مختصر جواب:
مفصل جواب:
مورخین اور محدثین بیان کرتے ہیں جس وقت یہ آیہ مبارکہ«فی بیوت اذن اللہ ان ترفع و یذکر فیھا اسمہ« (1) پیغمبر اکرم پر نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اس آیت کو مسجد میں تلاوت کیا ، اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا : اے رسول گرامی! اس اہم گھر سے مراد کونسا گھر ہے؟
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: انبیاء کے گھر!
ابوبکر نے حضرت علی و فاطمہ (علیھما السلام) کے گھر کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ کیا یہ گھر انہی گھروں میں سے نہیں ہے؟
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے جواب دیا: ہاں ان میں سے سب سے زیادہ نمایاں یہی گھر ہے (2) ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ ) نو (٩) مہینے تک اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے گھر پر تشریف لاتے تھے، ان کو اور ان کے شوہر نامدار کو سلام کرتے تھے (3) اور اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے«انما یریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا (4) ۔
وہ گھر جو نور الہی کا مرکز ہے اور خدا نے اس کو بلند درجہ عطا فرمایا ہے اس کا بہت زیادہ احترام ہے ۔
جی ہاں ! ایسا گھر جس میں اصحاب کساء رہتے ہوں اور خدا اس گھر کو عظمتوں کے ساتھ یاد کررہا ہو، اس گھر کاتمام دنیا کے مسلمانوں کو احترام کرنا چاہئے، اب دیکھنا یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد مسلمانوں نے اس گھر کا کس حد تک احترام کیا !
اس سلسلہ میں بہت زیادہ روایات خصوصا اہل سنت کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں جو حضرت علی و فاطمہ (علیہما السلام) کے گھر کی بے حرمتی پردلالت کرتی ہیں ۔
ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی (٢٦٠۔٣٦٠) جن کو ذہبی اپنی کتاب میزان الاعتدال میں معتبر سمجھتے ہیں (5) کتاب المعجم الکبیرمیں جو کہ کئی مرتبہ چھپ چکی ہے ابوبکر، اس کے خطبہ اور اس کی وفات کے متعلق لکھتا ہے :
ابوبکر نے مرتے وقت کچھ چیزوں کی تمنا کی اور کہا : اے کاش تین کاموں کو انجام نہ دیتا، تین کاموں کو انجام دیتا اورتین کاموں کے متعلق پیغمبر اکرم (ص) سے سوال کرتا: «اما الثلاث اللائی وددت انی لم افعلھن، فوددت انی لم اکن اکشف بیت فاطمة و ترکتہ، ...
وہ تین کام جن کی میں آرزو کرتا ہوں کہ اے کاش انجام نہ دیتا ان میں سے ایک حضرت فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی ہے کہ اے کا ش میں ان کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اسی حالت پر چھوڑ دیتا (6) ۔
ان تعبیروں سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ عمر کی دھمکی کو عملی جامہ پہنایا گیا اور گھر کو زبردستی(یا آگ لگانے کے ذریعہ)کھولا گیا۔
ابن عبد ربہ اور «عقد الفرید« کا ایک بار پھر جائزہ
ابن عبد ربہ اندلسی ، کتاب العقد الفرید(م ٤٦٣) کا موْلف اپنی کتاب میں عبدالرحمن بن عوف سے نقل کرتا ہے :
جب ابوبکر بیمار تھا تو میں اس کی عیادت کیلئے گیا اس نے کہا : اے کاش کہ تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دئیے ، ان کو انجام نہ دیتاان تین کاموں میں سے ایک کام یہ ہے «وددت انی لم اکشف بیت فاطمة عن شئی وان کانوا اغلقوہ علی الحرب « ۔ اے کاش حضرت فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا اگر چہ انہوں نے جنگ کرنے ہی کے لئے اس دروازہ کوکیوں نہ بند کر رکھا ہو (7) ۔
مسعودی (متوفی ٣٢٥) اپنی کتاب مروج الذہب میں لکھتا ہے : جس وقت ابوبکر احتضار کی حالت میں تھا اس نے یہ کہا :
اے کاش تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دئیے ان کو انجام نہ دیتاان میں سے ایک کام یہ ہے «فوددت انی لم اکن فتشت فاطمة و ذکر فی ذلک کلاما کثیرا « ۔ اے کاش حضرت فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا
ابوعبید، قاسم بن سلام (م٢٢٤)کتاب الاموال جس پر اہل سنت کے فقہاء اعتماد کرتے ہیں،میں لکھتا ہے : عبدالرحمن بن عوف کہتا ہے : جب ابوبکر بیمار تھا تو میں اس کی عیادت کیلئے گیا اس نے بہت سی باتیں کرنے کے بعد کہا : اے کاش کہ تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دئیے ان کو انجام نہ دیتا اور تین کام جو انجام نہیں دئیے ان کو انجام دیتا اسی طرح آرزو کرتا ہوں کہ پیغمبر اکرم سے تین چیزوں کے بارے میں سوال کرتا جن میں سے ایک کو میںانجام دے چکا ہوں اور آرزو کرتا ہوں کہ اے کاش انجام نہ دیتا «وددت انی لم اکشف بیت فاطمة و ترکتہ و ان اغلق علی الحرب « ۔ اے کاش حضرت فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا اگر چہ وہ جنگ ہی کیلئے بند کیاگیا تھا(8). (9).
