مختصر جواب:
مفصل جواب:
موجود ہوجاتی ہے اور اگر اس نے یہ ارادہ کیا ہے کہ وہ چیز تدریجا وجود میں آئے تو اس کا تدریجی پروگرام شروع ہوجا تا ہے ۔
اس کے بعد قرآن مزیدکہتا ہے کہ :خدا کی بات حق ہے، یعنی جس طرح آفرینش کی ابتدا ہدف ونتیجہ اور مصلحت کی بنیاد تھی، قیامت و معاد بھی اسی طرح ہوگی(قَوْلُہُ الْحَقُّ ) ۔
اور اس دن جب صور میں پھونکا جائے گا اور قیامت پرپا ہو جائے گی، تو حکومت وملکیت اسی کی ذات پاک کے ساتھ مخصوص ہوگی(وَلَہُ الْمُلْکُ یَوْمَ یُنفَخُ فِی الصُّورِ) ۔
یہ صحیح ہے کہ خدا کی ملکیت اور حکومت تمام عالم ہستی پر ابتدا جہاں سے رہی ہے اور دنیا کے خاتمہ تک اور عالم قیامت میں بھی جاری رہے گی اور قیامت کے ساتھ کوئی اختصاص نہیں رکھتی لیکن چونکہ اس جہان میں اہداف ومقاصد کی تکمیل اور کاموں کے انجام دینے کے لئے عوامل واسباب کا ایک سلسلہ اثر انداز ہوتا ہے لہٰذا بعض اوقات یہ عوامل واسباب خدا سے جو مسبب الاسباب ہے غافل کردیتے ہیں، مگر وہ دن کہ جس میں تمام اسباب بے کار ہوجائیں گے تو اس کی ملکیت وحکومت ہر زمانے سے زیادہ آشکار وواضح ہوجائی گی، ٹھیک ایک دوسری آیت کی طرح جو یہ کہتی ہے کہ :
لمن ملک الیوم للّٰہ الواحد القھار۔
حکومت اور ملکیت آج(قیامت کے دن) کس کی ہے؟صرف خدائے یگانہ وقہار کے لئے ہے،(سورہ المومن،آیہ ۱۶) ۔
اس بارے میں کہ صور ۔ جس میں پھونکا جائے گا ۔ سے مراد کیا ہے اور اسرافیل صور میں کس طرح پھونکے گا کہ اس سے تمام جہاں والے مرجائیں گے اور دوبارہ صور میں پھونکے گا تو سب زندہ ہوجائیں گے اور قیامت برپا ہوجائے گی، انشاء اللہ ہم سورہٴ زمر کی آیہ ۶۸ کے ذیل میں شرح وبسط کے ساتھ بحث کریں گے کیوں کہ یہ بحث اس آیت کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔
اور آیت کے آخر میں خدا کی صفات میں سے تین صفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ: خدا پنہاں وآشکار سے باخبر ہے ( عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَةِ) ۔
اور اس کے تمام کام حکمت کی رو سے ہوتے ہیں او ر وہ تمام چیزوں سے باخبر ہے( وَھُوَ الْحَکِیمُ الْخَبِیرُ)،قیامت سے مربوط آیات میں اکثر خدا کی ان صفات کی طرط اشارہ ہوا ہے کہ وہ آگاہ بھی ہے اور قادر وحکیم بھی، یعنی اپنے علم وآگاہی کے اقتضاء کے مطابق وہ ہر شخص کو مناسب جزا دیتا ہے ۔۱
اس کے بعد قرآن مزیدکہتا ہے کہ :خدا کی بات حق ہے، یعنی جس طرح آفرینش کی ابتدا ہدف ونتیجہ اور مصلحت کی بنیاد تھی، قیامت و معاد بھی اسی طرح ہوگی(قَوْلُہُ الْحَقُّ ) ۔
اور اس دن جب صور میں پھونکا جائے گا اور قیامت پرپا ہو جائے گی، تو حکومت وملکیت اسی کی ذات پاک کے ساتھ مخصوص ہوگی(وَلَہُ الْمُلْکُ یَوْمَ یُنفَخُ فِی الصُّورِ) ۔
یہ صحیح ہے کہ خدا کی ملکیت اور حکومت تمام عالم ہستی پر ابتدا جہاں سے رہی ہے اور دنیا کے خاتمہ تک اور عالم قیامت میں بھی جاری رہے گی اور قیامت کے ساتھ کوئی اختصاص نہیں رکھتی لیکن چونکہ اس جہان میں اہداف ومقاصد کی تکمیل اور کاموں کے انجام دینے کے لئے عوامل واسباب کا ایک سلسلہ اثر انداز ہوتا ہے لہٰذا بعض اوقات یہ عوامل واسباب خدا سے جو مسبب الاسباب ہے غافل کردیتے ہیں، مگر وہ دن کہ جس میں تمام اسباب بے کار ہوجائیں گے تو اس کی ملکیت وحکومت ہر زمانے سے زیادہ آشکار وواضح ہوجائی گی، ٹھیک ایک دوسری آیت کی طرح جو یہ کہتی ہے کہ :
لمن ملک الیوم للّٰہ الواحد القھار۔
حکومت اور ملکیت آج(قیامت کے دن) کس کی ہے؟صرف خدائے یگانہ وقہار کے لئے ہے،(سورہ المومن،آیہ ۱۶) ۔
اس بارے میں کہ صور ۔ جس میں پھونکا جائے گا ۔ سے مراد کیا ہے اور اسرافیل صور میں کس طرح پھونکے گا کہ اس سے تمام جہاں والے مرجائیں گے اور دوبارہ صور میں پھونکے گا تو سب زندہ ہوجائیں گے اور قیامت برپا ہوجائے گی، انشاء اللہ ہم سورہٴ زمر کی آیہ ۶۸ کے ذیل میں شرح وبسط کے ساتھ بحث کریں گے کیوں کہ یہ بحث اس آیت کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔
اور آیت کے آخر میں خدا کی صفات میں سے تین صفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ: خدا پنہاں وآشکار سے باخبر ہے ( عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَةِ) ۔
اور اس کے تمام کام حکمت کی رو سے ہوتے ہیں او ر وہ تمام چیزوں سے باخبر ہے( وَھُوَ الْحَکِیمُ الْخَبِیرُ)،قیامت سے مربوط آیات میں اکثر خدا کی ان صفات کی طرط اشارہ ہوا ہے کہ وہ آگاہ بھی ہے اور قادر وحکیم بھی، یعنی اپنے علم وآگاہی کے اقتضاء کے مطابق وہ ہر شخص کو مناسب جزا دیتا ہے ۔۱
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.