مختصر جواب:
مفصل جواب:
اعمال کی جزا اور سزا کے بارے میں علماء کے مختلف عقائد و نظریات ہیں جو یہاں بیان کئے جاتے ہیں :
(۱) بعض کا عقیدہ ہے کہ اعمال کی جزا اس دنیا کی جزا و سزا کی طرح طے شدہ امور کی مانند ہے ۔ یعنی جیسے اس دنیا میں ہر برے کا کے لئے قانون بنانے والوں کی طرف سے ایک سزا معین ہے اسی طرح خدائے بزرگ و بر تر نے ہر عمل کے لئے ایک خاص سزا یا جزا معین کر رکھی ہے ۔ یہ نظریہ اجر، مزدوری اور مقرر شدہ سزاوٴں کا ساہے ۔
(۲)بعض کا اعتقاد ہے کہ تمام سزائیں اور جزائیں نفس اور روح انسانی کی پیداوار ہیں جنھیں انسانی روح بغیر اختیار کے اس دنیا میں پیدا کرتی ہے کیونکہ نیک اور بد اعمال روح انسانی میں اچھے اور برے ملکات پیدا کردیتے ہیں اور یہ ملکات انسانی ضمیر اور ذات کا جز بن جاتے ہیں اور ان ملکات میں سے ہر ایک اپنے حسب حال نعمت یا عذاب کی ایک شکل بنالیتا ہے ۔
جن لوگوں کا باطن اس دنیا میں اچھا ہے ان کا تعلق اچھے افکار و تصورات سے رہتا ہے اور ناپاک افراد سوتے جاگتے باطل افکار اور بر تصورات میں مشغول رہتے ہیں یہی ملکات قیامت کے دن نعمت و عذاب اور راحت و تکلیف کی تخلیق کریں گے دوسرے لفظوں میں جنت کی نعمتوں اور دوزخ کی سزاوٴں کے بارے میں جو کچھ بھی ہم پرھتے ہیں وہ انسان کی اچھی صفات کی مخلوق ہیں کوئی دوسری چیز نہیں ۔
(۳) بزرگ علماء اسلام نے ایک اور راہ انتخاب کی ہے اور اس کے لئے آیات و روایات میں بہت سے شواہد پیش کئے ہیں ، ان کے موقف کاخلاصہ یہ ہے :
ہمارا ہر کردار ۔اچھا ہو یا برا ایک دنیاوی شکل و صورت رکھتا ہے جس کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں اور ایک اس کی اخروی شکل و صورت ہے جو اس وقت عمل میں چھپی ہوئی ہے اور قیامت کے دن تغیر و تبدل کے بعد وہ اپنی دنیا شکل و صورت کھو پیٹھے گا اور ایک نئی شکل میں سامنے آئےگا جو عمل کرنے والے کےلئے راحت و سکون یا آزار و تکلیف کا باعث ہوگی ۔
ان تینوںمذکورہ نظریات میں سے آخری نظریہ بہت سی قرآنی آیات سے مطابقت اور موافقت رکھتا ہے ۔
ان کے اعمال صلاحیتوں اور توانائیوں کی مختلف شکلیں ہیں ۔ قانون بقائے مادہ کی ترمیم شدہ شکل کے مطابق توانائی (ENERGY)کبھی ختم نہیں ہوتی اور ہمیشہ اس دنیا میں رہتی ہے اگر چہ ظاہراً ہم یہی سمجھتے ہیں کہ وہ ختم ہو چکی ہے ۱۔
(۱) بعض کا عقیدہ ہے کہ اعمال کی جزا اس دنیا کی جزا و سزا کی طرح طے شدہ امور کی مانند ہے ۔ یعنی جیسے اس دنیا میں ہر برے کا کے لئے قانون بنانے والوں کی طرف سے ایک سزا معین ہے اسی طرح خدائے بزرگ و بر تر نے ہر عمل کے لئے ایک خاص سزا یا جزا معین کر رکھی ہے ۔ یہ نظریہ اجر، مزدوری اور مقرر شدہ سزاوٴں کا ساہے ۔
(۲)بعض کا اعتقاد ہے کہ تمام سزائیں اور جزائیں نفس اور روح انسانی کی پیداوار ہیں جنھیں انسانی روح بغیر اختیار کے اس دنیا میں پیدا کرتی ہے کیونکہ نیک اور بد اعمال روح انسانی میں اچھے اور برے ملکات پیدا کردیتے ہیں اور یہ ملکات انسانی ضمیر اور ذات کا جز بن جاتے ہیں اور ان ملکات میں سے ہر ایک اپنے حسب حال نعمت یا عذاب کی ایک شکل بنالیتا ہے ۔
جن لوگوں کا باطن اس دنیا میں اچھا ہے ان کا تعلق اچھے افکار و تصورات سے رہتا ہے اور ناپاک افراد سوتے جاگتے باطل افکار اور بر تصورات میں مشغول رہتے ہیں یہی ملکات قیامت کے دن نعمت و عذاب اور راحت و تکلیف کی تخلیق کریں گے دوسرے لفظوں میں جنت کی نعمتوں اور دوزخ کی سزاوٴں کے بارے میں جو کچھ بھی ہم پرھتے ہیں وہ انسان کی اچھی صفات کی مخلوق ہیں کوئی دوسری چیز نہیں ۔
(۳) بزرگ علماء اسلام نے ایک اور راہ انتخاب کی ہے اور اس کے لئے آیات و روایات میں بہت سے شواہد پیش کئے ہیں ، ان کے موقف کاخلاصہ یہ ہے :
ہمارا ہر کردار ۔اچھا ہو یا برا ایک دنیاوی شکل و صورت رکھتا ہے جس کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں اور ایک اس کی اخروی شکل و صورت ہے جو اس وقت عمل میں چھپی ہوئی ہے اور قیامت کے دن تغیر و تبدل کے بعد وہ اپنی دنیا شکل و صورت کھو پیٹھے گا اور ایک نئی شکل میں سامنے آئےگا جو عمل کرنے والے کےلئے راحت و سکون یا آزار و تکلیف کا باعث ہوگی ۔
ان تینوںمذکورہ نظریات میں سے آخری نظریہ بہت سی قرآنی آیات سے مطابقت اور موافقت رکھتا ہے ۔
ان کے اعمال صلاحیتوں اور توانائیوں کی مختلف شکلیں ہیں ۔ قانون بقائے مادہ کی ترمیم شدہ شکل کے مطابق توانائی (ENERGY)کبھی ختم نہیں ہوتی اور ہمیشہ اس دنیا میں رہتی ہے اگر چہ ظاہراً ہم یہی سمجھتے ہیں کہ وہ ختم ہو چکی ہے ۱۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.