مختصر جواب:
مفصل جواب:
ابوعبدالرحمن حجر بن عدی بن معاویہ کندی ، ""حُجرُ الخیر"" (نیک کام کرنے والے حجر) اور ""ابن ادبر"" (١) کے لقب سے مشہور تھے ، انہوں نے جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوں کو درک کیا تھا (٢) ۔ حجر بن عدی ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس گئے (٣) اور ان کے ساتھ زندگی بسر کی (٤) ۔
حجر کا شمار تاریخ اسلام کے نورانی چہروں اور تاریخ تشیع کی بلند شخصیات میں ہوتا ہے ۔
آپ نے اپنی جوانی کے زمانہ میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں شرفیاب ہو کر اسلام قبول کیا ، دنیا سے دوری، نماز و روزہ کے پابند، شرافت ، کرامت ، صحیح کام انجام دینے اور عبادت وغیرہ آپ کی خاص خصوصیات تھیں (٥) ۔
آپ کا زہد و تقوی بہت مشہور تھے (٦) ۔ حُجر کی پاک و پاکیزہ روح ، صحیح کردار اوربہترین طور طریقہ نے آپ کو مستجاب الدعوات بنادیا تھا (٧) ۔
آپ نے کبھی بھی حق کشی اور باطل کے سامنے خاموشی اختیار نہیں کی ، یہی وجہ تھی کہ آپ نے مومنین اور مجاہدین کے ساتھ عثمان کے خلاف شورش کی (٨) اور حضرت علی (علیہ السلام) کی حکومت کو قائم کرنے میں آپ نے بہت زیادہ کوشش کی ،اسی وجہ سے آپ کا شمار حضرت علی (علیہ السلام) کے خاص اصحاب (٩) اور پیروی کرنے والوں (١٠) میں ہوتا تھا ۔
آپ نے حضرت علی (علیہ السلام) کے ساتھ جنگوں میں شرکت فرمائی ۔ جنگ جمل (١١) میں کندی فوج کے کمانڈر تھے (١٢) اور صفین (١٣) میں اپنے قبیلہ کی سرداری فرمارہے تھے (١٤) ، نہروان میں میسرہ کی فوج (١٥) یا مولی علی (علیہ السلام) کی فوج کے میمنہ (١٦) کی کمانڈری آپ کے سپرد تھی ۔
آپ بہت ہی سلیس گفتگو کرتے تھے ،بلاغت و فصاحت کے ساتھ حقایق کو بیان کرتے تھے ۔ حضرت علی (علیہ السلام) کے متعلق آپ کے خوبصورت کلمات اس کی بہترین مثال ہے (١٨) ۔
حضرت علی (علیہ السلام) کے ضربت لگنے سے کچھ لمحے پہلے آپ کو اس فتنہ کی خبر ملی تھی اور آپ نے بہت کوشش کہ حضرت علی (علیہ السلام) کو اس سے آگاہ کریں ،لیکن وہ اپنے اس ارادہ میں کامیاب نہ ہوسکے (١٩) اورمولی علی (علیہ السلام) کے خون کا غم آپ کے سینہ پر باقی رہ گیا ۔
آپ امام حسن (علیہ السلام) کے بھی بہت ہی غیور اور ثابت قدم صحابی تھے (٢٠) ، جب آپ کو صلح کی خبر ملی تو عزت و غیرت کا خون ان کی رگوں میں دوڑنے لگا اور انہوں نے اس صلح پر اعتراض کیا (٢١) ۔ امام حسن (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا : اگر دوسرے افراد بھی تمہاری طرح عزت طلب ہوتے تومیں کبھی بھی اس معاہدہ پر دستخط نہ کرتا (٢٢) ۔
