مختصر جواب:
مفصل جواب:
شیخ تقی الدین ابراھیم بن علی بن حسن بن محمد بن صالح بن اسماعیل حارثی کفعمی لویزی جبعی عاملی (٨٢٠تا ٩٠٥ ) کا شمار شیعوں کے تاثیر گزار اور بزرگ علماء میں ہوتا ہے ، نویں صدی ہجری (شاہ اسماعیل صفوی کی حکومت کے دوران) میں طراز اول کے فقیہ ، محدث اور مفسر تھے ۔اس زمانہ میں تمام علمی ابعاد میں (خصوصا معارف تشیع میں) آپ کو بہت زیادہ مہارت حاصل تھی ، اسی وجہ سے ان کو »کثیر التتبع» کے لقب سے نوازا گیا ۔
آپ کی ولادت لبنان کے ایک دیہات جبل عامل میں ہوئی اور وہیں پر اپنے والد (علی بن حسن جن کا شمار لبنان کے بزرگ علماء میں ہوتا تھا) سے تربیت حاصل کی ، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حارثی جبعی کا خاندان بہت ہی خیر و برکت کا خاندان تھا ، اس خاندان نے جہان تشیع اور اسلام کو بہت ہی جلیل القدر علماء اور دانشور عطا کئے جن میں شیخ بہائی (ابراہیم کفعمی کے بھائی کے پوتے) کا نام لیا جاسکتا ہے ، انہوں نے اپنی علمی اورمذہبی ارتقا کے لئے مختلف شہروں جیسے کربلا اور نجف کا سفر کیا ۔
کفعمی کی سب سے اہم خدمتیں توحیدی دعائوں اور اہل بیت (علیہم السلام) کی بلندی کو ایک باب میں تنظیم اورتدوین کرنا ہے جو کہ حقیقت میں دعاء کے متعلق ابن تیمیہ اوراس کے ماننے والوں کے غلط نظریہ کا بہترین جواب ہیں ۔
ان کو شعر و شاعری کا بھی ذوق تھا لہذا انہوں نے اہل بیت (علیہم السلام) کی مدح و ثنا میں بہت زیادہ اشعار کہے ہیں خصوصا حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کے سوگ میں ایک مرثیہ کہا ہے جس کے نو سو بیت ہیں اور ان ا شعار کو امام امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر کہا ہے ۔
ان کے ہم عصر علماء شہید ثانی (متوفی ٩٦٦) ، سید ابومحمد حسن بن علی بن حسن حسینی اور سید علی بن عبدالحسین بن سلطان موسوی تھے ۔ انہوں نے اپنی تعلیمی رشد و نمو کے سلسلہ میں بہترین اساتید سے استفادہ کیا جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں :
١۔ سید حسین بن مساعد حسین حائری ، »تحفة الابرار فی مناقب الائمة الاطھار» کے مولف ۔
٢۔ سید علی بن عبدالحسین بن سلطان موسوی ، کتاب »رفع الملامة عن علی (علیہ السلام) فی ترک الامامة» ۔
کفعمی نے علوم اسلامی کے مختلف موضوعات پر تقریبا ساٹھ کتابیں لکھی ہیں ان میں سے جو کتابیں اس وقت موجود ہیںان کے نام یہ ہیں :
١۔ البلدالامین (البلد الامین والدرع الحصین ) یہ ان کی سب سے اہم کتاب ہے اور اعمال و ذکر کے متعلق دعائوں کی کتابوں کی ائمہ اطہار (علیہم السلام) کی طرف سے سفارش ہوئی ہے ۔
٢۔ جنة الامان الواقیہ و جنة الایمان الباقیہ (روایات میں بیان شدہ دعائیں ) ۔
٣۔ محاسبة النفس (اخلاق کے متعلق) ۔
٤۔ المقام الاسنی فی تفسیر الاسماء الحسنی ۔
٥۔ الحدیقة الناظرة (اشعار سے متعلق) ۔
٦۔ فرج الکرب وفرح القلب (ادب سے متعلق) ۔
٧۔ قراضة النظیر (قرآن کریم کی تفسیر) ۔
٨۔ صفوة الصفات فی شرح دعای سمات ۔
٩۔ الفوائد الشریفة فی شرح الصحیفة ۔
١٠۔ البدیعة (مولا علی (علیہ السلام ) کی مدح وثنا میں شعری مجموعہ ) ۔
١١۔ الرجال ۔
١٢ ۔ راحة الارواح فی ترجمة المصباح (مصباح المتھجد کبیر شیخ طوسی ) ۔
١٣۔ اختصار تفسیر علی بن ابراھیم قمی ۔
١٤۔ اختصار تفسیر جوامع الجامع طبرسی ۔
١٥ ۔ اختصار زبدة البیان شیخ زین الدین بیاضی ۔
١٦ ۔ اختصار علل الشرائع ۔
١٧ ۔ اختصار المجازات النبویة سید رضی ۔
