے نہیں ( بلکہ ان کے لیے بھی ہے جنہوں نے خود تو ظلم نہیں کیا لیکن ظلم ہوتا رہااور وہ چب سادھے(رہے)
۴۔ شرک، بت پرستی اور مومنین کی راہ میں رکاوٹ بننا ۔۔۔۔۔۔ارشاد ہوتا ہے:
وا قاتلو ہم حتی لا تکون فتنہ و یکون الدین کلہ للہ : انفال آیت۳۹
اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ شرک اور بت پرستی بافی نہ رہے اور دین صرف اللہ سے مخصوص ہو جا ئے
۵۔ گمراہ کرنا اور گمراہی ۔۔۔۔۔سورہ مائدہ میں ہے:
و من یرد اللہ فتنتہ فلن تملک لہ من اللہ شیئا :مائدہ آیت ۴۱
اور جسے خدا گمراہ کرد ے ( اور اس سے توفیق سب کرلے تو تم اس کے مقابلے میں کوئی قدرت نہیں رکھتے
بعید نہیں کہ ان تمام معانی کی ایک ہی بنیاد ہو( جیسے مشترک الفاظ کی یہی صورت ہوتی ہے) اور وہ بنیاد یہ ہے کہ فتنہ کا اصل لغوی معنی ہے کہ سو نے اور چاندی کو آگ کے دباؤ کے نیچے رکھنا تا کہ خالص اور ناخالص حصہ جدا ہو جائے۔ اس لیے جہاں کہیں دباؤ اور سختی ہو یہ لفظ استعمال ہو تا ہے ۔ مثلا امتحان کے مواقع پر شدت اور مشکل در پیش ہو تی ہے جو انسان کے امتحان کا باعث بنتی ہے۔ یہی حال کفر اور مخلوق کی ہدایت کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا ہے ۔ ان میں سے ہر ایک میں ایک قسم کاد باؤ اور شدت پائی جاتی ہے۔
اس کا مقصد اپنے مال کی فروخت کے لیے منڈیوں کا حصول ہے نہ خام مال پر قبضہ اور نہ ہی یہ جہاد ایک نسل کی دو سری نسل پر فوقیت قائم کر نے کے لیے ہے بلکہ اس کا مقصد ہے فقط پروردگار کی خوشنودی کا حصول ،اجتماعی عدالت کا قیام، ان لوگوں کی حمایت جو مکرر و فریب اور گمراہی کی رد میں ہیں ، انسانی معاشر ے سے شرک اور بت پرستی کی بساط الٹنا اور احکام الہی کا نفاذ ۔ اس بناء پر جیسا کہ مشاہدہ بتاتا ہے کہ اسلامی جنگ اس لیے ہوتی ہے کہ انسانی معاشرے میں فتنہ باقی نہ رہے اور توحید پرستی کا دین تمام انسانی معاشروں میں رواج پاجائے ۔
آیت کے ذیل میں مزید ارشاد ہو تا ہے کہ لوٹ آنے اور کفر ، فساد اور بت پرستی سے دست بردار ہو جانے کی صورت میں مسلمانوں کو چا ہئیے کہ وہ ان سے متعرض نہ ہوں اور گذشتہ واقعات کا انتقام لینے کے در پے نہ ہوں اور ماضی کو بھول جائیں کیونکہ تعرض اور تجاوز فقط ستمگر اور ظالم لوگ ہی کیا کر تے ہیں۔
اسلامی جہادوں کو حقیقت میں تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۱۔ ابتدائی جہاد آزادی:
خداوند عالم کے احکام اور پرواگرام نوع انسان کی سعادت ،آزادی، تکامل ، خوش بختی اور آسایش و آرام کے لیے ہیں اور اس نے اپنے انبیاء و مرسین کا یہ فریضہ قرار دیا ہے کہ وہ ان احکام کو لوگوں تک پہنچائیں۔ اب اگر کوئی شخص یا گروہ ان احکام کی تبلیغ کو اپنے پست منافع سے مزاحم سمجھتے ہوئے اس کی راہ میں روڑے اٹکائے تو انہیں حق پہچنتاہے کہ وہ پہلے صلح و آشتی سے اور اگر اس سے ممکن نہ ہو تو قوت و طاقت سے اپنے دعوت کی راہ سے یہ رکاوٹیں ہٹادیں اور اپنے لیے تبلیغ کی آزادی حاصل کریں ۔