معاویہ کی سیاہ کاریوں سے حجر کا دل بھرا ہوا تھا اورہمیشہ ""حزب الطلقاء"" (فتح مکہ کے آزاد شدہ گروہ) کے بدنام چہروںسے دوری اختیار کرتے تھے اور تمام شیعوں کے ساتھ اس پر لعنت کرتے تھے (٢٣) کیونکہ یہ وہ گروہ تھا جس کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ""ملعون"" سمجھتے تھے ۔
جب بھی مغیرہ (جس کا برائی اور غلط کاموں میں ثانی نہ تھا اور ""حزب الطلقائ"" کی حاکمیت کے ذریعہ کوفہ کا حاکم بن گیا تھا ) ، مولی علی (علیہ السلام) اور ان کے چاہنے والوں کو ناسزا کہتا تھا تو حُجر بغیر کسی خوف و ہراس کے کھڑے ہوتے تھے اور اس کی ملامت کرتے تھے (٢٤) ۔ معاویہ ان کی اس حالت ، ثابت قدمی اور سختی سے پریشان ہوگیا تھا لہذا اس نے آپ کو قتل کرنے کا حکم صادر کیا اور ٥١ ہجری میں حجر کو ان کے اصحاب کے ساتھ (٢٥) ""مَرج عذرا"" (٢٦) ، (٢٧) میں شہید کردیا (٢٨) ۔
تمام لوگ حجر کو پسند کرتے تھے ، عوام کے درمیان آپ کی محبوبیت بہت زیادہ تھی ، لہذا ان کی شہادت لوگوںکو بہت مہنگی پڑی (٢٩) اس وجہ سے انہوں نے معاویہ پر اعتراض کیا (٣٢) ۔
معاویہ اپنی تمام تر فریب کاریوں کے باوجود حجر کے قتل کو اپنی غلطیوں میں شمار کرتا تھا اوراس پر ندامت کا اظہار کرتا تھا (٣٣) معاویہ نے مرتے وقت کہا : اگر کوئی نصیحت کرنے والے ہوتا تو مجھے حجر کو قتل کرنے سے منع کرتا (٣٤) ۔
حضرت علی (علیہ السلام) نے ان کی شہادت کی خبر دیتے ہوئے ان کی اور ان کے اصحاب کی شہادت کو ""اصحاب اخدود"" (٣٥) کی شہادت سے تشبیہ دی تھی (٣٦) ۔
حجر کا شمار تاریخ اسلام کے نورانی چہروں اور تاریخ تشیع کی بلند شخصیات میں ہوتا ہے ۔
آپ نے اپنی جوانی کے زمانہ میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں شرفیاب ہو کر اسلام قبول کیا ، دنیا سے دوری، نماز و روزہ کے پابند، شرافت ، کرامت ، صحیح کام انجام دینے اور عبادت وغیرہ آپ کی خاص خصوصیات تھیں (٥) ۔
آپ کا زہد و تقوی بہت مشہور تھے (٦) ۔ حُجر کی پاک و پاکیزہ روح ، صحیح کردار اوربہترین طور طریقہ نے آپ کو مستجاب الدعوات بنادیا تھا (٧) ۔
آپ نے کبھی بھی حق کشی اور باطل کے سامنے خاموشی اختیار نہیں کی ، یہی وجہ تھی کہ آپ نے مومنین اور مجاہدین کے ساتھ عثمان کے خلاف شورش کی (٨) اور حضرت علی (علیہ السلام) کی حکومت کو قائم کرنے میں آپ نے بہت زیادہ کوشش کی ،اسی وجہ سے آپ کا شمار حضرت علی (علیہ السلام) کے خاص اصحاب (٩) اور پیروی کرنے والوں (١٠) میں ہوتا تھا ۔
آپ نے حضرت علی (علیہ السلام) کے ساتھ جنگوں میں شرکت فرمائی ۔ جنگ جمل (١١) میں کندی فوج کے کمانڈر تھے (١٢) اور صفین (١٣) میں اپنے قبیلہ کی سرداری فرمارہے تھے (١٤) ، نہروان میں میسرہ کی فوج (١٥) یا مولی علی (علیہ السلام) کی فوج کے میمنہ (١٦) کی کمانڈری آپ کے سپرد تھی ۔
