مختصر جواب:
مفصل جواب:
یقینا امام حسین علیہ السلام اس میدان کے مرد مجاہد تھے ۔ آپ نے قلبی وزبانی امربالمعروف کے علاوہ عمل سے بھی اس کام کو کمال کے آخری درجہ تک پہنچایا اوراس مرحلہ کا آخری مرحلے کو طے کیا اور بہت ہی ہمت وحوصلہ کے ساتھ سب کے سامنے اعلان کیا:
ایھا الناس ! فمن کان منکم یصبر علی حد السیف وطعن الاسنة فلیقم معنا و الا فلینصرف عنا ۔ ائے لوگوں ! تم سے جوشخص بھی تلوار کی دھار کی تیزی اورنیزوں کے زخم کے مقابلے میں صبر کرسکتا ہو وہ یہاں ہمارے ساتھ رہ جائے اور جو برداشت نہیں کر سکتا وہ ہم سے جدا ہوجائے (١) ۔
روایات کے مطابق تلوار سے جنگ کرنا امر بالمعروف ونہی از منکر کے عالی ترین و پر فضیلت ترین مرحلوں میں سے ایک مرحلہ ہے جس کو امام حسین نے انجام دیا ۔
امیرالمومنین امربالمعروف اورنہی از منکر کے تینوں مراحل(قلب،زبان اور عمل) بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وافضل من ذلک کلہ کلمة عدل عند امام جائر۔ لیکن ان سب سے اہم بات وہ ہے جو ستمگر حاکم کے مقابلے میں کہی جائے (٢) ۔
امام حسین نے صرف زبان سے بنی امیہ کی جنایت کو آشکار کیا بلکہ تلوار سے ان کے خلاف جنگ کی اور اپنی آخری سانس تک ان کے مقابلے میں کھڑے رہے اور اپنی اس تحریک کو ""امر بالمعروف ونہی از منکر اور معاشرہ کے امور کی اصلاح سے تعبیر کیا اور اپنی باتوں میں کئی مرتبہ اس بزرگ فریضہ کو یاد کیا اور بہت ہی وضاحت کے ساتھ اپنی تحریک کے اہداف میں سے ایک ہدف اس اہم کو بتایا ۔
اب ہم اس سلسلہ میں آپ کے اور آپ کے اصحاب کے اہم ترین بیانات کو یہاں بیان کریں گے ۔
١۔ امام حسین علیہ السلام نے معاویہ کی ہلاکت سے دوسال پہلے منی کے میدان میں بہت سارے مہاجرین و انصار کے اس زمانے کے معروف معاشرہ اسلامی کو پہچاننے والوں کے درمیان ایک اہم خطاب میں ان کو امر بہ معروف ونہی از منکرمعاشرہ کے امور کی اصلاح جیسے فریضہ میں سہل انگاری کر نے کی وجہ سے مورد ملامت و سرزنش قرار دیااور فرمایا: کیوں خدا وندعالم کی ان باتوں سے جو اس نے یہودی کی مذمت میں فرمایا ہے نصیحت لیتے ہو؟ پھرفرمایا:
لولا ینھاھم الربانیون و الاحبار عن قولھم الاثم و اکلھم السحت"" کیوں علمائے یہود لوگوں کو گناہ کرنے اور حرام کھانے سے منع نہیں کرتے تھے؟(٣) (معاشرہ میں فساد وتباہی کو نہیں روکتے تھے) ۔
پھر امام نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا:
وانما عاب اللہ ذلک علیھم لانھم کانوا یرون من الظلمة الذین بین اظھرھم المنکر والفساد، فلا ینھونھم عن ذلک۔ خدا وند عالم صرف اس وجہ سے ان کے عیب کو پکڑتاہے کہ وہ لوگ خود اپنی آنکھوں سے سمتگروں کی برائی اور فساد کے شاھد تھے لیکن (کوئی عکس العمل ظاہر نہیں کرتے تھے)ان کو منع نہیں کرتے تھے ۔
پھر ان دو امروں کی اہمیت اور عظمت کے متعلق فرماتے ہیں:
اذا ادیت و اقیمت استقامت الفرائض کلھا ھینھا و صعبھا ۔ جب بھی امر بالمعروف و نہی از منکر کا فریضہ صحیح طریقہ سے انجام دیا جائے تو دوسرے فرائض چاہے وہ سخت ہوں یا آسان،انجام دئیے جائیں گے (٤) ۔
امام علیہ السلام کا یہ اہم خطبہ ایسے مشکل اور خراب حالات میں ہمیں بتاتا ہے کہ امام ایسے وقت کے منتظر تھے جب اس الہی فریضہ کو اعلی طریقہ سے جامعہ عمل پہناسکیں۔
جس طرح سے معاویہ کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
ائے معاویہ! خدا کی قسم میں جواس وقت تم سے جنگ نہیں کررہا ہوں تو اللہ سے ڈر رہاہوں کہ کہیں خدا کی بارگاہ میں مقصر تو نہیں ہوں(٥) ۔
یعنی میں کسی ایسے وقت کا منتظر ہوں جب تجھ سے جنگ کروں گا ۔
٢۔ معاویہ کی ہلاکت کے بعد جب والی مدینہ نے امام علیہ السلام کو یزید کی بیعت کے لئے بلایا تو امام نے بہت تعجب کیا اور اس کی سختی سے مذمت کی اور رات کو روضہ نبوی پر جاکر راز ونیاز کی باتیں کیں اور اس خالصانہ دعا میں بارہ گاہ الہی میں فرمایا:
اللھم ھذہ قبر نبیک محمد و انا ابن بنت نبیک و قد حضرنی من الامر ما قد علمت الھم انی احب المعروف و انکر المنکر۔ خداوندا! یہ تیرے نبی محمد کی قبر ہے اور میں تیرے نبی کی بیٹی کا فرزند ہوں جو مشکلات میرے سامنے پیش آئیں اس سے تو باخبر ہے، خدا وندا! میں معروف کو پسند کرتا ہوں اور منکر سے بیزار ہوں(٦) ۔
در واقع امام علیہ السلام نے اپنے قیام کے اصلی مقصد کو اس چھوٹے سے جملہ میں وہ بھی اپنے جد امجد کے مرقد کے نزدیک مقدس جگہ پر بیان فرمایا اور اس جملہ کو تاریخ کے حوالہ کردیا ۔
٣۔شاید امام کے قیام کے اصلی ہدف اور سبب کو امام علیہ السلام کے اس واضح اور سلیس ترین جملہ میں تلاش کیا جاسکتا ہے جس کو آپ نے اپنے بھائی محمد حنفیہ کے وصیت نامہ میں بیان کیا ہے ۔
امام علیہ السلام نے اپنے قیام کے مقصد کوہوی وہوس او رکسب مقام سے دور بتاتے ہوئے فرمایا:
""و انما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی، ارید ان آمر بالمعروف و انھی عن المنکر و اسیر بسیرة جدی و ابی علی بن ابی طالب""۔ میں صرف اپنے دادا کی امت کی اصلاح کی غرض سے قیام کیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ اپنے جد اور والد کی روش کو اختیار کروں(٧) ۔
امام نے اس چھوٹی اور گویا عبارت میں شروع سے ہی اپنے مقدس ہدف کو بیان فرمایا کہ آپ کا ارادہ ملک کو پھیلانا اور مال ودولت حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ آپ کا ہدف اسلامی معاشرہ کی اصلاح اور امربالمعروف ونہی از منکر سے کو معاشرہ میں زندہ کرنا ہے ۔
٤۔ جب کوف میںمسلم بن عقیل(کوفہ میں آپ کے سفیر)کو ابن زیاد کے سپاہیوں نے مکرو حیلہ سے گرفتارکر لیااور ابن زیاد نے اپنی تقریر میں جناب مسلم کو فتنہ وفساد پھیلانے کا الزام لگایا تو جناب مسلم نے اس کے جواب میں فرمایا:
