مختصر جواب:
مفصل جواب:
محمد بن محمد بن حسن معروف بہ خواجہ نصیرالدین طوسی (٥٩٧ تا ٦٧٢ ھ ق) کا شمار چھٹی صدی ہجری میں تاریخ تشیع کے اہم اور بزرگ علماء میں ہوتا ہے ، انہوں نے علمی سلسلہ میں بہت زیادہ خدمتیں انجام دی ہیں ، شہر طوس میں ان کی ولادت ہوئی ،دینی اور دنیوی تعلیمات حاصل کرنے کے بعد نیشاپور گئے اور وہاں پر سطوح عالی کی تعلیمات حاصل کیں، جوانی میں اپنے والد کی وفات اور نیشاپور پر٦١١ ہجری قمری میں مغلوں کے قبضہ کے بعدناصر الدین عبدالرحیم بن ابی منصور (متولی قھستان) کی دعوت پر قھستان کے قلعہ میں چلے گئے ،اس کے بعد قلعہ الموت میں منتقل ہوگئے اور ایران پر مغلوں کے پور ے قبضہ کے بعد ان کو اسیر بنالیا گیا اور بعد میں ہلاکو خان کے وزیر بن گئے ۔ مسلمانوں کے درمیان ان کی زیادہ شہرت ہلاکو خان کی وزرات نیز کتاب »تجرید العقائد » یا »تجرید الاعتقاد» کی تالیف کی وجہ سے ہوئی ، اس کتاب نے شیعہ عقاید کے استدلال میں بہت زیادہ اپنا اثر چھوڑا ، لہذااس کتاب پر شیعہ اور سنی علماء نے بہت زیادہ نقد، تعلیقہ اور شرحیں لکھی ہیں ۔
انہیں مختلف علوم جیسے : فقہ، اصول ، عقاید اسلامی، طبیعیات ، ریاضیات، ھیات ، حدیث وکلام پر بہت زیادہ مہارت حاصل تھی ، علوم اسلامی اور علوم بشری کو مختلف ابعاد میں گسترش دینے کی وجہ سے ان کو »استاد البشر» کے لقب سے نوازا گیا ۔
فقہ، کلام، علوم عقلی و نقلی اور طبیعیات میں ان کی تاثیر اس حد تک ہے کہ مغربی دانشور نے بھی ان کی تعریف کی ہے ان میں سے ایک جرمن کے پروفیسر »بروکلمان» ہیں جس نے ان کو »علم اوائل»(١) کے سرکردہ کہا ہے اور ان کو چھٹی ہجری کے مشہور ترین عالم کے عنوان سے خطاب کیا ہے ۔
خواجہ کو شعری ذوق بھی حاصل تھا ، انہوں نے اپنے دیوان »منازل السالکین» میں بارہ سو اشعار لکھے ہیں ۔
آپ عماد الدین حسن بن علی طبری اور محقق حلی کے ہم عصر تھے ، انہوں نے علمی مدارج طے کرنے میں بزرگ علماء او راساتید سے استفادہ کیا ہے جن کے نام یہ ہیں :
سراج الدین قمری ، قطب الدین سرخی، ابی السعادات اصبھانی ، فرید الدین نیشاپوری ، معین الدین سالم بن بدران مصری، کمال الدین موسی بن یونس بن محمد موصلی شافعی ، محمد بن حمدانی قزوینی، وجیه الدین محمد بن الحسن (جو که ان کے جد اعلی تهے) سید فضل الله راوندی (سید مرتضی علم الهدی کے شاگرد) . نورالدین علی بن محمد شیعی، نصیرالدین ابوطالب عبدالله بن حمزه طوسی، کمال الدین محمد حاسب ، قطب الدین مصری، جعفر بن حسن حلی .
خواجہ نے بہت سے مستعد شاگردوں کی تربیت کی جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں :
1. سید عبدالکریم بن احمد بن طاووس حلی.
2. قطب الدین محمد بن مسعود شیرازی .
3. شهاب الدین ابوبکر کازرونی .
4. ابوالحسن علی بن عمر قزوینی کاتبی .
5. حسن بن یوسف معروف به علامه حلی .
6. حسن بن علی بن داوود حلی .
7. عبدالرزاق ابن فوطی وغیره.
انہوں نے علم کلام ، فقہ، اخلاق، نجوم، حدیث اور تاریخ میں مختلف کتابیں تالیف اور تصنیف کی ہیں جن کے نام یہ ہیں :
1. تجرید الاعقائد (تجرید الکلام یا تجرید الاعتقاد) .
2. بقاء النفس بعد بوار البدن.
3. جواهر الفرائد فی الفقه.
4. الفرائض النصیریه .
5. آداب المتعلمین .
6. رساله فی الامامه .
7. رساله فی العصمه .
8. تلخیص المحصل .
9. الجبر و الاختیار .