آپ بہت ہی سلیس گفتگو کرتے تھے ،بلاغت و فصاحت کے ساتھ حقایق کو بیان کرتے تھے ۔ حضرت علی (علیہ السلام) کے متعلق آپ کے خوبصورت کلمات اس کی بہترین مثال ہے (١٨) ۔
حضرت علی (علیہ السلام) کے ضربت لگنے سے کچھ لمحے پہلے آپ کو اس فتنہ کی خبر ملی تھی اور آپ نے بہت کوشش کہ حضرت علی (علیہ السلام) کو اس سے آگاہ کریں ،لیکن وہ اپنے اس ارادہ میں کامیاب نہ ہوسکے (١٩) اورمولی علی (علیہ السلام) کے خون کا غم آپ کے سینہ پر باقی رہ گیا ۔
آپ امام حسن (علیہ السلام) کے بھی بہت ہی غیور اور ثابت قدم صحابی تھے (٢٠) ، جب آپ کو صلح کی خبر ملی تو عزت و غیرت کا خون ان کی رگوں میں دوڑنے لگا اور انہوں نے اس صلح پر اعتراض کیا (٢١) ۔ امام حسن (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا : اگر دوسرے افراد بھی تمہاری طرح عزت طلب ہوتے تومیں کبھی بھی اس معاہدہ پر دستخط نہ کرتا (٢٢) ۔
معاویہ کی سیاہ کاریوں سے حجر کا دل بھرا ہوا تھا اورہمیشہ ""حزب الطلقاء"" (فتح مکہ کے آزاد شدہ گروہ) کے بدنام چہروںسے دوری اختیار کرتے تھے اور تمام شیعوں کے ساتھ اس پر لعنت کرتے تھے (٢٣) کیونکہ یہ وہ گروہ تھا جس کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ""ملعون"" سمجھتے تھے ۔
جب بھی مغیرہ (جس کا برائی اور غلط کاموں میں ثانی نہ تھا اور ""حزب الطلقائ"" کی حاکمیت کے ذریعہ کوفہ کا حاکم بن گیا تھا ) ، مولی علی (علیہ السلام) اور ان کے چاہنے والوں کو ناسزا کہتا تھا تو حُجر بغیر کسی خوف و ہراس کے کھڑے ہوتے تھے اور اس کی ملامت کرتے تھے (٢٤) ۔ معاویہ ان کی اس حالت ، ثابت قدمی اور سختی سے پریشان ہوگیا تھا لہذا اس نے آپ کو قتل کرنے کا حکم صادر کیا اور ٥١ ہجری میں حجر کو ان کے اصحاب کے ساتھ (٢٥) ""مَرج عذرا"" (٢٦) ، (٢٧) میں شہید کردیا (٢٨) ۔
تمام لوگ حجر کو پسند کرتے تھے ، عوام کے درمیان آپ کی محبوبیت بہت زیادہ تھی ، لہذا ان کی شہادت لوگوںکو بہت مہنگی پڑی (٢٩) اس وجہ سے انہوں نے معاویہ پر اعتراض کیا (٣٢) ۔
معاویہ اپنی تمام تر فریب کاریوں کے باوجود حجر کے قتل کو اپنی غلطیوں میں شمار کرتا تھا اوراس پر ندامت کا اظہار کرتا تھا (٣٣) معاویہ نے مرتے وقت کہا : اگر کوئی نصیحت کرنے والے ہوتا تو مجھے حجر کو قتل کرنے سے منع کرتا (٣٤) ۔
حضرت علی (علیہ السلام) نے ان کی شہادت کی خبر دیتے ہوئے ان کی اور ان کے اصحاب کی شہادت کو ""اصحاب اخدود"" (٣٥) کی شہادت سے تشبیہ دی تھی (٣٦) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.