مختصر جواب:
مفصل جواب:
مسافر کے لئے سفر میں روزہ نہ رکھنے پر تمام اسلامی فقہاء کا اتفاق ہے اور صرف اختلاف یہ ہے کہ سفر میں کیا افطار ایک ضروری امر ہے یا مسافر کے لئے ایک سہولت اور رخصت ہے ۔
فقہائے امامیہ اہل بت (علیہم السلام) کی پیروی کرتے ہوئے نیز فقہائے ظاہریہ اور اصحاب کا ایک گروہ سفر میں افطار کرنے کو ضروری اور سفر میں روزہ رکھنے کو حرام جانتے ہیں (١) ۔
جبکہ چاروں مذاہب کا عقیدہ ہے کہ سفر میں افطار کرنا اختیاری ہے لیکن بعض مذاہب روزہ رکھنے کے بجائے افطار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور بعض دوسرے مذاہب اس کے برعکس کرتے ہیں ۔ شافعی کہتے ہیں : افطار کرنا روزہ رکھنے سے بہتر ہے ، جبکہ مالک کہتے ہیں : سفر میں روزہ رکھنا افطار کرنے سے بہتر ہے (٢) ۔
جوچیز سب سے اہم وہ یہ ہے کہ کتاب اور سنت کے اعتبار سے ان تمام باتوں کی دلیلوں کی تحقیق کی جائے ۔
سفر میں روزہ رکھنے کے متعلق قرآن کریم کانظریہ :
قال اللہ الحکیم : » یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ کَما کُتِبَ عَلَی الَّذینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (183)
أَیَّاماً مَعْدُوداتٍ فَمَنْ کانَ مِنْکُمْ مَریضاً أَوْ عَلی سَفَرٍ فَعِدَّة مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ وَ عَلَی الَّذینَ یُطیقُونَہُ فِدْیَة طَعامُ مِسْکینٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْراً فَہُوَ خَیْر لَہُ وَ أَنْ تَصُومُوا خَیْر لَکُمْ ِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (184).» (٣) ۔
صاحبانِ ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوںپر لکھے گئے تھے شایدتم اسی طرح متقی بن جاؤ
(184) یہ روزے صرف چند دن کے ہیںلیکن اس کے بعد بھی کوئی شخص مریض ہے یا سفر میں ہے تو اتنے ہی دن دوسرے زمانے میں رکھ لے گا اور جو لوگ صرف شدت اور مشقت کی بناء پر روزے نہیں رکھ سکتے ہیں وہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں اور اگراپنی طرف سے زیادہ نیکی کردیں تو اور بہتر ہے--- لیکن روزہ رکھنا بہرحال تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم صاحبانِ علم و خبر ہو ۔
پہلی آیت روزہ کو ایک فریضہ اور واجب امر جانتی ہے اور اس کو جملہ »کتب علیکم» سے تعبیر کیا ہے یعنی یہ بات تمہارے لئے لکھدی گئی ہے اور لکھا جانا اس بات کے لئے کنایہ ہے کہ یہ عمل سب کے لئے لازمی اور ضروری ہے ، لیکن دوسری آیت میں تین گروہوں کو الگ کیا ہے :
١۔ مریض : »ومن کان منکم مریضا » ۔
٢۔ مسافر : »او علی سفر » ۔
٣۔ جن لوگوں کے لئے روزہ رکھنا بہت سخت اور دشوار ہے »و علی الذین یطیقونہ » ۔
دوسری آیت میں حاضر اور غیر بیمار کے لئے روزہ کا وقت ماہ رمضان بیان ہوا ہے جس کو جملہ »ایام معدودات» سے تعبیر کیا گیا ہے ، لیکن دوسرے دو گروہ کا روزہ رکھنا یعنی مریض اور مسافر کے روزوں کو »دوسرے ایام » میں بیان کیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے : »فعدة من ایام اخر» ۔ یعنی ماہ رمضان کے علاوہ دوسرے ایام میں روزہ رکھیں ۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ عام لوگوں پر ماہ رمضان میں روزہ رکھنا واجب ہے لیکن گروہ معذور یعنی مریض اور مسافر کے لئے روزہ رکھنے کا وقت دوسرے ایام ہیں ، ان دو واضح تعبیروں کے ہوتے ہوئے کس طرح یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ روزہ رکھنا مسافر کے لئے ایک رخصت ہے اوریہ بھی دوسرے افراد کی طرح روزہ رکھ سکتے ہیں جبکہ آیت روزہ کے لئے دو زمانوں کو بیان کررہی ہے : ایک زمانہ عام لوگوں کے لئے اور دوسرا زمانہ مریض اور مسافر کے لئے ۔