دوسر ے لفظوں میں تمام معاشروں میں لوگ یہ حق رکھتے ہیں کہ راہ حق کی طرف دعوت دینے والوں کی آواز سنیں اور ان کی دعوت قبول کرنے میں آزاد ہوں اب اگر کچھ لوگ انکا یہ جائز حق چھیننا چاہیں اور انھیں اجازت نہ دیں کہ وہ راہ حق پکارنے والوں کی پکار گوش دل سے سن سکیں اور فکری و اجتماعی قید و بند سے آزاد ہوں تو پھران پروگراموں کے طرفداروں کو حق پہچتا ہے کہ وہ حصول آزادی کے لیے ہر ذریعہ استعمال کریں ۔ یہیں سے اسلام اور دیگر آسمانی ادیان میں ابتدائی جہاد کی ضرورت واضح ہو تی ہے۔ اس طرح اگر کچھ لوگ مومنین پردباد ڈالیں کہ وہ اپنے پرانے مذہب کی طرف جائیں تو یہ دباؤ دور کر نے کے لیے بھی ہر ذریعہ استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
۲۔ دفاعی جہاد
بعض اوقات کسی فرد یا گروہ پر جنگ ٹھونسی جاتی ہے اور اس پر تجاوز کیا جا تا ہے یا دشمن اس کی غفلت سے فائدہ اٹھا کراچانک حملہ کردیتا ایسی صورت میں حملے کا نشانہ نبنے والے فرد یا گروہ کو تمام آسمانی اور انسانی قوانین دفاع کا حق دیتے ہیں ۔ اُ سے حق پہنچتا ہے کہ ایسے ہیں جو کچھ اس سے اپنے وجود کی بقاء کے لیے بن پڑ ے کر ے اور اپنی حقاظت کے لیے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کر ے ۔ جہاد کی اس قسم کو دفاعی جہاد کہتے ہیں ۔ احد ، احزاب، موتہ، تبوک ، حنین، اور بعض دیگر اسلام جنگیں جہاد کے اسی حصے کا جزء ہیں اور یہ سب جنگیں دفاعی پہلوکی حامل ہیں ۔
۳۔ شرک و بت پرستی کے خلاف جہاد:
اسلام لوگوں کو یہ آخری اور بلند ترین دین انتخاب کرنے کی دعوت دیتا ہے اس کے با وحود وہ عقید ے کی آزادی کو بھی محترم شمار کرتا ہے ۔ اسی لیے آسمانی کتب کی حامل قوموں کو اسلام نے کافی مہلت اور رعایت دی ہے کہ وہ مطالعہ اور غور و فکر سے دین اسلام کو قبول کریں اور اگر وہ اسے قبول نہ کریں تب بھی ان سے اسلام ایک ہم پیمان اقلیت والا معاملہ کرتا ہے اور مخصوص شرائط کے ساتھ جو پیچیدہ ہیں نہ مشکل ان سے صلح آشتی سے باہمی زندگی گذار تا ہے۔
لیکن۔۔۔شرک اور بت پرستی کوئی دین اور آئین نہیں اور نہ ہی وہ قابل احترام ہے بلکہ وہ تو ایک قسم کی بے ہودگی، کجروی اور حماقت ہے ۔ در اصل وہ ایک فکری اور اخلاقی بیماری ہے حبس کی ہر قیمت پر ریشہ کنی ضروری ہے دو سروں کی فکر و نظر کی آزادی اور احترام کے الفاظ ان کے لیے استعمال ہو تے ہیں جن کے فکر و عقیدہ کی کم از کم کوئی صحیح بنیاد تو ہو لیکن کجروی ، بے ہودگی ، گمراہی ، اور بیماری تو کوئی ایسی چیز نہیں جسے محترم سمجھا جا ئے ۔ اسی لیے اسلام حکم دیتا ہے کہ جیسے بھی ہو انسانی معاشر ے سے بت پرستی کی ریشہ کنی کی جائے چاہے اس کے لیے جنگ مول لینا پڑ ے ۔ بت خانے اور بت پرستی کے آثار صلح صفائی سے نہ مٹ سکیں تو قوت و طاقت کے بل بوتے پر انہیں ویران و منہدم کیا جانا چا ہئیے۔
مدینہ میں جہاد کا حکم کیوں دیا گیا
