مختصر جواب:
مفصل جواب:
سلفیوں کا ایک بنیادی نظریہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی تاویل اور اس کے ظاہری الفاظ کی صرف سے منع کیا جائے ۔ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب »درء تعارض العقل و النقل» میں کہا ہے : یہ عمل (تاویل) ایک ایسا جدید امر ہے جس کے اوپر گذشتہ علماء کی لغت کی کتابوں میں کوئی دلیل نہیں ہے اور سلف کے زمانہ میں بھی استعمال نہیں ہوا ہے ۔ لہذا سلفیوں نے اس کو ترک کردیا ہے (١) ۔
اس اسلوب کے جواب میں کہنا چاہئے کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے کسی خاص اسلوب کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مطالب کو سمجھانے میں عرب کی اسی اسلوب اور طریقہ سے استفادہ کیا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ فصیح عرب اپنے محاوروں میں فصاحت، بلاغت او ربدیع کے تمام نکات سے استفادہ کرتے ہیں اور قرآن کریم بھی اس قانون سے مستثنی نہیں ہے اور معجزہ الہی کے عنوان سے ہمارے سامنے آیا ہے ۔ مثلا کلمہ »یداللہ» قدرت الہی کا کنایہ ہے اور عرب اس طرح کے کنایہ کو استعمال کرتے ہیں اور اگر آیتوں کے سمجھنے میں ایسے ایسی تاویل نہ ہو تو ہم تجسیم، تشبیہ سے دچار ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ گمراہی ہے ، اس بناء پر قرآن کریم کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے تاویل اور بعض جگہوں پر ظاہری معنی سے دوسرے معنی میں پلٹنا ضروری ہے (٢) ۔
اس اسلوب کے جواب میں کہنا چاہئے کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے کسی خاص اسلوب کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مطالب کو سمجھانے میں عرب کی اسی اسلوب اور طریقہ سے استفادہ کیا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ فصیح عرب اپنے محاوروں میں فصاحت، بلاغت او ربدیع کے تمام نکات سے استفادہ کرتے ہیں اور قرآن کریم بھی اس قانون سے مستثنی نہیں ہے اور معجزہ الہی کے عنوان سے ہمارے سامنے آیا ہے ۔ مثلا کلمہ »یداللہ» قدرت الہی کا کنایہ ہے اور عرب اس طرح کے کنایہ کو استعمال کرتے ہیں اور اگر آیتوں کے سمجھنے میں ایسے ایسی تاویل نہ ہو تو ہم تجسیم، تشبیہ سے دچار ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ گمراہی ہے ، اس بناء پر قرآن کریم کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے تاویل اور بعض جگہوں پر ظاہری معنی سے دوسرے معنی میں پلٹنا ضروری ہے (٢) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.