بہت سے اہل سنت مفسرین جس وقت آیت کے ظہور کو افطار کرنے میں ضروری دیکھتے ہیں او راحساس کرتے ہیں کہ قرآن کریم نے روزہ رکھنے کے زمانہ کو عام لوگوں کے لئے ماہ رمضان اور دوسرے دو گروہ کے لئے ماہ رمضان کے علاوہ دوسرے ایام » ایام اخر» بیان کئے ہیں تو مجبور ا آیت میں ایک جملہ کو مقدر لیتے ہیں تاکہ اس طرح سے اپنے مذہب کے امام کے فتوی کی توجیہ کرسکیں ،ان کے عقیدہ کے مطابق جملہ » فعدة من ایام اخر» سے پہلے جملہ »ان افطر» مقدر ہے گویا آیت اس طرح ہے : »فمن کان منکم مریضا او علی سفر (فافطر) فعدة من ایام اخر» ۔ اگر مریض اورمسافر نے افطار کرلیا تو وہ دوسرے ایام میں روزہ رکھ سکتے ہیں ورنہ روزہ رکھنا ان دونوں گروہ کا عام لوگوں کے برابر ہے ۔
اس بات سے ظاہر ہورہا ہے کہ اس طرح کی تفسیر ، تفسیر بالرائے ہے جو اپنے مذاہب اربعہ کے اعتبار کو محفوظ رکھنے کے لئے انجام دی گئی ہے ۔
آیت کے ذیل کی تفسیر :
شاید بعض لوگ اس آیت » و ان تصوموا خیر لکم » (ہم نے معذور افراد کو افطار کی اجازت دیدی ہے لیکن اگر اس کے بعد بھی وہ روزہ رکھیں تو روزہ ان کے لئے (افطار سے) بہتر ہے )کے ذریعہ سفر میں روزہ کے جائز ہونے پر دلیل پیش کریں ۔
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں : مذکورہ خطاب مسافر سے مخصوص نہیں ہے بلکہ چاروں گروہ کو شامل ہے :
١۔ عام لوگ جنہیں کوئی عذر نہیں ہے ۔
٢ و ٣ : مریض اور مسافر ۔
٤۔ جن لوگوں کے لئے روزہ رکھنا سخت اور دشوار ہے ۔
آیت سب سے مخاطب ہے اورکہتی ہے : تم سب کے لئے اس طرح روزہ رکھنا بہتر ہے جس طرح آیت میں بیان ہوا ہے یعنی عام لوگوں پر ماہ رمضان میں روزہ رکھنا واجب ہے ، مریض اور مسافر پر دوسرے ایام میںاس وقت روزہ رکھنا واجب ہے جب ان کا عذر ختم ہوجائے اور بوڑھے لوگوں کے لئے جوماہ رمضان میں روزہ نہیں رکھ سکتے ان پر کفارہ واجب ہے ۔
اس بناء پر خطاب صرف مسافر سے( جو کہ درمیان میں وارد ہوا ہے ) مخصوص نہیں ہے بلکہ پہلی آیت کا آغاز دوسری آیت کے آخر سے مربوط ہے اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ روزہ عذاب اور آتش الہی کے لئے ڈھال ہے اور روزہ رکھنے سے آگ کے شعلہ خاموش ہوجاتے ہیں لیکن ہر شخص کو چاہئے کہ ان ایام میں روزے رکھے جو اس کے لئے تشریع ہوئے ہیں ۔
یہاں تک افطار کے ضروری ہونے پر آیت کی دلالت سے باخبر ہوئے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ سفر میںروزہ رکھنے کے متعلق پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی روایات میں کیا حکم بیان ہوا ہے ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی روایات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) سفر میں روزہ رکھنے کو گناہ بتاتی ہیں اور روزہ رکھنے والوں کو گنہگار شمار کرتی ہیں :
