مختصر جواب:
مفصل جواب:
شبھہ اور اعتراض یہ ہے کہ ہر قوم و ملت سے زیادہ عورتوں کے سلسلہ میں غیرت مند اور حساس تھے ، لہذا کیسے قبول کرلیں کہ عمر بن خطاب ، حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) جیسی خاتون کو طمانچہ مارے اور عرب اپنی اس غیرت کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی عکس العمل ظاہر نہ کریں ۔
اس شبہہ کا جواب ، قرآن کریم ، تاریخ اور روایات کی بنیاد پر دیا جاسکتا ہے :
١۔ قرآن کریم
عورتوں کے سلسلہ میں عربوں کی حساسیت کو قرآن کریم نے اس طرح نقل کیا ہے : «و اذا الموؤدةُ سُئِلت، بأي ذنبٍ قُتلَت« ۔ اور جب زندہ لڑکیوں کودفن کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کس گناہ کے بدلے میں تمہیں قتل کیا گیا ؟(١) ۔
یہ آیت بتارہی ہے کہ قرآن کریم کی صریح آیات کے مطابق عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ دفنا دیتے تھے ۔
محمد بن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے : زمانہ جاہلیت کے عرب اپنی بیٹیوں کو قتل کردیتے تھے اور کتوں کی پرورش کرتے تھے (٢) ۔
ابن کثیر سلفی دمشقی نے لکھا ہے : «الموئودة « سے مراد وہی لڑکیاں ہیں جن کو زندہ دفن کردیا گیا ، کیونکہ یہ لڑکیوں سے نفرت کرتے تھے (٣) ۔
انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہ : قیس بن عاصم ، رسول اللہ (ص) کے پاس آیا اور کہا : یا رسول اللہ ! میں نے زمانہ جاہلیت میں بارہ یا تیرہ لڑکیوں کو زندہ دفن کیا ہے اب میں کیا کروں ؟ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بہت زیادہ ناراض ہوئے اور فرمایا : ان میں سے ہر ایک کیلئے ایک غلام آزاد کرو (٤) ۔
٢۔ عربوں کے اسلام قبول کرنے سے پہلے کی تاریخ
محمد بن جریر طبری نے لکھا ہے : مسلمان ہونے سے پہلے عربوں کی منزل گاہ بغیر فرش کے زمین تھی ، کپڑے نہیں پہنتے تھے اور ان کا دین یہ تھا کہ ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے اور ایک دوسرے پر حملہ کرتے تھے اور اپنی لڑکیوں کو فقر کی وجہ سے زندہ دفن کردیتے تھے (٥) ۔
ابن اعثم کوفی نے کہا ہے : قیس بن عاصم نے عربوں کے درمیان لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کو رائج کیا (٦) ۔
٣۔ عربوی کی اسلام قبول کرنے کے بعد کی تاریخ
جنک اہل ردہ
خلیفہ اول نے خالد بن ولید کو اہل ردہ سے جنگ کرنے کا حکم دیا وہ چار ہزار سے زیادہ فوج کے ساتھ روانہ ہو اور اس جنگ میں مسلمان عورتوں اور بچوں کو اسیر کرلیا،ان کے اموال کو لوٹ لیا تو مسلمانوں نے ابوبکر سے اپنی عورتوں اور بچوں کے متعلق شکایت کی (٧) ۔
فتح افریقہ
خلیفہ سوم کے زمانہ میں عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نے افریقہ پر حملہ کرکے اس کو فتح کیا ، عربوں نے مرکز شہر «سبطہ« (٨) پر حملہ کیا ،ان کے مال کو لوٹ لیا اور ان کی عورتوں اور لڑکیوں کو اسیر کرلیا ، افریقہ کے لوگوں نے عبداللہ کو تین سو قنطار دینے کی درخواست کی اور کہا کہ عربوں نے ہماری ناموس پر رحم نہیں کیا لہذا ان کوواپس ان کے گھروں میں پلٹا دو (٩) ۔
بنی امیہ کی خلافت کا زمانہ
محمد بن سعد نے کتاب طبقات طبری میں لکھا ہے : ایک شخص محمد بن حنفیہ کے پاس آیااور پوچھا آپ کی حالت کیسی ہے ؟
محمد حنفیہ نے کہا : اس امت کے درمیان ہماری مثال ایسی ہے جیسی فرعونیوں کے درمیان بنی اسرائیل کی تھی کہ فرعون ان کے بیٹوں کو قتل کردیتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا تھا ، یقینا یہ گروہ (بنی ا میہ) ہمارے مردوں کو قتل کردیتا ہے اور ہماری عورتوں کو ہماری اجازت کے بغیر اپنی زوجیت میں لے لیتا ہے ، عرب یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو دوسروں پر برتری حاصل ہے (١٠) ۔
٤۔ روایات :