ان کا شیعوں کی علمی اور ثقافتی میراث کو محفوظ اور بہت زیادہ خدمتیں انجام دیتے ہوئے شہر کربلا میں انتقال ہوا اور حضرت سید الشہداء (علیہ السلام) کے جوار میں دفن ہوئے ۔
آپ کی ولادت لبنان کے ایک دیہات جبل عامل میں ہوئی اور وہیں پر اپنے والد (علی بن حسن جن کا شمار لبنان کے بزرگ علماء میں ہوتا تھا) سے تربیت حاصل کی ، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حارثی جبعی کا خاندان بہت ہی خیر و برکت کا خاندان تھا ، اس خاندان نے جہان تشیع اور اسلام کو بہت ہی جلیل القدر علماء اور دانشور عطا کئے جن میں شیخ بہائی (ابراہیم کفعمی کے بھائی کے پوتے) کا نام لیا جاسکتا ہے ، انہوں نے اپنی علمی اورمذہبی ارتقا کے لئے مختلف شہروں جیسے کربلا اور نجف کا سفر کیا ۔
کفعمی کی سب سے اہم خدمتیں توحیدی دعائوں اور اہل بیت (علیہم السلام) کی بلندی کو ایک باب میں تنظیم اورتدوین کرنا ہے جو کہ حقیقت میں دعاء کے متعلق ابن تیمیہ اوراس کے ماننے والوں کے غلط نظریہ کا بہترین جواب ہیں ۔
ان کو شعر و شاعری کا بھی ذوق تھا لہذا انہوں نے اہل بیت (علیہم السلام) کی مدح و ثنا میں بہت زیادہ اشعار کہے ہیں خصوصا حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کے سوگ میں ایک مرثیہ کہا ہے جس کے نو سو بیت ہیں اور ان ا شعار کو امام امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر کہا ہے ۔
ان کے ہم عصر علماء شہید ثانی (متوفی ٩٦٦) ، سید ابومحمد حسن بن علی بن حسن حسینی اور سید علی بن عبدالحسین بن سلطان موسوی تھے ۔ انہوں نے اپنی تعلیمی رشد و نمو کے سلسلہ میں بہترین اساتید سے استفادہ کیا جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں :
١۔ سید حسین بن مساعد حسین حائری ، »تحفة الابرار فی مناقب الائمة الاطھار» کے مولف ۔
٢۔ سید علی بن عبدالحسین بن سلطان موسوی ، کتاب »رفع الملامة عن علی (علیہ السلام) فی ترک الامامة» ۔
کفعمی نے علوم اسلامی کے مختلف موضوعات پر تقریبا ساٹھ کتابیں لکھی ہیں ان میں سے جو کتابیں اس وقت موجود ہیںان کے نام یہ ہیں :
١۔ البلدالامین (البلد الامین والدرع الحصین ) یہ ان کی سب سے اہم کتاب ہے اور اعمال و ذکر کے متعلق دعائوں کی کتابوں کی ائمہ اطہار (علیہم السلام) کی طرف سے سفارش ہوئی ہے ۔
٢۔ جنة الامان الواقیہ و جنة الایمان الباقیہ (روایات میں بیان شدہ دعائیں ) ۔
٣۔ محاسبة النفس (اخلاق کے متعلق) ۔
٤۔ المقام الاسنی فی تفسیر الاسماء الحسنی ۔
٥۔ الحدیقة الناظرة (اشعار سے متعلق) ۔
٦۔ فرج الکرب وفرح القلب (ادب سے متعلق) ۔
٧۔ قراضة النظیر (قرآن کریم کی تفسیر) ۔
٨۔ صفوة الصفات فی شرح دعای سمات ۔
٩۔ الفوائد الشریفة فی شرح الصحیفة ۔
١٠۔ البدیعة (مولا علی (علیہ السلام ) کی مدح وثنا میں شعری مجموعہ ) ۔
١١۔ الرجال ۔
١٢ ۔ راحة الارواح فی ترجمة المصباح (مصباح المتھجد کبیر شیخ طوسی ) ۔
١٣۔ اختصار تفسیر علی بن ابراھیم قمی ۔
١٤۔ اختصار تفسیر جوامع الجامع طبرسی ۔
١٥ ۔ اختصار زبدة البیان شیخ زین الدین بیاضی ۔
١٦ ۔ اختصار علل الشرائع ۔
١٧ ۔ اختصار المجازات النبویة سید رضی ۔
ان کا شیعوں کی علمی اور ثقافتی میراث کو محفوظ اور بہت زیادہ خدمتیں انجام دیتے ہوئے شہر کربلا میں انتقال ہوا اور حضرت سید الشہداء (علیہ السلام) کے جوار میں دفن ہوئے ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.