مختصر جواب:
مفصل جواب:
اس سوال کاجواب سوره «بقره»کی آیت ۲۵۸ میں ذکر ہوا ہے اور نمرود کی گفتگو اور جناب ابراھیم علیہ السلام کا دلیلوں کے ساتھ اس کے سامنے احتجاج کر نا موجود ہے ، ہوا یہ کہ حضرت ابراہیم (علیه السلام)نے اپنے زمانے کے ایک جابر سے بحث مباحثہ کیا اور طاغوت کی اپنے موقف کے حق میں دلائل پیش کئے وہ اپنی حکومت کی وجہ سے باد ہٴ غرور میں سر مست تھا لہٰذا حضرت ابر ہیم (علیه السلام)سے پوچھنے لگاتیرا خدا کون ہے ۔حضرت ابراہیم نے کہا وہی جو زندہ کرت اہے اور مارتا ہے ۔حقیقت میں آپ نے عظیم شاہکار قدرت کو دلیل کے طور پر پیش کیا ۔مبداء جہان ہستی کے علم وقدرت کی واضح نشانی یہی قانون موت وحیات ہے لیکن اس نے مکر وتزویر کی راہ اختیا ر کی اور مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔ لوگوں کو اور اپنے حمایتیوں کو غافل رکھنے کے لئے وہ تو میں زندہ کرتا اور مارتاہو ںاور موت وحیات کا قانون میرے ہاتھ میں
(انااحی وامیت )
قرآن میں اس کے جملے کے بعد واضح نہیں ہے کہ اس نے اپنے پید ا کئے گئے مغالطے کی تائید کے لئے کس طرح عملی اقدام کیا لیکن احادیث وتواریخ میں آیا ہے کہ اس نے فورا د و قیدیوں کو حاضر کرنے کا حکم دیا ۔قیدی لا ئے گئے تو اس نے فرمان جاری کیا کہ ایک کو آ زاد کردے اور دوسرے کو قتل کردو۔ پھر کہنے لگا : تم نے دیکھاکہ موت وحیا ت کس طرح ہمارے قبضہ میں ہے ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی موت وحیا ت سے متعلق دلیل ہر لحاظ سے قوی تھی لیکن دشمن سادہ لوح لوگوں کوجھل دے سکتا ہے حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام نے دوسرا استد لال پیش فرمایا خدا آفتا ب کو افق مشرق سے نکالتا ہے اگر جہان ہستی کی حکومت تیرے ہاتھ میں ہے توتو اسے مغرب سے نکال کردکھا ۔یہا ں دشمن خاموش ،مبہوت اور عاجز ہو گیا ۔اس میںسکت نہ رہی کہ اس زندہ منطق کے بارے میں کو ئی بات کرسکے ۔ایسے ہٹ دھر م دشمنوں کو لاجواب کرنے کایہ بہتر ین طریقہ ہے۔یہ مسلم ہے کہ موت وحیات کا مسئلہ کئی جہات سے آسمان اور گردش شمس وقمر کی نسبت پرور دگار عالم کے علم وقدرت پر زیادہ گواہی دیتا ہے ۔اسی بناء پر حضرت ابراہیم (علیه السلام) سے پہلے وہی مسئلہ پیش کیا اور یہ فطری امر ہے کہ صساحب فکر اور روشن ضمیر افراد اس مجلس میں ہو ں گے تو وہ اسی دلیل سے مطمئن ہو گئے ہوں گے کیو نکہ ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ ایک قیدی کو آازاد کر نااور دوسرے کو قتل کر دینایہ قطعی اور طبعی موت وحیا ت سے بالکل ربط نہیں رکھتاجو لوگ کم عقل تھے ا ور اس د ور کے ظالم حکمران کے پیدا کردہ مغالطے سے متائثرہوسکتے تھے ان کی فکر راہ حق سے منحرف ہوسکتی تھی لہٰذا آپ نے دوسرااستدلال پیش کیا اور سورج کے طلوع وغروب کا مسئلہ پیش کیا تاکہ حق ہردوطرح کے افراد کے سامنے واضح ہو جائے ۔
قرآن میں اس کے جملے کے بعد واضح نہیں ہے کہ اس نے اپنے پید ا کئے گئے مغالطے کی تائید کے لئے کس طرح عملی اقدام کیا لیکن احادیث وتواریخ میں آیا ہے کہ اس نے فورا د و قیدیوں کو حاضر کرنے کا حکم دیا ۔قیدی لا ئے گئے تو اس نے فرمان جاری کیا کہ ایک کو آ زاد کردے اور دوسرے کو قتل کردو۔ پھر کہنے لگا : تم نے دیکھاکہ موت وحیا ت کس طرح ہمارے قبضہ میں ہے ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی موت وحیا ت سے متعلق دلیل ہر لحاظ سے قوی تھی لیکن دشمن سادہ لوح لوگوں کوجھل دے سکتا ہے حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام نے دوسرا استد لال پیش فرمایا خدا آفتا ب کو افق مشرق سے نکالتا ہے اگر جہان ہستی کی حکومت تیرے ہاتھ میں ہے توتو اسے مغرب سے نکال کردکھا ۔یہا ں دشمن خاموش ،مبہوت اور عاجز ہو گیا ۔اس میںسکت نہ رہی کہ اس زندہ منطق کے بارے میں کو ئی بات کرسکے ۔ایسے ہٹ دھر م دشمنوں کو لاجواب کرنے کایہ بہتر ین طریقہ ہے۔یہ مسلم ہے کہ موت وحیات کا مسئلہ کئی جہات سے آسمان اور گردش شمس وقمر کی نسبت پرور دگار عالم کے علم وقدرت پر زیادہ گواہی دیتا ہے ۔اسی بناء پر حضرت ابراہیم (علیه السلام) سے پہلے وہی مسئلہ پیش کیا اور یہ فطری امر ہے کہ صساحب فکر اور روشن ضمیر افراد اس مجلس میں ہو ں گے تو وہ اسی دلیل سے مطمئن ہو گئے ہوں گے کیو نکہ ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ ایک قیدی کو آازاد کر نااور دوسرے کو قتل کر دینایہ قطعی اور طبعی موت وحیا ت سے بالکل ربط نہیں رکھتاجو لوگ کم عقل تھے ا ور اس د ور کے ظالم حکمران کے پیدا کردہ مغالطے سے متائثرہوسکتے تھے ان کی فکر راہ حق سے منحرف ہوسکتی تھی لہٰذا آپ نے دوسرااستدلال پیش کیا اور سورج کے طلوع وغروب کا مسئلہ پیش کیا تاکہ حق ہردوطرح کے افراد کے سامنے واضح ہو جائے ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.