مختصر جواب:
مفصل جواب:
تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیات اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ بیشتر مفسرین کا کہناہے کہ یہ آیات خاص طور پر ان علماء یہود کے بارے میں ہیں جو پیغمبر اسلام کے ظہور سے پیشتر لوگوں کو اپنی کتابوں میں سے آپ کی صفات اور نشانیاں بیان کرتے تھے لیکن ظہور پیغمبر کے بعد جب انہوں نے لوگوں کو آپ کی طرف مائل و راغب ہوتے ہوئے دیکھا تو خود فزوہ ہوگئے کہ اگر انہوں نے اپنی روش کو برقرار رکھا تو ان کے منافع خطرے میں پڑجائیں گے اور وہ تحفے اور دعوتیں جو انہیں مہیا ہیں ختم ہوجائیں گی تو وہ پیغمبر کے وہ اوصاف جو تورات میں نازل ہوچکے تھے چھپانے لگے۔ اس پرمندرجہ بالا آیت نازل ہوئیں اور ان کی سخت مذمت کی گئی۔
یسا سوداہے کواقعا اس طرح سے جو ہدیے وہ حاصل کرتے ہیں اور مال دمنال کماتے وہ جلانے والی آگ ہے جو ان کے اندر داخل ہوتی ہے۔
ضمنا یہ تعبیر آخرت میں تجسم اعمال کے مسئلے کو دوبارہ واضح کرتی ہے اور نشاندہی کرتی ہے کہ وہ مال حرام جو اس طرح ہاتھ آتاہے آگ ہے جو ان کے دلوں میں داخل ہوتی ہے اور قیامت میں و ہ حقیقی شکل میں مجسم ہوگی۔
اس کے بعد ان کی ایک معنوی سزا کو بیان کیا گیاہے جو مادی سزاسے کہیں زیادہ دردناک ہے۔ ارشاد ہوتاہے: خدا قیامت کے دن ان سے بات نہیں کرے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور دردناک عذاب ان کے انتظار میں ہے (وَلاَیُکَلِّمُہُمْ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلاَیُزَکِّیہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ)۔
إِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا اٴَنزَلَ اللهُ مِنْ الْکِتَابِ وَیَشْتَرُونَ بِہِ ثَمَنًا قَلِیلًا اٴُوْلَئِکَ مَا یَاٴْکُلُونَ فِی بُطُونِہِمْ إِلاَّ النَّارَ وَلاَیُکَلِّمُہُمْ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلاَیُزَکِّیہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ
جن لوگوں نے عہد الہی اور اپنی قسموں کو تھوڑے سے فائدے کی خاطر توڑ ڈالا ہے۔ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں قیامت کے دن اللہ ان سے بات کرے گا نہ ان پرنگاہ لطف ڈالے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لئے تو دردناک عذاب ہے۔
اس آیت اور محل بحث آیت سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ یہ بڑی روحانی لذت او رعطائے الہی ہے کہ آخرت میں خدا اہل ایمان سے اپنے لطف و کرم سے بات کرے گا۔ یہ وہ مقام ہے جو اس دنیا میں خدا کے پیغمبروں کوحاصل تھا۔ وہ پروردگار سے ہمکلام ہونے کی لذت سے بہرہ مندتھے۔ اہل ایمان اس جہان میں اس نعمت سے سرفراز ہوں گے۔ علاوہ ازیں خدا ان پر نظر الطاف فرمائے گا اور عفو و رحمت کے پانی سے ان کے گناہ دھو ڈالے گا اور انہیں پاک و پاکیزہ بنادے گا۔ اس سے بڑھ کر کیا نعمت ہوسکتی ہے۔
واضح ہے کہ خدا کی گفتگو یہ مفہوم نہیں کہ خدا زبان رکھتاہے اور اس کا جسم ہے بلکہ وہ اپنی بے پایاں قدرت کے ذریعے فضامیں آواز کی لہریں پیدا کردے گا جو سمجھنے اور سننے کے قابل ہوں گی (جیسے وادی طور میں حضرت موسی سے گفتگو ہوئی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ الہام کے ذریعے ، دل کی زبان سے وہ اپنے مخصوص بندوں سے بات کرے گا۔
بہرحال پروردگار کا یہ عظیم لطف و کرم اور اہم معنوی او روحانی لذت ان پاکیزہ بندوں کے لئے ہے جو زبان حق گو رکھتے ہیں اور لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرتے ہیں۔ اپنے عہد و پیمان کی پاسداری کرتے ہیں اور وہ ان چیزوں کو حقیر مادی فوائد پر قربان نہیں کرتے۔
یہاں ایک سوال سامنے آتاہے کہ قرآن کی بعض آیات سے ظاہر ہوتاہے کہ قیامت کے دن خدا کچھ مجرمین اور کفار سے باتیں کرے گا۔ مثلا
قال احسنوا فیہا و لا تکلمون
دور ہوجاؤ، جہنم کی آگ میں دفع ہوجاؤ اور اب مجھ سے بات نہ کرو۔ (مومنون ۔۱۰۸)
یہ گفتگو خدا ان لوگوں سے کرے گا جو آتش جہنم سے چھٹکارے کی درخواست کریں گے اور کہیں خداوندا! ہمیں اس سے نکال دے اور اگر ہم دوبارہ پلٹ گئے تو ہم ظالم و ستمگار ہیں(جاثیہ۔۳۰،۳۱)۔ اسی طرح مجرمین کے ساتھ بھی خدا کی گفتگو نظر آتی ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ محل بحث آیات میں گفتگو کرنے سے مراد وہ گفتگو جو محبت اور خاص لطف و کرم سے ہوگی۔ اس سے حقارت سے ٹھکرانے اور راندہ درگاہ کرنے اور سزا کے طور پر خطاب مراد نہیں جو بذات خو د ایک دردناک عذاب ہے۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.