10. جوابات الطوسی لصدر الدین قونوی .
11. الفصول النصیریه .
12. قوائد العقائد .
13. اساس الاقتباس (فی المعانی والبیان) .
14. خلافت نامه .
15. اخلاق ناصری .
16. الاربعون حدیثا .
17. تزکیه الارواح عن موانع الافلاح .
اسی طرح مختلف موضوعات پر ان کے تقریبا 180 مقالات هیں .
انہوں نے علوم، اسلامی تعلیمات اور علوم علوی و جعفری کی ترویج میں بہت زیادہ خدمتیں انجام دی ہیں ، آخر کار شہر بغداد میں ان کا انتقال ہوا اور ان کی وصیت کے مطابق ان کو امام موسی بن جعفر (علیہما السلام) کی ملکوتی بارگاہ کے پاس شہر کاظمین میں دفن کیا گیا ۔
انہیں مختلف علوم جیسے : فقہ، اصول ، عقاید اسلامی، طبیعیات ، ریاضیات، ھیات ، حدیث وکلام پر بہت زیادہ مہارت حاصل تھی ، علوم اسلامی اور علوم بشری کو مختلف ابعاد میں گسترش دینے کی وجہ سے ان کو »استاد البشر» کے لقب سے نوازا گیا ۔
فقہ، کلام، علوم عقلی و نقلی اور طبیعیات میں ان کی تاثیر اس حد تک ہے کہ مغربی دانشور نے بھی ان کی تعریف کی ہے ان میں سے ایک جرمن کے پروفیسر »بروکلمان» ہیں جس نے ان کو »علم اوائل»(١) کے سرکردہ کہا ہے اور ان کو چھٹی ہجری کے مشہور ترین عالم کے عنوان سے خطاب کیا ہے ۔
خواجہ کو شعری ذوق بھی حاصل تھا ، انہوں نے اپنے دیوان »منازل السالکین» میں بارہ سو اشعار لکھے ہیں ۔
آپ عماد الدین حسن بن علی طبری اور محقق حلی کے ہم عصر تھے ، انہوں نے علمی مدارج طے کرنے میں بزرگ علماء او راساتید سے استفادہ کیا ہے جن کے نام یہ ہیں :
سراج الدین قمری ، قطب الدین سرخی، ابی السعادات اصبھانی ، فرید الدین نیشاپوری ، معین الدین سالم بن بدران مصری، کمال الدین موسی بن یونس بن محمد موصلی شافعی ، محمد بن حمدانی قزوینی، وجیه الدین محمد بن الحسن (جو که ان کے جد اعلی تهے) سید فضل الله راوندی (سید مرتضی علم الهدی کے شاگرد) . نورالدین علی بن محمد شیعی، نصیرالدین ابوطالب عبدالله بن حمزه طوسی، کمال الدین محمد حاسب ، قطب الدین مصری، جعفر بن حسن حلی .
خواجہ نے بہت سے مستعد شاگردوں کی تربیت کی جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں :
1. سید عبدالکریم بن احمد بن طاووس حلی.
2. قطب الدین محمد بن مسعود شیرازی .
3. شهاب الدین ابوبکر کازرونی .
4. ابوالحسن علی بن عمر قزوینی کاتبی .
5. حسن بن یوسف معروف به علامه حلی .
6. حسن بن علی بن داوود حلی .
7. عبدالرزاق ابن فوطی وغیره.
انہوں نے علم کلام ، فقہ، اخلاق، نجوم، حدیث اور تاریخ میں مختلف کتابیں تالیف اور تصنیف کی ہیں جن کے نام یہ ہیں :
1. تجرید الاعقائد (تجرید الکلام یا تجرید الاعتقاد) .
2. بقاء النفس بعد بوار البدن.
3. جواهر الفرائد فی الفقه.
4. الفرائض النصیریه .
5. آداب المتعلمین .
6. رساله فی الامامه .
7. رساله فی العصمه .
8. تلخیص المحصل .
9. الجبر و الاختیار .
10. جوابات الطوسی لصدر الدین قونوی .
11. الفصول النصیریه .
12. قوائد العقائد .
13. اساس الاقتباس (فی المعانی والبیان) .
14. خلافت نامه .
15. اخلاق ناصری .
16. الاربعون حدیثا .
17. تزکیه الارواح عن موانع الافلاح .
اسی طرح مختلف موضوعات پر ان کے تقریبا 180 مقالات هیں .
انہوں نے علوم، اسلامی تعلیمات اور علوم علوی و جعفری کی ترویج میں بہت زیادہ خدمتیں انجام دی ہیں ، آخر کار شہر بغداد میں ان کا انتقال ہوا اور ان کی وصیت کے مطابق ان کو امام موسی بن جعفر (علیہما السلام) کی ملکوتی بارگاہ کے پاس شہر کاظمین میں دفن کیا گیا ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.