مختصر جواب:
مفصل جواب:
جو روایتیں ابن تیمیہ کے عقاید اور نظریات کی مخالف ہیں ،ابن تیمہ ان احادیث سند کی تحقیق کے بغیر جعلی قرار دیدتا ہے ۔
وہ کہتا ہے : یہ حدیث « ھو ولی کل مومن بعدی « ، او (یعنی حضرت علی (علیہ السلام) ) میرے بعد ہر مومن کے سرپرست اور ولی ہیں، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر جھوٹ اور بہتان ہے ،بلکہ آنحضرت (ص) اپنی زندگی اور مرنے کے بعد ہر مومن کے ولی ہیں اور ہر مومن بھی ان کی زندگی اور مرنے کے بعد ان کا ولی ہے (١) ۔
جبکہ اس حدیث کو بہت سے علمائے اہل سنت جیسے ترمذی، نسائی، ابن حبان، حاکم نیشاپوری، طیالسی اور احمد بن حنبل وغیرہ نے جعفر بن سلیمان سے نقل کیا ہے ...(٢) ۔
البانی نے حدیث ولایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے : اس کی سند حسن ہے اور اس کے رجال موثق ہیں ،بلکہ اس کے رجال ،اجلح کے علاوہ شیخین کے رجال ہیں اور یہ وہی ابن عبداللہ کندی ہے جس کے متعلق اختلاف ہے اور «تقریب« میں صدوق شیعہ کے عنوان سے پہچانا گیا ہے ۔
اس کے بعد کہتا ہے : اگر کوئی کہے : اس کا راوی شیعہ ہے اوراسی طرح اصل حدیث کی سند میں بھی ایک دوسرا شیعہ ہے جو کہ جعفر بن سلیمان ہے ، کیا یہ مسئلہ حدیث میں طعن شمار نہیں ہوتا ؟
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں : ہرگز نہیں، کیونکہ حدیث کی روایت کا اعتبار صرف صدق اور حفظ میں ہے ، لیکن اس کا مذہب خود اس کے اور اس کے خدا کے درمیان ہے اور خداوند عالم اس سے حساب لینے والا ہے ، اسی وجہ سے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ صاحب بخاری و مسلم اور دوسرے بعض علماء نے ان مخالفین سے روایت نقل کی ہے جو موثق تھے ، اسی طرح خوارج ،شیعہ اور دوسرے راویوں سے حدیثیں نقل کی ہیں ۔
اس کے بعد کہتا ہے : ان تمام باتوں کے باوجود مجھے نہیں معلوم کہ ابن تیمیہ نے اس حدیث کی تضعیف کیوں کی ہے اور میری نظر میں اس حدیث میں کوئی ا عتراض نہیں ہے ،صرف شیعوں کی مخالفت میں مبالغہ سے کام لیا گیا ہے ...(٣) ۔
اس نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا : «یقول اللہ تعالی من عادی لی ولیا فقد بارزنی بالمحاربة«۔ اور اس کی نسبت ابوہریرہ کی طرف دی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح بخاری میں نقل ہوئی ہے (٤) ۔ اور بخاری نے بھی ابوہریرہ سے نقل کی ہے بلکہ طبرانی نے ابی امامہ سے نقل کی ہے ۔
نیز ترمذی سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : «لولم ابعث لبعث عمر « (٥) جبکہ یہ حدیث ترمذی سے نقل نہیں ہوئی ہے بلکہ ابن عدی نے اس کو نقل کیا ہے اور اس کی سند کو زکریا بن یحیی کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے ۔
نیز ابن جوزی نے اس کو «الموضوعات« میں بیان کیا ہے جو کہ جعلی روایتوں سے مخصوص ہے ۔
اس نے کتاب «الزیارة« میں کہا ہے : عبداللہ بن حسن بن حسین بن علی بن ابی طالب نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر کی طرف رفت و آمد کرتا ہے ....(٦) ۔ حسن بن حسین بن علی بن ابی طالب ، حسن مثنی سے معروف ہیں ۔
اسی طرح اس نے حدیث غدیر کے صدر و ذیل کی تصحیح کرنے کے بعد کہا ہے : ان باتوں کو بیان کرنے کے بعد میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کے متعلق اپنے کلام کو تفصیل دینے اور اس کے صحیح ہونے کو بیان کرنے کی وجہ یہ تھی کہ میں نے مشاہدہ کیا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس حدیث کے پہلے جزء کی تضعیف کی ہے اور دوسرے جزء کے متعلق گمان کیا ہے کہ یہ باطل ہے اور میری نظر میں یہ مبالغہ اور اس کا احادیث کو ضعیف قرار دینے میں جلدی کرنا ہے (٧) (٨) ۔
