مختصر جواب:
مفصل جواب:
فتنہ کا قرانی مفہوم
نفظ فتنہ اور اس کے مشتقات قرآن میں مختلف معانی میں استعمال ہوئے ہیں ۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
۱۔ آزمائش و امتحان ۔۔۔۔۔جیسے یہ آیت ہے
احسب الناس ان یترکوآ ان یقولوا امنا و ہم لا یفتنون . (عنکبوت آیہ ۲)
کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ کہنا کافی ہے کہ وہ ایمان لی آئے ہیں اور ان کا امتحان اور آزمائش نہیں ہوگی؟
۲۔ فریب دہی ۔۔۔۔۔ارشاد الہی ہے:
یا بنی آدم لا یفتننکم الشیطان(اعراف : آیت۲۷)
ای اولاد آدم شیطان تمہیں مکر و فریب نہ د ے
۳۔ بلاء اور عذاب ۔۔۔۔۔فرمان الہی ہے:
و اتقوا فتنة لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصة(انفال آیت ۲۵).
اس عذاب سے ڈرو جو فقط ظالموں ہی کے لیے نہیں ( بلکہ ان کے لیے بھی ہے جنہوں نے خود تو ظلم نہیں کیا لیکن ظلم ہوتا رہااور وہ چب سادھے(رہے)
۴۔ شرک، بت پرستی اور مومنین کی راہ میں رکاوٹ بننا ۔۔۔۔۔۔ارشاد ہوتا ہے:
وا قاتلو ہم حتی لا تکون فتنہ و یکون الدین کلہ للہ (انفال آیت۳۹)
اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ شرک اور بت پرستی بافی نہ رہے اور دین صرف اللہ سے مخصوص ہو جا ئے
۵۔ گمراہ کرنا اور گمراہی ۔۔۔۔۔سورہ مائدہ میں ہے:
و من یرد اللہ فتنتہ فلن تملک لہ من اللہ شیئا (مائدہ آیت ۴۱).
اور جسے خدا گمراہ کرد ے ( اور اس سے توفیق سب کرلے تو تم اس کے مقابلے میں کوئی قدرت نہیں رکھتے
بعید نہیں کہ ان تمام معانی کی ایک ہی بنیاد ہو( جیسے مشترک الفاظ کی یہی صورت ہوتی ہے) اور وہ بنیاد یہ ہے کہ فتنہ کا اصل لغوی معنی ہے کہ سو نے اور چاندی کو آگ کے دباؤ کے نیچے رکھنا تا کہ خالص اور ناخالص حصہ جدا ہو جائے۔ اس لیے جہاں کہیں دباؤ اور سختی ہو یہ لفظ استعمال ہو تا ہے ۔ مثلا امتحان کے مواقع پر شدت اور مشکل در پیش ہو تی ہے جو انسان کے امتحان کا باعث بنتی ہے۔ یہی حال کفر اور مخلوق کی ہدایت کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا ہے ۔ ان میں سے ہر ایک میں ایک قسم کاد باؤ اور شدت پائی جاتی ہے۔
نفظ فتنہ اور اس کے مشتقات قرآن میں مختلف معانی میں استعمال ہوئے ہیں ۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
۱۔ آزمائش و امتحان ۔۔۔۔۔جیسے یہ آیت ہے
احسب الناس ان یترکوآ ان یقولوا امنا و ہم لا یفتنون . (عنکبوت آیہ ۲)
کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ کہنا کافی ہے کہ وہ ایمان لی آئے ہیں اور ان کا امتحان اور آزمائش نہیں ہوگی؟
۲۔ فریب دہی ۔۔۔۔۔ارشاد الہی ہے:
یا بنی آدم لا یفتننکم الشیطان(اعراف : آیت۲۷)
ای اولاد آدم شیطان تمہیں مکر و فریب نہ د ے
۳۔ بلاء اور عذاب ۔۔۔۔۔فرمان الہی ہے:
و اتقوا فتنة لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصة(انفال آیت ۲۵).
اس عذاب سے ڈرو جو فقط ظالموں ہی کے لیے نہیں ( بلکہ ان کے لیے بھی ہے جنہوں نے خود تو ظلم نہیں کیا لیکن ظلم ہوتا رہااور وہ چب سادھے(رہے)
۴۔ شرک، بت پرستی اور مومنین کی راہ میں رکاوٹ بننا ۔۔۔۔۔۔ارشاد ہوتا ہے:
وا قاتلو ہم حتی لا تکون فتنہ و یکون الدین کلہ للہ (انفال آیت۳۹)
اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ شرک اور بت پرستی بافی نہ رہے اور دین صرف اللہ سے مخصوص ہو جا ئے
۵۔ گمراہ کرنا اور گمراہی ۔۔۔۔۔سورہ مائدہ میں ہے:
و من یرد اللہ فتنتہ فلن تملک لہ من اللہ شیئا (مائدہ آیت ۴۱).
اور جسے خدا گمراہ کرد ے ( اور اس سے توفیق سب کرلے تو تم اس کے مقابلے میں کوئی قدرت نہیں رکھتے
بعید نہیں کہ ان تمام معانی کی ایک ہی بنیاد ہو( جیسے مشترک الفاظ کی یہی صورت ہوتی ہے) اور وہ بنیاد یہ ہے کہ فتنہ کا اصل لغوی معنی ہے کہ سو نے اور چاندی کو آگ کے دباؤ کے نیچے رکھنا تا کہ خالص اور ناخالص حصہ جدا ہو جائے۔ اس لیے جہاں کہیں دباؤ اور سختی ہو یہ لفظ استعمال ہو تا ہے ۔ مثلا امتحان کے مواقع پر شدت اور مشکل در پیش ہو تی ہے جو انسان کے امتحان کا باعث بنتی ہے۔ یہی حال کفر اور مخلوق کی ہدایت کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا ہے ۔ ان میں سے ہر ایک میں ایک قسم کاد باؤ اور شدت پائی جاتی ہے۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.