ما لھذا آتیت ولکنکم اظھرتم المنکر و دفنتم المعروف…فاتیناھم لنامرھم بالمعروف و ننھاھہم عن المنکر۔ میں ان چیزوں کے لئے کوفہ نہیں آیا جس کو تو بیان کررہا ہے بلکہ تم نے منکرات اور برائی کو کھلے عام انجام دیتے ہو اور معروف و اچھائی کو دفن کردیاہے …اسی وجہ سے ہم کھڑے ہوگئے تاکہ لوگوں کو معروف کی دعوت دیں اور منکرات سے دور رکھیں(٨) ۔
٥۔ جس وقت امام علیہ السلام حر کی فوج کے روبرو ہوئے اور کوفیوں کی بے وفائی ظاہر ہوگئی اور امام نے دیکھا کہ میری شہادت اب نزدیک آگئی ہے تو اپنے اصحاب کے درمیان کھڑے ہوئے اور اپنی تقریر میں فرمایا:
الا ترون ان الحق لا یعمل بہ و ان الباطل لا یتناھی عنہ لیرغب المؤمن فی لقاء اللہ محقا ۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہاہے اور باطل سے منع نہیں کیا جارہا ہے ایسے حالات میں مومن پر واجب ہے کہ (قیام کرے اور)اپنے پروردگار سے ملاقات(شہادت) کا خواہاں رہے (٩) ۔
امام علیہ السلام کے اس کلام سے استفادہ ہوتا ہے کہ ایسے شرائط میں اپنی جان سے ہاتھ دھو لینے چاہئے، یعنی جس وقت خطرہ دین و مذہب کو چیلنج کررہا ہو تو اس وقت مالی او رجانی نقصان امربالمعروف ونہی از منکر کے لئے مانع نہیں بن سکتے ۔
٦۔ مؤرخین کے بقول جس وقت حر، امام علیہ السلا م کی تحریک کے مانع ہوا تو امام نے اپنے ایک خط میں کوفیوں کو لکھا:
فقد علمتم ان رسول اللہ قد قال فی حیاتہ:من رای سلطانا جائرا مستحلا لحرم اللہ، ناکثا لعھداللہ، مخالفا لسنة رسول اللہ، یعمل فی عباد اللہ بالاثم والعدوان، ثم لم یغیر بفعل ولا قول، کان حقیقاعلی اللہ ان یدخلہ مدخلہ۔ تم لوگ جانتے ہو کہ رسول خدا نے اپنی زندگی میں فرمایا: جو بھی ظالم بادشاہ کو دیکھے کہ وہ حلال خدا کو حرام سمجھ رہا ہے اور خدا کے وعدوں کو توڑ رہاہے، سنت پیغمبر کی مخالفت کررہا ہے اور خدا کے بندوں کے ساتھ ظلم وستم کررہا ہے ، لیکن اس کے عملی و زبانی مقابلے کے لئے کھڑا نہ ہو تو اس کے لئے بہتر ہے کہ خدا اس کو اس ظالم بادشاہ کی جگہ(جہنم)بھیجدے (١٠) ۔
امام علیہ السلام نے اپنی ان باتوں کے ضمن میں تمام لوگوں کے وظایف کو بیان کرتے ہوئے خصوصا کوفہ کے بزرگ جن کا عزم وارادہ امور کی اصلاح اور بنی امیہ کے ستمگر حکمرانوں سے لڑنے کا اعلان کردیا تھا ۔ آپ نے اس جنگ کو ان لوگوں کی حمایت سے مشروط نہیں کیا بلکہ آپ آمادہ ہیں کہ اپنی جان کو اس راہ میں قربان کردیں لہذا میں آج آنحضرت کے مرقد کے سامنے کھڑے ہو کر کہتا ہوں:
""اشھد انک قد اقمت الصلاة واتیت الزکاة وامرت بالمعروف و نھیت عن المنکر""۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز کو قائم کیا اور زکات کو ادا کیا اور امر بالمعروف ونہی از منکر کو انجام دیا (١١) ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ گواہی عدالت اورقاضی کے سامنے نہیں ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ میں اس حقیقت پر یقین رکھتا ہوں کہ آپ کا قیام امربہ معروف و نہی از منکر اور اسلامی معاشرہ کی اصلاح کے لئے قیام تھا (١٢) ۔
