مختصر جواب:
مفصل جواب:
غیراسلامی عقاید کا ہجوم اور ان کا علمی میدانوں میں داخل ہونا نیز ہندوستان، یونان او ایران سے مختلف قسم کے فلسفوں کے داخل ہونے کی وجہ سے احمد بن حنبل جیسے افراد ، سلفی گری اور سلف کی فکروں کو زندہ کرنے اور عقلی مسائل کو ختم کرنے کی فکر میں پڑ گئے ۔ عقلائی اور اعتقادی مسائل میں افراط سے فرار اور تفر یط میں داخل ہوجانا ایسا مسئلہ ہے جس میں ہمیشہ انسان مبتلا رہتے ہیں ، احمد بن حنبل اور اس کی پیروی کرنے والوں کی یہ تفریط گری قابل قبول نہیں ہے کیونکہ :
١۔ مسلمانوں کے فکری انحرافات اور دوسرے مذاہب کے عقاید کے نفوذ کو روکنے کے لئے عقل کی چھٹی اور دوسروں کی فکر کی طرف رجوع کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ اعتقادی مسائل کے لئے کلامی فلسفہ اور بنیادوں کو تشکیل دینا چاہئے اور صحیح عقلانیت کو علمی معاشرہ میں پیش کریں تاکہ غیروں کی تبلیغات کے حملوں کے سامنے اپنے قوی عقلی استدلال اور کلامی مبانی کی تقویت کرسکیں اور صحیح عقاید کو (جن کے اوپر آیات اور روایات بھی تصریح کرتے ہیں )معاشرہ کے سامنے پیش کریں کیونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم اور پیغمبر اکرم (ص) عقل بالفعل ہیں او رکبھی بھی انسانی عقل (جو کہ نور ہدایت ہے) کے خلاف کوئی بات نہیں کہتے ، اب اگر عقل سلیم اور بدیہی کوئی حکم کرتی ہے تو شریعت کی نظر بھی یہی ہے ۔ اس لئے کہ خود قرآن کریم نے بار بار مختلف مسائل میں غور وفکر کرنے کی دعوت دی ہے جیسا کہ بعض آیات میں فرمایا ہے : »لعلکم تعقلون » یا »افلا تعقلون» یا »افلا تتفکرون» یا »افلا یتدبرون» ۔
٢۔ مسائل کو سمجھنے میں صرف دوسروں (سلف) کی فکرپر کس طرح اعتماد کیا جاسکتا ہے جبکہ یہ لوگ تمام مسائل کے جوابات دینے پر قادر نہیں تھے ۔
عتبة بن مسلم کہتے ہیں : » میں نے عبداللہ بن عمر کے ساتھ چونتیس مہینہ تک زندگی بسر کی بہت سے مسائل میں جب ان سے سوال کیا جاتا تھا تو وہ کہتے تھے »میں نہیں جانتا » (١) ۔
دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے مختلف بطن ہیں لہذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سلف ، قرآن کریم کی حقیقت کو سمجھ گئے ہیں کیونکہ اگر سمجھ جاتے تو اس کی تفسیر میں اختلاف نہیں کرتے ۔
شعبی کہتے ہیں : ابوبکر سے »کلالہ» کے متعلق سوال کیا گیا ؟ اس نے جواب میں کہا : میں اپنی رائے بتاتا ہوں ، اگر صحیح ہوئی تو خدا کی طرف سے ہے ورنہ میری اور شیطان کی طرف سے ہے (٢) ۔
عمر بن خطاب سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہتے تھے : اگر مجھے »کلالہ» کے معنی معلوم ہوجائیں تو وہ اس سے بہتر ہے کہ میرے لئے شام میں محل اور قصر ہوں (٣) ۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کس طرح آیات اور روایات کو سمجھنے میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتے تھے ،مثلا عمر، ابن زبیر اور بعض دوسرے صحابی نکاح متعہ کی حرمت کے قائل تھے ، جبکہ امام علی (علیہ السلام) ، ابن عباس اور جابر اس کے جائز ہونے کے قائل تھے ۔
عبداللہ بن عمر ،حاکم کے خلاف خروج کرنے کو جائز نہیں جانتے تھے چاہے وہ جابر و ظالم ہی کیوں نہ ہو ، جبکہ امام حسین (علیہ السلام) اس کو واجب سمجھتے تھے ۔