وہ کہتا ہے : یہ حدیث « ھو ولی کل مومن بعدی « ، او (یعنی حضرت علی (علیہ السلام) ) میرے بعد ہر مومن کے سرپرست اور ولی ہیں، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر جھوٹ اور بہتان ہے ،بلکہ آنحضرت (ص) اپنی زندگی اور مرنے کے بعد ہر مومن کے ولی ہیں اور ہر مومن بھی ان کی زندگی اور مرنے کے بعد ان کا ولی ہے (١) ۔
جبکہ اس حدیث کو بہت سے علمائے اہل سنت جیسے ترمذی، نسائی، ابن حبان، حاکم نیشاپوری، طیالسی اور احمد بن حنبل وغیرہ نے جعفر بن سلیمان سے نقل کیا ہے ...(٢) ۔
البانی نے حدیث ولایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے : اس کی سند حسن ہے اور اس کے رجال موثق ہیں ،بلکہ اس کے رجال ،اجلح کے علاوہ شیخین کے رجال ہیں اور یہ وہی ابن عبداللہ کندی ہے جس کے متعلق اختلاف ہے اور «تقریب« میں صدوق شیعہ کے عنوان سے پہچانا گیا ہے ۔
اس کے بعد کہتا ہے : اگر کوئی کہے : اس کا راوی شیعہ ہے اوراسی طرح اصل حدیث کی سند میں بھی ایک دوسرا شیعہ ہے جو کہ جعفر بن سلیمان ہے ، کیا یہ مسئلہ حدیث میں طعن شمار نہیں ہوتا ؟
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں : ہرگز نہیں، کیونکہ حدیث کی روایت کا اعتبار صرف صدق اور حفظ میں ہے ، لیکن اس کا مذہب خود اس کے اور اس کے خدا کے درمیان ہے اور خداوند عالم اس سے حساب لینے والا ہے ، اسی وجہ سے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ صاحب بخاری و مسلم اور دوسرے بعض علماء نے ان مخالفین سے روایت نقل کی ہے جو موثق تھے ، اسی طرح خوارج ،شیعہ اور دوسرے راویوں سے حدیثیں نقل کی ہیں ۔
اس کے بعد کہتا ہے : ان تمام باتوں کے باوجود مجھے نہیں معلوم کہ ابن تیمیہ نے اس حدیث کی تضعیف کیوں کی ہے اور میری نظر میں اس حدیث میں کوئی ا عتراض نہیں ہے ،صرف شیعوں کی مخالفت میں مبالغہ سے کام لیا گیا ہے ...(٣) ۔
اس نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا : «یقول اللہ تعالی من عادی لی ولیا فقد بارزنی بالمحاربة«۔ اور اس کی نسبت ابوہریرہ کی طرف دی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح بخاری میں نقل ہوئی ہے (٤) ۔ اور بخاری نے بھی ابوہریرہ سے نقل کی ہے بلکہ طبرانی نے ابی امامہ سے نقل کی ہے ۔
نیز ترمذی سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : «لولم ابعث لبعث عمر « (٥) جبکہ یہ حدیث ترمذی سے نقل نہیں ہوئی ہے بلکہ ابن عدی نے اس کو نقل کیا ہے اور اس کی سند کو زکریا بن یحیی کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے ۔
نیز ابن جوزی نے اس کو «الموضوعات« میں بیان کیا ہے جو کہ جعلی روایتوں سے مخصوص ہے ۔
اس نے کتاب «الزیارة« میں کہا ہے : عبداللہ بن حسن بن حسین بن علی بن ابی طالب نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر کی طرف رفت و آمد کرتا ہے ....(٦) ۔ حسن بن حسین بن علی بن ابی طالب ، حسن مثنی سے معروف ہیں ۔
اسی طرح اس نے حدیث غدیر کے صدر و ذیل کی تصحیح کرنے کے بعد کہا ہے : ان باتوں کو بیان کرنے کے بعد میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کے متعلق اپنے کلام کو تفصیل دینے اور اس کے صحیح ہونے کو بیان کرنے کی وجہ یہ تھی کہ میں نے مشاہدہ کیا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس حدیث کے پہلے جزء کی تضعیف کی ہے اور دوسرے جزء کے متعلق گمان کیا ہے کہ یہ باطل ہے اور میری نظر میں یہ مبالغہ اور اس کا احادیث کو ضعیف قرار دینے میں جلدی کرنا ہے (٧) (٨) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.