١۔ مسلم نے اپنی صحیح میں جابر بن عبداللہ سے نقل کیا ہے : رسول خدا ہجرت کے آٹھویںسال ماہ رمضان میں مکہ کے لئے روانہ ہوئے اور جب »کراع الغمیم» پر پہنچے تو پانی کا برتن طلب کیا اور پھر سب لوگوں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اس برتن سے پانی پیا ۔ یعنی اے لوگو ! سب کے سب اپنے روزہ کو توڑ دو ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو خبر دی گئی کہ بعض لوگ جو آپ کے ساتھ سفر میں ہیں انہوں نے اپنے روزہ کو نہیں توڑا ۔ آنحضرت (ص) نے فرمایا : »اولئک العصاة ، اولئک العصاة » وہ گنہگار ہیں وہ گنہگار ہیں (٤) ۔
٢۔ ابن ماجمہ قزوینی نے اپنی سنن میں عبدالرحمن بن عوف سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : صائم رمضان فی السفر کالمفطر فی الحضر » ۔ سفر میں روزہ رکھنے والاحضر میں روزہ کھانے والے کی طرح ہے (٥) ۔
٣۔ بخاری نے اپنی صحیح میں جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے : پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے ایک سفر میں ایک ایسا گروہ کو دیکھا جو ایک شخص کے پاس اس پر سایہ بنائے ہوئے کھڑے ہوئے تھے ۔
پوچھا یہ شخص کون ہے ؟
کہا : روزہ دار ہے ۔
فرمایا : »لیس من البر الصوم فی السفر » سفر میں روزہ رکھنا اچھا کم نہیں ہے (٦) ۔
قرآن کریم میں لفظ »بر» ،لفظ »اثم» کے مقابلہ میں بیان ہوا ہے جیسا کہ فرماتا ہے :
وَ تَعاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوی وَ لا تَعاوَنُوا عَلَی الِْثْمِ وَ الْعُدْوانِ.(٧) ۔
نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور تعدّی پر آپس میں تعاون نہ کرنا ۔
اس بناء بر »بر » اور »اثم» کے تقابل کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر سفر میں روزہ رکھنا اچھا کام نہیں ہے تو یقینا یہ خطا اور گناہ ہوگا ۔
سفر میں روزہ کے واجب نہ ہونے کے متعلق ائمہ اہل بیت (علیہم السلام) کی بہت زیادہ روایات دلالت کرتی ہیں ، تفصیل جاننے کے لئے»وسائل الشیعہ ، جلد ٧ پر مراجعہ فرمائیں (٨) ۔
فقہائے امامیہ اہل بت (علیہم السلام) کی پیروی کرتے ہوئے نیز فقہائے ظاہریہ اور اصحاب کا ایک گروہ سفر میں افطار کرنے کو ضروری اور سفر میں روزہ رکھنے کو حرام جانتے ہیں (١) ۔
جبکہ چاروں مذاہب کا عقیدہ ہے کہ سفر میں افطار کرنا اختیاری ہے لیکن بعض مذاہب روزہ رکھنے کے بجائے افطار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور بعض دوسرے مذاہب اس کے برعکس کرتے ہیں ۔ شافعی کہتے ہیں : افطار کرنا روزہ رکھنے سے بہتر ہے ، جبکہ مالک کہتے ہیں : سفر میں روزہ رکھنا افطار کرنے سے بہتر ہے (٢) ۔
جوچیز سب سے اہم وہ یہ ہے کہ کتاب اور سنت کے اعتبار سے ان تمام باتوں کی دلیلوں کی تحقیق کی جائے ۔
سفر میں روزہ رکھنے کے متعلق قرآن کریم کانظریہ :
قال اللہ الحکیم : » یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ کَما کُتِبَ عَلَی الَّذینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (183)
أَیَّاماً مَعْدُوداتٍ فَمَنْ کانَ مِنْکُمْ مَریضاً أَوْ عَلی سَفَرٍ فَعِدَّة مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ وَ عَلَی الَّذینَ یُطیقُونَہُ فِدْیَة طَعامُ مِسْکینٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْراً فَہُوَ خَیْر لَہُ وَ أَنْ تَصُومُوا خَیْر لَکُمْ ِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (184).» (٣) ۔
صاحبانِ ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوںپر لکھے گئے تھے شایدتم اسی طرح متقی بن جاؤ