ہم جانتے ہیں کہ جہاد ہجرت کے دوسرے سال مسلمانوںپر واجب ہوا اس سے پہلے واحب نہ تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مکہ میں ایک تو مسلمانوںکی تعداد اتنی کم تھی کہ مسلح قیام عملا خود کشی کے مترادف تھا اور دسری طرف مکہ میں دشمن بہت زیادہ طاقتور تھا لہذا مکہ کے اندر ان کا مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا۔
جب پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) مدینہ میں تشریف لائے تو بہت لوگ آپ پر ایمان لے آئے اور آپ نے اپنی دعوت مدینہ کے اندر اور با ہر ہر طرف پھیلائی ۔ اس طرح آپ ایک مختصر سی حکومت کے قیام اور دشمن کے مقابلے میں ضروری وسائل جمع کر نے کے قابل ہو گئے ۔ مدینہ چونکہ مکہ سے کافی دور تھا اس لیے یہ امور آسانی سے انجام پاگئے ۔ انقلاب اور آزادی پسند قوتیں دشمن سے مقابلے اور دفاع کے لیے تیار ہو گئیں۔
فتنہ کا قرانی مفہوم
نفظ فتنہ اور اس کے مشتقات قرآن میں مختلف معانی میں استعمال ہوئے ہیں ۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
۱۔ آزمائش و امتحان ۔۔۔۔۔جیسے یہ آیت ہے
احسب الناس ان یترکوآ ان یقولوا امنا و ہم لا یفتنون :عنکبوت آیہ ۲
کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ کہنا کافی ہے کہ وہ ایمان لی آئے ہیں اور ان کا امتحان اور آزمائش نہیں ہوگی؟
۲۔ فریب دہی ۔۔۔۔۔ارشاد الہی ہے:
یا بنی آدم لا یفتننکم الشیطان اعراف : آیت۲۷
ای اولاد آدم شیطان تمہیں مکر و فریب نہ د ے
۳۔ بلاء اور عذاب ۔۔۔۔۔فرمان الہی ہے:
و اتقوا فتنة لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصة :انفال آیت ۲۵
اس عذاب سے ڈرو جو فقط ظالموں ہی کے لیے نہیں ( بلکہ ان کے لیے بھی ہے جنہوں نے خود تو ظلم نہیں کیا لیکن ظلم ہوتا رہااور وہ چب سادھے(رہے)
۴۔ شرک، بت پرستی اور مومنین کی راہ میں رکاوٹ بننا ۔۔۔۔۔۔ارشاد ہوتا ہے:
وا قاتلو ہم حتی لا تکون فتنہ و یکون الدین کلہ للہ : انفال آیت۳۹
اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ شرک اور بت پرستی بافی نہ رہے اور دین صرف اللہ سے مخصوص ہو جا ئے
۵۔ گمراہ کرنا اور گمراہی ۔۔۔۔۔سورہ مائدہ میں ہے:
و من یرد اللہ فتنتہ فلن تملک لہ من اللہ شیئا :مائدہ آیت ۴۱
اور جسے خدا گمراہ کرد ے ( اور اس سے توفیق سب کرلے تو تم اس کے مقابلے میں کوئی قدرت نہیں رکھتے
بعید نہیں کہ ان تمام معانی کی ایک ہی بنیاد ہو( جیسے مشترک الفاظ کی یہی صورت ہوتی ہے) اور وہ بنیاد یہ ہے کہ فتنہ کا اصل لغوی معنی ہے کہ سو نے اور چاندی کو آگ کے دباؤ کے نیچے رکھنا تا کہ خالص اور ناخالص حصہ جدا ہو جائے۔ اس لیے جہاں کہیں دباؤ اور سختی ہو یہ لفظ استعمال ہو تا ہے ۔ مثلا امتحان کے مواقع پر شدت اور مشکل در پیش ہو تی ہے جو انسان کے امتحان کا باعث بنتی ہے۔ یہی حال کفر اور مخلوق کی ہدایت کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا ہے ۔ ان میں سے ہر ایک میں ایک قسم کاد باؤ اور شدت پائی جاتی ہے۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.