ایھا الناس ! فمن کان منکم یصبر علی حد السیف وطعن الاسنة فلیقم معنا و الا فلینصرف عنا ۔ ائے لوگوں ! تم سے جوشخص بھی تلوار کی دھار کی تیزی اورنیزوں کے زخم کے مقابلے میں صبر کرسکتا ہو وہ یہاں ہمارے ساتھ رہ جائے اور جو برداشت نہیں کر سکتا وہ ہم سے جدا ہوجائے (١) ۔
روایات کے مطابق تلوار سے جنگ کرنا امر بالمعروف ونہی از منکر کے عالی ترین و پر فضیلت ترین مرحلوں میں سے ایک مرحلہ ہے جس کو امام حسین نے انجام دیا ۔
امیرالمومنین امربالمعروف اورنہی از منکر کے تینوں مراحل(قلب،زبان اور عمل) بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وافضل من ذلک کلہ کلمة عدل عند امام جائر۔ لیکن ان سب سے اہم بات وہ ہے جو ستمگر حاکم کے مقابلے میں کہی جائے (٢) ۔
امام حسین نے صرف زبان سے بنی امیہ کی جنایت کو آشکار کیا بلکہ تلوار سے ان کے خلاف جنگ کی اور اپنی آخری سانس تک ان کے مقابلے میں کھڑے رہے اور اپنی اس تحریک کو ""امر بالمعروف ونہی از منکر اور معاشرہ کے امور کی اصلاح سے تعبیر کیا اور اپنی باتوں میں کئی مرتبہ اس بزرگ فریضہ کو یاد کیا اور بہت ہی وضاحت کے ساتھ اپنی تحریک کے اہداف میں سے ایک ہدف اس اہم کو بتایا ۔
اب ہم اس سلسلہ میں آپ کے اور آپ کے اصحاب کے اہم ترین بیانات کو یہاں بیان کریں گے ۔
١۔ امام حسین علیہ السلام نے معاویہ کی ہلاکت سے دوسال پہلے منی کے میدان میں بہت سارے مہاجرین و انصار کے اس زمانے کے معروف معاشرہ اسلامی کو پہچاننے والوں کے درمیان ایک اہم خطاب میں ان کو امر بہ معروف ونہی از منکرمعاشرہ کے امور کی اصلاح جیسے فریضہ میں سہل انگاری کر نے کی وجہ سے مورد ملامت و سرزنش قرار دیااور فرمایا: کیوں خدا وندعالم کی ان باتوں سے جو اس نے یہودی کی مذمت میں فرمایا ہے نصیحت لیتے ہو؟ پھرفرمایا:
لولا ینھاھم الربانیون و الاحبار عن قولھم الاثم و اکلھم السحت"" کیوں علمائے یہود لوگوں کو گناہ کرنے اور حرام کھانے سے منع نہیں کرتے تھے؟(٣) (معاشرہ میں فساد وتباہی کو نہیں روکتے تھے) ۔
پھر امام نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا:
وانما عاب اللہ ذلک علیھم لانھم کانوا یرون من الظلمة الذین بین اظھرھم المنکر والفساد، فلا ینھونھم عن ذلک۔ خدا وند عالم صرف اس وجہ سے ان کے عیب کو پکڑتاہے کہ وہ لوگ خود اپنی آنکھوں سے سمتگروں کی برائی اور فساد کے شاھد تھے لیکن (کوئی عکس العمل ظاہر نہیں کرتے تھے)ان کو منع نہیں کرتے تھے ۔
پھر ان دو امروں کی اہمیت اور عظمت کے متعلق فرماتے ہیں:
اذا ادیت و اقیمت استقامت الفرائض کلھا ھینھا و صعبھا ۔ جب بھی امر بالمعروف و نہی از منکر کا فریضہ صحیح طریقہ سے انجام دیا جائے تو دوسرے فرائض چاہے وہ سخت ہوں یا آسان،انجام دئیے جائیں گے (٤) ۔