(184) یہ روزے صرف چند دن کے ہیںلیکن اس کے بعد بھی کوئی شخص مریض ہے یا سفر میں ہے تو اتنے ہی دن دوسرے زمانے میں رکھ لے گا اور جو لوگ صرف شدت اور مشقت کی بناء پر روزے نہیں رکھ سکتے ہیں وہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں اور اگراپنی طرف سے زیادہ نیکی کردیں تو اور بہتر ہے--- لیکن روزہ رکھنا بہرحال تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم صاحبانِ علم و خبر ہو ۔
پہلی آیت روزہ کو ایک فریضہ اور واجب امر جانتی ہے اور اس کو جملہ »کتب علیکم» سے تعبیر کیا ہے یعنی یہ بات تمہارے لئے لکھدی گئی ہے اور لکھا جانا اس بات کے لئے کنایہ ہے کہ یہ عمل سب کے لئے لازمی اور ضروری ہے ، لیکن دوسری آیت میں تین گروہوں کو الگ کیا ہے :
١۔ مریض : »ومن کان منکم مریضا » ۔
٢۔ مسافر : »او علی سفر » ۔
٣۔ جن لوگوں کے لئے روزہ رکھنا بہت سخت اور دشوار ہے »و علی الذین یطیقونہ » ۔
دوسری آیت میں حاضر اور غیر بیمار کے لئے روزہ کا وقت ماہ رمضان بیان ہوا ہے جس کو جملہ »ایام معدودات» سے تعبیر کیا گیا ہے ، لیکن دوسرے دو گروہ کا روزہ رکھنا یعنی مریض اور مسافر کے روزوں کو »دوسرے ایام » میں بیان کیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے : »فعدة من ایام اخر» ۔ یعنی ماہ رمضان کے علاوہ دوسرے ایام میں روزہ رکھیں ۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ عام لوگوں پر ماہ رمضان میں روزہ رکھنا واجب ہے لیکن گروہ معذور یعنی مریض اور مسافر کے لئے روزہ رکھنے کا وقت دوسرے ایام ہیں ، ان دو واضح تعبیروں کے ہوتے ہوئے کس طرح یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ روزہ رکھنا مسافر کے لئے ایک رخصت ہے اوریہ بھی دوسرے افراد کی طرح روزہ رکھ سکتے ہیں جبکہ آیت روزہ کے لئے دو زمانوں کو بیان کررہی ہے : ایک زمانہ عام لوگوں کے لئے اور دوسرا زمانہ مریض اور مسافر کے لئے ۔
بہت سے اہل سنت مفسرین جس وقت آیت کے ظہور کو افطار کرنے میں ضروری دیکھتے ہیں او راحساس کرتے ہیں کہ قرآن کریم نے روزہ رکھنے کے زمانہ کو عام لوگوں کے لئے ماہ رمضان اور دوسرے دو گروہ کے لئے ماہ رمضان کے علاوہ دوسرے ایام » ایام اخر» بیان کئے ہیں تو مجبور ا آیت میں ایک جملہ کو مقدر لیتے ہیں تاکہ اس طرح سے اپنے مذہب کے امام کے فتوی کی توجیہ کرسکیں ،ان کے عقیدہ کے مطابق جملہ » فعدة من ایام اخر» سے پہلے جملہ »ان افطر» مقدر ہے گویا آیت اس طرح ہے : »فمن کان منکم مریضا او علی سفر (فافطر) فعدة من ایام اخر» ۔ اگر مریض اورمسافر نے افطار کرلیا تو وہ دوسرے ایام میں روزہ رکھ سکتے ہیں ورنہ روزہ رکھنا ان دونوں گروہ کا عام لوگوں کے برابر ہے ۔
اس بات سے ظاہر ہورہا ہے کہ اس طرح کی تفسیر ، تفسیر بالرائے ہے جو اپنے مذاہب اربعہ کے اعتبار کو محفوظ رکھنے کے لئے انجام دی گئی ہے ۔
آیت کے ذیل کی تفسیر :
شاید بعض لوگ اس آیت » و ان تصوموا خیر لکم » (ہم نے معذور افراد کو افطار کی اجازت دیدی ہے لیکن اگر اس کے بعد بھی وہ روزہ رکھیں تو روزہ ان کے لئے (افطار سے) بہتر ہے )کے ذریعہ سفر میں روزہ کے جائز ہونے پر دلیل پیش کریں ۔
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں : مذکورہ خطاب مسافر سے مخصوص نہیں ہے بلکہ چاروں گروہ کو شامل ہے :
١۔ عام لوگ جنہیں کوئی عذر نہیں ہے ۔
٢ و ٣ : مریض اور مسافر ۔
٤۔ جن لوگوں کے لئے روزہ رکھنا سخت اور دشوار ہے ۔
