مختصر جواب:
مفصل جواب:
خداوند متعال سوره «آل عمران» کی آیت ۱۵ میں ارشاد فرماتا ہے : « ( قُلْ اٴَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِنْ ذَلِکُمْ لِلَّذِینَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْاٴَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا خَالِدِینَ فِیہَا وَاٴَزْوَاجٌ مُطَہَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِنْ اللهِ وَاللهُ بَصِیرٌ بِالْعِبَادِ ۔) » (۔ کہہ دیجئے : کیا تمہیں ایسی چیز سے آگاہ کروں جو اس ( مادی سر مائے سے بہتر ہے جنہوں نے پرہیز گاری اختیار کی ہے ( مادی سرمائے سے شرعی طریقے سے حق و عدالت کو ملحوظ رکھتے ہوئے استفادہ کیا ہے ) ان کے پروردگار کے پاس ( دوسرے جہان میں) ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور پاکیزبیویاں ( جو ہر ناپاکی سے منزہ ہیں ) اور خوشنودیٴ خدا انہیں نصیب ہوگی اور خدا ( بندوں کے امور کو ) دیکھنے والا ہے۔
ان میںپہلی آیت انسانی تکامل و ارتقاکے لئے بلندی کی راہوں کو واضح کرتی ہے ۔اسی طرف گذشتہ آیت کے آخر میں اشارہ ہواتھا اس آیت میں فرمایا گیا ہے : کیا تمہیں اس چیز کی خبر دوں جو محدود، مادی اور پست زندگی سے بالا تر اور بہتر ہے وہ جہان اندی کی زندگی ہے جو پرہیزگار اور خود دار افراد کے انتظار میں ہے جس میں تمام جہان کی نعمتیںموجود ہیں لیکن وہ زیادہ کامل صورت میں ہیں اور عیب و نقص سے پاک ہیں ۔
وہاں ایسے باغات ہیں جن کے درختوں کے نیچے اس جہان کے بر عکس پانی بہتا ہے اور منقطع نہیں ہوتا ۔
"جَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْاٴَنْہَارُ"۔
اس جہان کی نعمتیں تو بہت جلد گذر جاتی ہیں اور ناپائیدار ہیں لیکن وہاں کی نعمتیں ابدی ہیں ( خَالِدِینَ فِیہَا خَالِدِینَ فِیہَا ) اس جہان کی بیویاں یہاں کی حسین عورتوں کے بر عکس جسمانی و روحانی اعتبار سے بہت پاکیزہ ہوں گی اور ان میں کوئی ناپاکی و تیر گی نہیں ہو گی "وَاٴَزْوَاجٌ مُطَہَّرَة"۔
یہ سب چیزیں پرہیز گاروں کے انتظار میں ہیں اور ان تمام بالاتر معنوی نعمتیں ہیں جو تصورسے ماوراء ہیں جنہیں آیت میں " وَرِضْوَانٌ مِنْ اللهِ وَاللهُ"( یعنی خوشنودیٴ خدا ) سے تعبیر یا گیا ہے ۔
یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ آیت" اوٴُ نبِّئُکم" سے شروع ہوتی ہے ۔ جس کامعنی ہے " کیا تمہیں آگاہ کروں " ایک طرف یہ جملہ استفہامیہ ہے جو انسان کی بیدار فطرت سے جواب طلب کرتا ہے تاکہ سننے والے پر اس کا اثر زیادہ گہرا ہو اور دوسری طرف سے یہ لفظ " انباء " کے مادہ سے ہے اور خبر دینے کے معنی میں لیا گیا ہے جو عموماً اہم ترین اور قابل توجہ خبروں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔
درحقیقت قرآن اس آیت میں صاحب ایمان افراد کو خبر دیتا ہے کہ اگر وہ غیر شر عی لذتوں ۔ سر کشی اور گناہ آلود ہوس سے صرف نظر کرلیں تو اس کا معنی لذّت سے محروری نہیں ہوگا کیونکہ وہ راہ سعادت میں جائزلذّت حاصل کر سکنے کے علاوہ دوسرے جہاں کی لذتوں سے بھی بہرہ مند ہوں گے جو اس جہاں کی طرح ہیں لیکن بلند تر بھی ہیں اور پر نقص و عیب سے مبراء بھی ۔ ۱
ان میںپہلی آیت انسانی تکامل و ارتقاکے لئے بلندی کی راہوں کو واضح کرتی ہے ۔اسی طرف گذشتہ آیت کے آخر میں اشارہ ہواتھا اس آیت میں فرمایا گیا ہے : کیا تمہیں اس چیز کی خبر دوں جو محدود، مادی اور پست زندگی سے بالا تر اور بہتر ہے وہ جہان اندی کی زندگی ہے جو پرہیزگار اور خود دار افراد کے انتظار میں ہے جس میں تمام جہان کی نعمتیںموجود ہیں لیکن وہ زیادہ کامل صورت میں ہیں اور عیب و نقص سے پاک ہیں ۔
وہاں ایسے باغات ہیں جن کے درختوں کے نیچے اس جہان کے بر عکس پانی بہتا ہے اور منقطع نہیں ہوتا ۔
"جَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْاٴَنْہَارُ"۔
اس جہان کی نعمتیں تو بہت جلد گذر جاتی ہیں اور ناپائیدار ہیں لیکن وہاں کی نعمتیں ابدی ہیں ( خَالِدِینَ فِیہَا خَالِدِینَ فِیہَا ) اس جہان کی بیویاں یہاں کی حسین عورتوں کے بر عکس جسمانی و روحانی اعتبار سے بہت پاکیزہ ہوں گی اور ان میں کوئی ناپاکی و تیر گی نہیں ہو گی "وَاٴَزْوَاجٌ مُطَہَّرَة"۔
یہ سب چیزیں پرہیز گاروں کے انتظار میں ہیں اور ان تمام بالاتر معنوی نعمتیں ہیں جو تصورسے ماوراء ہیں جنہیں آیت میں " وَرِضْوَانٌ مِنْ اللهِ وَاللهُ"( یعنی خوشنودیٴ خدا ) سے تعبیر یا گیا ہے ۔
یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ آیت" اوٴُ نبِّئُکم" سے شروع ہوتی ہے ۔ جس کامعنی ہے " کیا تمہیں آگاہ کروں " ایک طرف یہ جملہ استفہامیہ ہے جو انسان کی بیدار فطرت سے جواب طلب کرتا ہے تاکہ سننے والے پر اس کا اثر زیادہ گہرا ہو اور دوسری طرف سے یہ لفظ " انباء " کے مادہ سے ہے اور خبر دینے کے معنی میں لیا گیا ہے جو عموماً اہم ترین اور قابل توجہ خبروں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔
درحقیقت قرآن اس آیت میں صاحب ایمان افراد کو خبر دیتا ہے کہ اگر وہ غیر شر عی لذتوں ۔ سر کشی اور گناہ آلود ہوس سے صرف نظر کرلیں تو اس کا معنی لذّت سے محروری نہیں ہوگا کیونکہ وہ راہ سعادت میں جائزلذّت حاصل کر سکنے کے علاوہ دوسرے جہاں کی لذتوں سے بھی بہرہ مند ہوں گے جو اس جہاں کی طرح ہیں لیکن بلند تر بھی ہیں اور پر نقص و عیب سے مبراء بھی ۔ ۱
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.