لہذا ابن حزم نے کہا ہے : یہ بات محال ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) صحابہ کی ہر بات کی اتباع کرنے کا حکم دیں کیونکہ بہت سے ایسے مسائل موجود ہیں جن کو بعض صحابہ حلال اور بعض صحابہ حرام جانتے ہیں (٤) (٥) ۔
١۔ مسلمانوں کے فکری انحرافات اور دوسرے مذاہب کے عقاید کے نفوذ کو روکنے کے لئے عقل کی چھٹی اور دوسروں کی فکر کی طرف رجوع کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ اعتقادی مسائل کے لئے کلامی فلسفہ اور بنیادوں کو تشکیل دینا چاہئے اور صحیح عقلانیت کو علمی معاشرہ میں پیش کریں تاکہ غیروں کی تبلیغات کے حملوں کے سامنے اپنے قوی عقلی استدلال اور کلامی مبانی کی تقویت کرسکیں اور صحیح عقاید کو (جن کے اوپر آیات اور روایات بھی تصریح کرتے ہیں )معاشرہ کے سامنے پیش کریں کیونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم اور پیغمبر اکرم (ص) عقل بالفعل ہیں او رکبھی بھی انسانی عقل (جو کہ نور ہدایت ہے) کے خلاف کوئی بات نہیں کہتے ، اب اگر عقل سلیم اور بدیہی کوئی حکم کرتی ہے تو شریعت کی نظر بھی یہی ہے ۔ اس لئے کہ خود قرآن کریم نے بار بار مختلف مسائل میں غور وفکر کرنے کی دعوت دی ہے جیسا کہ بعض آیات میں فرمایا ہے : »لعلکم تعقلون » یا »افلا تعقلون» یا »افلا تتفکرون» یا »افلا یتدبرون» ۔
٢۔ مسائل کو سمجھنے میں صرف دوسروں (سلف) کی فکرپر کس طرح اعتماد کیا جاسکتا ہے جبکہ یہ لوگ تمام مسائل کے جوابات دینے پر قادر نہیں تھے ۔
عتبة بن مسلم کہتے ہیں : » میں نے عبداللہ بن عمر کے ساتھ چونتیس مہینہ تک زندگی بسر کی بہت سے مسائل میں جب ان سے سوال کیا جاتا تھا تو وہ کہتے تھے »میں نہیں جانتا » (١) ۔
دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے مختلف بطن ہیں لہذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سلف ، قرآن کریم کی حقیقت کو سمجھ گئے ہیں کیونکہ اگر سمجھ جاتے تو اس کی تفسیر میں اختلاف نہیں کرتے ۔
شعبی کہتے ہیں : ابوبکر سے »کلالہ» کے متعلق سوال کیا گیا ؟ اس نے جواب میں کہا : میں اپنی رائے بتاتا ہوں ، اگر صحیح ہوئی تو خدا کی طرف سے ہے ورنہ میری اور شیطان کی طرف سے ہے (٢) ۔
عمر بن خطاب سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہتے تھے : اگر مجھے »کلالہ» کے معنی معلوم ہوجائیں تو وہ اس سے بہتر ہے کہ میرے لئے شام میں محل اور قصر ہوں (٣) ۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کس طرح آیات اور روایات کو سمجھنے میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتے تھے ،مثلا عمر، ابن زبیر اور بعض دوسرے صحابی نکاح متعہ کی حرمت کے قائل تھے ، جبکہ امام علی (علیہ السلام) ، ابن عباس اور جابر اس کے جائز ہونے کے قائل تھے ۔
عبداللہ بن عمر ،حاکم کے خلاف خروج کرنے کو جائز نہیں جانتے تھے چاہے وہ جابر و ظالم ہی کیوں نہ ہو ، جبکہ امام حسین (علیہ السلام) اس کو واجب سمجھتے تھے ۔
لہذا ابن حزم نے کہا ہے : یہ بات محال ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) صحابہ کی ہر بات کی اتباع کرنے کا حکم دیں کیونکہ بہت سے ایسے مسائل موجود ہیں جن کو بعض صحابہ حلال اور بعض صحابہ حرام جانتے ہیں (٤) (٥) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.