آیت سب سے مخاطب ہے اورکہتی ہے : تم سب کے لئے اس طرح روزہ رکھنا بہتر ہے جس طرح آیت میں بیان ہوا ہے یعنی عام لوگوں پر ماہ رمضان میں روزہ رکھنا واجب ہے ، مریض اور مسافر پر دوسرے ایام میںاس وقت روزہ رکھنا واجب ہے جب ان کا عذر ختم ہوجائے اور بوڑھے لوگوں کے لئے جوماہ رمضان میں روزہ نہیں رکھ سکتے ان پر کفارہ واجب ہے ۔
اس بناء پر خطاب صرف مسافر سے( جو کہ درمیان میں وارد ہوا ہے ) مخصوص نہیں ہے بلکہ پہلی آیت کا آغاز دوسری آیت کے آخر سے مربوط ہے اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ روزہ عذاب اور آتش الہی کے لئے ڈھال ہے اور روزہ رکھنے سے آگ کے شعلہ خاموش ہوجاتے ہیں لیکن ہر شخص کو چاہئے کہ ان ایام میں روزے رکھے جو اس کے لئے تشریع ہوئے ہیں ۔
یہاں تک افطار کے ضروری ہونے پر آیت کی دلالت سے باخبر ہوئے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ سفر میںروزہ رکھنے کے متعلق پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی روایات میں کیا حکم بیان ہوا ہے ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی روایات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) سفر میں روزہ رکھنے کو گناہ بتاتی ہیں اور روزہ رکھنے والوں کو گنہگار شمار کرتی ہیں :
١۔ مسلم نے اپنی صحیح میں جابر بن عبداللہ سے نقل کیا ہے : رسول خدا ہجرت کے آٹھویںسال ماہ رمضان میں مکہ کے لئے روانہ ہوئے اور جب »کراع الغمیم» پر پہنچے تو پانی کا برتن طلب کیا اور پھر سب لوگوں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اس برتن سے پانی پیا ۔ یعنی اے لوگو ! سب کے سب اپنے روزہ کو توڑ دو ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو خبر دی گئی کہ بعض لوگ جو آپ کے ساتھ سفر میں ہیں انہوں نے اپنے روزہ کو نہیں توڑا ۔ آنحضرت (ص) نے فرمایا : »اولئک العصاة ، اولئک العصاة » وہ گنہگار ہیں وہ گنہگار ہیں (٤) ۔
٢۔ ابن ماجمہ قزوینی نے اپنی سنن میں عبدالرحمن بن عوف سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : صائم رمضان فی السفر کالمفطر فی الحضر » ۔ سفر میں روزہ رکھنے والاحضر میں روزہ کھانے والے کی طرح ہے (٥) ۔
٣۔ بخاری نے اپنی صحیح میں جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے : پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے ایک سفر میں ایک ایسا گروہ کو دیکھا جو ایک شخص کے پاس اس پر سایہ بنائے ہوئے کھڑے ہوئے تھے ۔
پوچھا یہ شخص کون ہے ؟
کہا : روزہ دار ہے ۔
فرمایا : »لیس من البر الصوم فی السفر » سفر میں روزہ رکھنا اچھا کم نہیں ہے (٦) ۔
قرآن کریم میں لفظ »بر» ،لفظ »اثم» کے مقابلہ میں بیان ہوا ہے جیسا کہ فرماتا ہے :
وَ تَعاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوی وَ لا تَعاوَنُوا عَلَی الِْثْمِ وَ الْعُدْوانِ.(٧) ۔
نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور تعدّی پر آپس میں تعاون نہ کرنا ۔
اس بناء بر »بر » اور »اثم» کے تقابل کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر سفر میں روزہ رکھنا اچھا کام نہیں ہے تو یقینا یہ خطا اور گناہ ہوگا ۔
سفر میں روزہ کے واجب نہ ہونے کے متعلق ائمہ اہل بیت (علیہم السلام) کی بہت زیادہ روایات دلالت کرتی ہیں ، تفصیل جاننے کے لئے»وسائل الشیعہ ، جلد ٧ پر مراجعہ فرمائیں (٨) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.