امام علیہ السلام کا یہ اہم خطبہ ایسے مشکل اور خراب حالات میں ہمیں بتاتا ہے کہ امام ایسے وقت کے منتظر تھے جب اس الہی فریضہ کو اعلی طریقہ سے جامعہ عمل پہناسکیں۔
جس طرح سے معاویہ کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
ائے معاویہ! خدا کی قسم میں جواس وقت تم سے جنگ نہیں کررہا ہوں تو اللہ سے ڈر رہاہوں کہ کہیں خدا کی بارگاہ میں مقصر تو نہیں ہوں(٥) ۔
یعنی میں کسی ایسے وقت کا منتظر ہوں جب تجھ سے جنگ کروں گا ۔
٢۔ معاویہ کی ہلاکت کے بعد جب والی مدینہ نے امام علیہ السلام کو یزید کی بیعت کے لئے بلایا تو امام نے بہت تعجب کیا اور اس کی سختی سے مذمت کی اور رات کو روضہ نبوی پر جاکر راز ونیاز کی باتیں کیں اور اس خالصانہ دعا میں بارہ گاہ الہی میں فرمایا:
اللھم ھذہ قبر نبیک محمد و انا ابن بنت نبیک و قد حضرنی من الامر ما قد علمت الھم انی احب المعروف و انکر المنکر۔ خداوندا! یہ تیرے نبی محمد کی قبر ہے اور میں تیرے نبی کی بیٹی کا فرزند ہوں جو مشکلات میرے سامنے پیش آئیں اس سے تو باخبر ہے، خدا وندا! میں معروف کو پسند کرتا ہوں اور منکر سے بیزار ہوں(٦) ۔
در واقع امام علیہ السلام نے اپنے قیام کے اصلی مقصد کو اس چھوٹے سے جملہ میں وہ بھی اپنے جد امجد کے مرقد کے نزدیک مقدس جگہ پر بیان فرمایا اور اس جملہ کو تاریخ کے حوالہ کردیا ۔
٣۔شاید امام کے قیام کے اصلی ہدف اور سبب کو امام علیہ السلام کے اس واضح اور سلیس ترین جملہ میں تلاش کیا جاسکتا ہے جس کو آپ نے اپنے بھائی محمد حنفیہ کے وصیت نامہ میں بیان کیا ہے ۔
امام علیہ السلام نے اپنے قیام کے مقصد کوہوی وہوس او رکسب مقام سے دور بتاتے ہوئے فرمایا:
""و انما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی، ارید ان آمر بالمعروف و انھی عن المنکر و اسیر بسیرة جدی و ابی علی بن ابی طالب""۔ میں صرف اپنے دادا کی امت کی اصلاح کی غرض سے قیام کیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ اپنے جد اور والد کی روش کو اختیار کروں(٧) ۔
امام نے اس چھوٹی اور گویا عبارت میں شروع سے ہی اپنے مقدس ہدف کو بیان فرمایا کہ آپ کا ارادہ ملک کو پھیلانا اور مال ودولت حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ آپ کا ہدف اسلامی معاشرہ کی اصلاح اور امربالمعروف ونہی از منکر سے کو معاشرہ میں زندہ کرنا ہے ۔
٤۔ جب کوف میںمسلم بن عقیل(کوفہ میں آپ کے سفیر)کو ابن زیاد کے سپاہیوں نے مکرو حیلہ سے گرفتارکر لیااور ابن زیاد نے اپنی تقریر میں جناب مسلم کو فتنہ وفساد پھیلانے کا الزام لگایا تو جناب مسلم نے اس کے جواب میں فرمایا:
ما لھذا آتیت ولکنکم اظھرتم المنکر و دفنتم المعروف…فاتیناھم لنامرھم بالمعروف و ننھاھہم عن المنکر۔ میں ان چیزوں کے لئے کوفہ نہیں آیا جس کو تو بیان کررہا ہے بلکہ تم نے منکرات اور برائی کو کھلے عام انجام دیتے ہو اور معروف و اچھائی کو دفن کردیاہے …اسی وجہ سے ہم کھڑے ہوگئے تاکہ لوگوں کو معروف کی دعوت دیں اور منکرات سے دور رکھیں(٨) ۔
