مختصر جواب:
مفصل جواب:
کتاب رجال کشی ّ میں آیا ہے : محمد بن ابی حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ کا شمار امام علی علیہ السلام کے اصحاب اور آپ کے چاہنے والوں میں ہوتا تھا ،وہ معاویہ کاماموں زاد بھائی تھا اورمنتخب مسلمانوںمیں سے تھا ،جب علی علیہ السلام کی شہادت ہوگئی تو معاویہ نے اس کو گرفتار کرکرکے ایک مدت تک زندان میں ڈال دیا ۔
اس کے بعد ایک روز معاویہ نے کہا : کیا اس کم عقل محمد بن ابی حذیفہ کے پاس کسی شخص کو نہ بھیجا جائے جو اس کوسمجھائے اور اس کو اس کی گمراہی سے باخبر کرے اور اسے حکم دے کہ وہ علی کو برا بھلا کہے ؟
انھوں نے کہا: کیوں نہیں ؟
معاویہ نے قاصد کو بھیج کر اس کو زندان سے باہر نکلوایا ۔ معاویہ نے کہا : اے محمد بن ابی حذیفہ ! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تو علی بن ابی طالب کی مدد کرنے میں اپنی گمراہی کا اعتراف کرے ؟ ...
محمد نے کہا : خدا کی قسم میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے تجھے جاہلیت سے لیکر اسلام تک ایک ہی طینت پر پایا ہے، اسلام نے تجھ میں بالکل بھی تبدیلی نہیں کی جس کی واضح اور روشن دلیل علی علیہ السلام کی محبت کی وجہ سے میرا تجھے سرزنش کرنا ہے ۔
میں علی کے ساتھ ان مھاجرین و انصارکی طرح ہوگیا جو دن میں روزہ رکھتے ہیں اور رات میں عبادت کرتے ہیں ۔ اور تو منافقین و آزاد شدہ گان کی اولاد کے ساتھ ہوگیا تونے ان کو دین میں دھوکہ دیا لیکن انھوں نے ظاہری طور پردھوکا کھاتے ہوئے تیری دنیا سے فائدہ اُٹھایا ۔
خدا کی قسم، اے معاویہ! تو خوب جانتا ہے کہ تونے کیا کیا ہے اوروہ بھی جانتے ہیں کہ انھوں نے کیا کیا ہے ۔ ان لوگوں نے تیری اطاعت کرکے اپنے آپ کو غضب الہی میں ڈال دیا ہے ۔
خدا کی قسم میںاس وقت اور جب تک زندہ ہوں، علی (علیہ السلام) کو خدا کی خاطر دوست رکھوں گا اور تجھ کو خدا و رسول کی وجہ سے دشمن سمجھتا ہوں ۔
معاویہ نے کہا : میں ابھی بھی تجھ کو گمراہ دیکھ رہا ہوں ۔ اس لئے اس کو دوبارہ زندان میں لے جائو۔
لہذا دوبارہ اس کو زندان میں ڈال دیا گیا وہ زندان میں اس آیت«قالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ ِلَیَّ مِمَّا یَدْعُونَنی ِلَیْہِ وَ ِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّی کَیْدَہُنَّ أَصْبُ ِلَیْہِن« کی تلاوت کررہا تھا جس کی جناب یوسف نے تلاوت کی تھی اور کہا تھا « پروردگار! یہ قید مجھے اس کام سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ لوگ دعوت دے رہے ہیں «( ١) اور اسی طرح زندان میں مر گیا (٢) ( ٣) ۔
اس کے بعد ایک روز معاویہ نے کہا : کیا اس کم عقل محمد بن ابی حذیفہ کے پاس کسی شخص کو نہ بھیجا جائے جو اس کوسمجھائے اور اس کو اس کی گمراہی سے باخبر کرے اور اسے حکم دے کہ وہ علی کو برا بھلا کہے ؟
انھوں نے کہا: کیوں نہیں ؟
معاویہ نے قاصد کو بھیج کر اس کو زندان سے باہر نکلوایا ۔ معاویہ نے کہا : اے محمد بن ابی حذیفہ ! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تو علی بن ابی طالب کی مدد کرنے میں اپنی گمراہی کا اعتراف کرے ؟ ...
محمد نے کہا : خدا کی قسم میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے تجھے جاہلیت سے لیکر اسلام تک ایک ہی طینت پر پایا ہے، اسلام نے تجھ میں بالکل بھی تبدیلی نہیں کی جس کی واضح اور روشن دلیل علی علیہ السلام کی محبت کی وجہ سے میرا تجھے سرزنش کرنا ہے ۔
میں علی کے ساتھ ان مھاجرین و انصارکی طرح ہوگیا جو دن میں روزہ رکھتے ہیں اور رات میں عبادت کرتے ہیں ۔ اور تو منافقین و آزاد شدہ گان کی اولاد کے ساتھ ہوگیا تونے ان کو دین میں دھوکہ دیا لیکن انھوں نے ظاہری طور پردھوکا کھاتے ہوئے تیری دنیا سے فائدہ اُٹھایا ۔
خدا کی قسم، اے معاویہ! تو خوب جانتا ہے کہ تونے کیا کیا ہے اوروہ بھی جانتے ہیں کہ انھوں نے کیا کیا ہے ۔ ان لوگوں نے تیری اطاعت کرکے اپنے آپ کو غضب الہی میں ڈال دیا ہے ۔
خدا کی قسم میںاس وقت اور جب تک زندہ ہوں، علی (علیہ السلام) کو خدا کی خاطر دوست رکھوں گا اور تجھ کو خدا و رسول کی وجہ سے دشمن سمجھتا ہوں ۔
معاویہ نے کہا : میں ابھی بھی تجھ کو گمراہ دیکھ رہا ہوں ۔ اس لئے اس کو دوبارہ زندان میں لے جائو۔
لہذا دوبارہ اس کو زندان میں ڈال دیا گیا وہ زندان میں اس آیت«قالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ ِلَیَّ مِمَّا یَدْعُونَنی ِلَیْہِ وَ ِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّی کَیْدَہُنَّ أَصْبُ ِلَیْہِن« کی تلاوت کررہا تھا جس کی جناب یوسف نے تلاوت کی تھی اور کہا تھا « پروردگار! یہ قید مجھے اس کام سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ لوگ دعوت دے رہے ہیں «( ١) اور اسی طرح زندان میں مر گیا (٢) ( ٣) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.