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: انبیاء کے گھر!
ابوبکر نے حضرت علی و فاطمہ (علیھما السلام) کے گھر کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ کیا یہ گھر انہی گھروں میں سے نہیں ہے؟
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے جواب دیا: ہاں ان میں سے سب سے زیادہ نمایاں یہی گھر ہے (2) ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ ) نو (٩) مہینے تک اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے گھر پر تشریف لاتے تھے، ان کو اور ان کے شوہر نامدار کو سلام کرتے تھے (3) اور اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے«انما یریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا (4) ۔
وہ گھر جو نور الہی کا مرکز ہے اور خدا نے اس کو بلند درجہ عطا فرمایا ہے اس کا بہت زیادہ احترام ہے ۔
جی ہاں ! ایسا گھر جس میں اصحاب کساء رہتے ہوں اور خدا اس گھر کو عظمتوں کے ساتھ یاد کررہا ہو، اس گھر کاتمام دنیا کے مسلمانوں کو احترام کرنا چاہئے، اب دیکھنا یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد مسلمانوں نے اس گھر کا کس حد تک احترام کیا !
اس سلسلہ میں بہت زیادہ روایات خصوصا اہل سنت کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں جو حضرت علی و فاطمہ (علیہما السلام) کے گھر کی بے حرمتی پردلالت کرتی ہیں ۔
ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی (٢٦٠۔٣٦٠) جن کو ذہبی اپنی کتاب میزان الاعتدال میں معتبر سمجھتے ہیں (5) کتاب المعجم الکبیرمیں جو کہ کئی مرتبہ چھپ چکی ہے ابوبکر، اس کے خطبہ اور اس کی وفات کے متعلق لکھتا ہے :
ابوبکر نے مرتے وقت کچھ چیزوں کی تمنا کی اور کہا : اے کاش تین کاموں کو انجام نہ دیتا، تین کاموں کو انجام دیتا اورتین کاموں کے متعلق پیغمبر اکرم (ص) سے سوال کرتا: «اما الثلاث اللائی وددت انی لم افعلھن، فوددت انی لم اکن اکشف بیت فاطمة و ترکتہ، ...
وہ تین کام جن کی میں آرزو کرتا ہوں کہ اے کاش انجام نہ دیتا ان میں سے ایک حضرت فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی ہے کہ اے کا ش میں ان کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اسی حالت پر چھوڑ دیتا (6) ۔
ان تعبیروں سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ عمر کی دھمکی کو عملی جامہ پہنایا گیا اور گھر کو زبردستی(یا آگ لگانے کے ذریعہ)کھولا گیا۔
ابن عبد ربہ اور «عقد الفرید« کا ایک بار پھر جائزہ
ابن عبد ربہ اندلسی ، کتاب العقد الفرید(م ٤٦٣) کا موْلف اپنی کتاب میں عبدالرحمن بن عوف سے نقل کرتا ہے :
جب ابوبکر بیمار تھا تو میں اس کی عیادت کیلئے گیا اس نے کہا : اے کاش کہ تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دئیے ، ان کو انجام نہ دیتاان تین کاموں میں سے ایک کام یہ ہے «وددت انی لم اکشف بیت فاطمة عن شئی وان کانوا اغلقوہ علی الحرب « ۔ اے کاش حضرت فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا اگر چہ انہوں نے جنگ کرنے ہی کے لئے اس دروازہ کوکیوں نہ بند کر رکھا ہو (7) ۔
مسعودی (متوفی ٣٢٥) اپنی کتاب مروج الذہب میں لکھتا ہے : جس وقت ابوبکر احتضار کی حالت میں تھا اس نے یہ کہا :
اے کاش تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دئیے ان کو انجام نہ دیتاان میں سے ایک کام یہ ہے «فوددت انی لم اکن فتشت فاطمة و ذکر فی ذلک کلاما کثیرا « ۔ اے کاش حضرت فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا
ابوعبید، قاسم بن سلام (م٢٢٤)کتاب الاموال جس پر اہل سنت کے فقہاء اعتماد کرتے ہیں،میں لکھتا ہے : عبدالرحمن بن عوف کہتا ہے : جب ابوبکر بیمار تھا تو میں اس کی عیادت کیلئے گیا اس نے بہت سی باتیں کرنے کے بعد کہا : اے کاش کہ تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دئیے ان کو انجام نہ دیتا اور تین کام جو انجام نہیں دئیے ان کو انجام دیتا اسی طرح آرزو کرتا ہوں کہ پیغمبر اکرم سے تین چیزوں کے بارے میں سوال کرتا جن میں سے ایک کو میںانجام دے چکا ہوں اور آرزو کرتا ہوں کہ اے کاش انجام نہ دیتا «وددت انی لم اکشف بیت فاطمة و ترکتہ و ان اغلق علی الحرب « ۔ اے کاش حضرت فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا اگر چہ وہ جنگ ہی کیلئے بند کیاگیا تھا(8). (9).
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.