٥۔ جس وقت امام علیہ السلام حر کی فوج کے روبرو ہوئے اور کوفیوں کی بے وفائی ظاہر ہوگئی اور امام نے دیکھا کہ میری شہادت اب نزدیک آگئی ہے تو اپنے اصحاب کے درمیان کھڑے ہوئے اور اپنی تقریر میں فرمایا:
الا ترون ان الحق لا یعمل بہ و ان الباطل لا یتناھی عنہ لیرغب المؤمن فی لقاء اللہ محقا ۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہاہے اور باطل سے منع نہیں کیا جارہا ہے ایسے حالات میں مومن پر واجب ہے کہ (قیام کرے اور)اپنے پروردگار سے ملاقات(شہادت) کا خواہاں رہے (٩) ۔
امام علیہ السلام کے اس کلام سے استفادہ ہوتا ہے کہ ایسے شرائط میں اپنی جان سے ہاتھ دھو لینے چاہئے، یعنی جس وقت خطرہ دین و مذہب کو چیلنج کررہا ہو تو اس وقت مالی او رجانی نقصان امربالمعروف ونہی از منکر کے لئے مانع نہیں بن سکتے ۔
٦۔ مؤرخین کے بقول جس وقت حر، امام علیہ السلا م کی تحریک کے مانع ہوا تو امام نے اپنے ایک خط میں کوفیوں کو لکھا:
فقد علمتم ان رسول اللہ قد قال فی حیاتہ:من رای سلطانا جائرا مستحلا لحرم اللہ، ناکثا لعھداللہ، مخالفا لسنة رسول اللہ، یعمل فی عباد اللہ بالاثم والعدوان، ثم لم یغیر بفعل ولا قول، کان حقیقاعلی اللہ ان یدخلہ مدخلہ۔ تم لوگ جانتے ہو کہ رسول خدا نے اپنی زندگی میں فرمایا: جو بھی ظالم بادشاہ کو دیکھے کہ وہ حلال خدا کو حرام سمجھ رہا ہے اور خدا کے وعدوں کو توڑ رہاہے، سنت پیغمبر کی مخالفت کررہا ہے اور خدا کے بندوں کے ساتھ ظلم وستم کررہا ہے ، لیکن اس کے عملی و زبانی مقابلے کے لئے کھڑا نہ ہو تو اس کے لئے بہتر ہے کہ خدا اس کو اس ظالم بادشاہ کی جگہ(جہنم)بھیجدے (١٠) ۔
امام علیہ السلام نے اپنی ان باتوں کے ضمن میں تمام لوگوں کے وظایف کو بیان کرتے ہوئے خصوصا کوفہ کے بزرگ جن کا عزم وارادہ امور کی اصلاح اور بنی امیہ کے ستمگر حکمرانوں سے لڑنے کا اعلان کردیا تھا ۔ آپ نے اس جنگ کو ان لوگوں کی حمایت سے مشروط نہیں کیا بلکہ آپ آمادہ ہیں کہ اپنی جان کو اس راہ میں قربان کردیں لہذا میں آج آنحضرت کے مرقد کے سامنے کھڑے ہو کر کہتا ہوں:
""اشھد انک قد اقمت الصلاة واتیت الزکاة وامرت بالمعروف و نھیت عن المنکر""۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز کو قائم کیا اور زکات کو ادا کیا اور امر بالمعروف ونہی از منکر کو انجام دیا (١١) ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ گواہی عدالت اورقاضی کے سامنے نہیں ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ میں اس حقیقت پر یقین رکھتا ہوں کہ آپ کا قیام امربہ معروف و نہی از منکر اور اسلامی معاشرہ کی اصلاح کے لئے قیام تھا (١٢) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.