مختصر جواب:
مفصل جواب:
اس آیت کریمہ میں ہم پڑھتے ہیں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے : « کہہ دو کہ خدا تمھیں ان چیزوں سے اور ہر مشکل وپریشانی سے نجات بخشتا ہے پھر بھی تم اس کے لئے شریک قرار دیتے ہو(اور کفر کی راہ پر چلتے ہو)( قُلْ اللَّہُ یُنَجِّیکُمْ مِنْھَا وَمِنْ کُلِّ کَرْبٍ ثُمَّ اٴَنْتُمْ تُشْرِکُونَ)
”کرب“ (بروزن حرب) در اصل زمین کو نیچے اوپر کرنے اور کھودنے کے معنی میں ہے، نیز وہ محکم گرہ جو کنویں کے ڈول کی طناب میں لگائی جاتی ہے، کے معنی میں بھی آتا ہے، اس کے بعد وہ غم واندو ہ جو انسان کے دل کو زیر وزبرکرتے ہیں اور جو گرہ کی طرح انسان کے دل پر بیٹھ جاتے ہیں کے لئے بھی بولا جانے لگا ۔
اس بنا پر اوپر والی آیت میں لفظ”کرب“ جو ایک وسیع معنی رکھتا ہے اور ہر قسم کی بڑی سے بڑی مشکلات پر محیط ہے یہ ”بر وبحر کی تاریکیوں“ کا ذکر کرنے کے بعد کہ جو شدائد کے ایک خاص حصہ کا کہا جاتا ہے، ایک خاص مفہوم بیان کرنے کے بعد ایک عام مفہوم کے طور پر آیا ہے(غور کیجئے گا) ۔
یہاں پر وہ حدیث بیان کرنا کہ جو اس آیت کے ذیل میں بعض اسلامی تفاسیر میں نقل ہوئی ہے نامناسب نہ ہوگا، پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله وسلم سے نقل ہواہے کہ آپ نے فرمایا:
خیر الدعاء الخفی وخیر الرزق ما یکفی
بہترین دعا وہ ہے کہ جو پنہانی (اور انتہائی خلوص کے ساتھ) صورت پذیر ہو اور بہترین روزی وہ ہے کہ جو بقدر کفایت ہو (نہ کہ اسی ثروت اندوزی کہ جو دوسروں کی محرومیت کا سبب بنے اور انسان کے کندھے پر ایک سنگین بوجھ ہو) ۔
اور اسی حدیث کے ذیل میں ہے :
مر بقوم رفعوا اصواتھم بالدعا فقال انکم لاتدعون الاصم ولا غائبا وانما تدعون سمیعا قریبا ۔
پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم ایک گروہ کے قریب سے گزرے وہ لوگ بلند آواز سے دعا کررہے تھے تو آپ نے فرمایا: تم کسی بہرے کو تو نہیں پکار ہے اور نہ ہی کسی ایسے شخص کو پکاررہے ہو کہ جو تم سے پوشیدہ اور دور ہو بلکہ تم تو ایک ایسی ہستی کو پکاررہے ہو کہ جو سننے والا بھی ہے اور قریب بھی ہے ۔۱
”کرب“ (بروزن حرب) در اصل زمین کو نیچے اوپر کرنے اور کھودنے کے معنی میں ہے، نیز وہ محکم گرہ جو کنویں کے ڈول کی طناب میں لگائی جاتی ہے، کے معنی میں بھی آتا ہے، اس کے بعد وہ غم واندو ہ جو انسان کے دل کو زیر وزبرکرتے ہیں اور جو گرہ کی طرح انسان کے دل پر بیٹھ جاتے ہیں کے لئے بھی بولا جانے لگا ۔
اس بنا پر اوپر والی آیت میں لفظ”کرب“ جو ایک وسیع معنی رکھتا ہے اور ہر قسم کی بڑی سے بڑی مشکلات پر محیط ہے یہ ”بر وبحر کی تاریکیوں“ کا ذکر کرنے کے بعد کہ جو شدائد کے ایک خاص حصہ کا کہا جاتا ہے، ایک خاص مفہوم بیان کرنے کے بعد ایک عام مفہوم کے طور پر آیا ہے(غور کیجئے گا) ۔
یہاں پر وہ حدیث بیان کرنا کہ جو اس آیت کے ذیل میں بعض اسلامی تفاسیر میں نقل ہوئی ہے نامناسب نہ ہوگا، پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله وسلم سے نقل ہواہے کہ آپ نے فرمایا:
خیر الدعاء الخفی وخیر الرزق ما یکفی
بہترین دعا وہ ہے کہ جو پنہانی (اور انتہائی خلوص کے ساتھ) صورت پذیر ہو اور بہترین روزی وہ ہے کہ جو بقدر کفایت ہو (نہ کہ اسی ثروت اندوزی کہ جو دوسروں کی محرومیت کا سبب بنے اور انسان کے کندھے پر ایک سنگین بوجھ ہو) ۔
اور اسی حدیث کے ذیل میں ہے :
مر بقوم رفعوا اصواتھم بالدعا فقال انکم لاتدعون الاصم ولا غائبا وانما تدعون سمیعا قریبا ۔
پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم ایک گروہ کے قریب سے گزرے وہ لوگ بلند آواز سے دعا کررہے تھے تو آپ نے فرمایا: تم کسی بہرے کو تو نہیں پکار ہے اور نہ ہی کسی ایسے شخص کو پکاررہے ہو کہ جو تم سے پوشیدہ اور دور ہو بلکہ تم تو ایک ایسی ہستی کو پکاررہے ہو کہ جو سننے والا بھی ہے اور قریب بھی ہے ۔۱
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.