اگر عرب کی غیرت ،عورتوں کو طمانچہ مارنے کو منع کرتی تو پھر عمار یاسر کی والدہ سمیہ کو انہوں صرف طمانچہ ہی نہیں مارے بلکہ ان کو اس قدر اذیت اورشکنجہ کیا کہ ان کی شہادت ہوگئی ۔ ابن حجر عسقلانی نے الاصابة میں لکھا ہے : عمار یاسر کی والدہ سمیہ بنت خباط ساتویں خاتون ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا ،ابوجہل نے ان کو اذیت دی اور ان کے پیٹ کے نیچے اتنے نیزے مارے کہ ان کی شہادت ہوگئی ، اسلام میں سب سے پہلے شہید ہونے والی پہلی خاتون سمیہ ہیں (11) ۔
اہل سنت کے بعض علماء جیسے شمس الدین ذھبی نے تاریخ الاسلام اور محمد بن سعد نے طبقات الکبری میں لکھا ہے : جس وقت عمر کو اپنی بہن کے اسلام قبول کرنے کی خبر ملی تو وہ اپنی بہن کے گھر گیا اور اس کے شوہر کے ساتھ مار پیٹ کرنے لگا، اس کی بہن نے اپنے شوہرکا دفاع کرنے کیلئے مداخلت کی تو عمر نے اس کے چہرہ پر بہت زور سے مارا جس کی وجہ سے خون جاری ہوگیا (12) ۔
احمد بن حنبل نے اپنی مسند میںلکھا ہے : رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بیٹی زینب کاانتقال ہوا تو پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : خداوند عالم اس کو سلف صالح عثمان بن مظعون کے ساتھ محشور کرے ، پیغمبراکرم کا یہ کلام سن کر عورتیں رونے لگیں، عمر نے پیغمبر اکرم (ص) کے سامنے عورتوں کے تازیانے مارنے شروع کردئیے ،جس پر پیغمبر اکرم (ص) شدید ناراض ہوئے ، آنحضرت (ص) نے اس سے تازیانہ لیا اور فرمایا : خاموش ہوجا ،تجھے ان عورتوں سے کیا مطلب ہے ، ان کو رونے دو ، پھر عورتوں سے فرمایا : گریہ کرو (13) ۔
علماء اہل سنت نے عمر کی طرف سے عورتوں کو پہنچنے والی اذیت کے متعلق لکھا ہے : ابوبکر دیکھتا تھا کہ عمر ، بنو مومل اور خاندان عدی بن کعب سے مسلمان ہونے والی کنیزوں کو طمانچے مارتا تھا تاکہ وہ اسلام سے منحرف ہوجائیں اوراپنے اسلام کو چھوڑ دیں (کیونکہ عمر اس وقت تک مشرک تھا) وہ ان کو اس قدر مارتا تھا کہ خود تھک جاتا تھا (14) ۔
سعید بن مسیب نے نقل کیا ہے : ابوبکر کے انتقال کے بعد عایشہ نے گریہ وزاری شروع کیا تو عمر ،عایشہ کے گھر کے پاس آیا اور عورتوں کو گریہ وزاری سے منع کیا ، لیکن عورتوں نے اس کی بات نہیں سنی ،عمر نے ہشام بن ولید کو حکم دیاکہ گھر میں داخل ہو کر ابوبکر کی بہن کو باہر لائو ، عایشہ نے جس وقت عمر کی بات سنی تو کہا : میں اپنے گھر میں تجھ سے زیادہ لائق اور سزاوار ہوں ، عمر نے ہشام سے کہا : میں نے تجھے اجازت دیدی ہے تو گھر میں داخل ہو، پھر ہشام گھر میں داخل ہوا اور ابوبکر کی بہن ام فروہ کو کو باہر لایا ، عمر نے اس کو تازیانہ سے مارا ، ابن حجر نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ، اسی طرح اسحاق بن راھویہ نے اس قصہ کو دوسری طرح نقل کیا ہے اور اس کے آخر میں کہا ہے : عورتوں کو ایک ایک کرکے باہر لاتے تھے اور عمر ان کو تازیانے مارتا تھا (15) ۔
اب جس شخص میں اتنی جسارت ہو کہ پیغمبر اکرم (ص) کے سامنے ان کے ساتھیوں ، ام المومنین عایشہ اور مسلمان عورتوں کو طمانچے مارے ، کیا وہ اس وقت جب حکومت اس کے ہاتھ میں ہو اور اس کے ساتھیوں خالد بن ولید، مغیرہ بن شعبہ، قنفذ العدوی وغیرہ کے ہاتھ میں موٹی اور لمبی چھڑی ہو ، عورتوں اور پیغمبر اکرم کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) کو طمانچہ مارنے سے پرہیز کرے گا ؟
جی ہاں ، عمر بن خطاب کے علاوہ کسی اور شخص میں ایسی جسارت کرنے کی اہمت نہیں تھی ۔ سختی اور غصہ جس کی ذات کا جزء بن گیا ہو اور اس کے وجود میں پوشیدہ ہو وہ مسلمان عورتوں کو مارنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا ،اس کی سختی اورغصہ اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ عبدالرزاق صنعانی نے کتاب المصنف میں لکھا ہے : عمر نے ایک عورت کو احضار کیا اور اس عورت کا خوف و وحشت کی وجہ سے بچہ سقط ہوگیا (16) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.