مختصر جواب:
مفصل جواب:
متواتر احادیث میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا : «تقتل عمارا الفئة الباغیة« ۔ عمار کو ظالم او رباغی گروہ قتل کرے گا ۔
ابن تیمیہ کہتا ہے : «فھھنا للناس اقوال : منھم من قدح فی حدیث عمار « (١) ۔ یہاں پرلوگوں کے لئے کچھ اقوال ہیں انہی میں سے وہ بھی ہیں جنہوں نے عمار کی حدیث پر اعتراض کیا ہے ۔
اس نے ایک دوسری جگہ اس حدیث کے متعلق کہا ہے : «فبعضھم ضعفہ « (٢) ۔ بعض افراد نے اس کی تضعیف کی ہے ۔
حدیث عمار سے مراد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی وہ حدیث ہے جو آپ نے عمار کے متعلق فرمائی تھی کہ اے عمار ! تجھے ظالم اور باغی گروہ قتل کرے گا، باغی ور ظالم گروہ سے مراد معاویہ کا گروہ ہے ۔
اس کے جواب میں یہ کہنا ضروری ہے کہ اولا : اس نے یہ نہیں بتایا کہ اس حدیث کی کس نے تضعیف کی ہے ۔
ثانیا : حدیث عمار ،ثابت اورمتواتر حدیث ہے جس کو ٢٤ صحابہ نے نقل کی ہے ،حافظ سیوطی نے بھی کتاب «الخصائص الکبری « میں اس حدیث کے متواتر ہونے کی تصریح کی ہے (٣) ۔
اسی طرح حافظ لغوی مرتضی زبیدی نے کتاب «لفظ اللآلی« میں ، مناوی نے شرح جامع الصغیر میں ، سیوطی اور دوسرے علماء نے اس حدیث کو متواتر کہا ہے (٤) ۔
ابن عبدالبر نے «الاستیعاب « میں عمار کی سوانح حیات میں کہا ہے : «و تواترت الآثار عن النبی (ص) انہ قال : «تقتل عمارا الفئة الباغیة « و ھذا من اخبارہ بالغیب و اعلام نبوتہ (ص) و ھو من اصح الاحادیث « (٥) ۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے متواتر احادیث میں نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا : عمار کا ظالم اور باغی گروہ قتل کرے گا ۔ اور یہ آنحضرت کی پیشین گوئی اور نبوت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے اور اس حدیث کا شمار صحیح احادیث میں ہوتا ہے۔
حافظ ابن حجر نے شرح صحیح بخاری میں کہا ہے : «فائدة: روى حديث (تقتل عماراً الفئة الباغية) جماعة من الصحابة منهم قتادة بن النعمان كما تقدم، و أمّ سلمة عند مسلم و أبوهريره عند الترمذى، و عبدالله بن عمرو بن العاص عند النسائى و عثمان بن عفان و حذيفة و أبوايّوب و أبورافع و خزيمة بن ثابت و معاويه و عمرو بن العاص و أبواليسر و عمار نفسه. و كلّها عند الطبرى و غيره. و غالب طرقها صحيحة أو حسنة. و فيه عن جماعة آخرين يطول عدّهم. و في هذا الحديث علم من إعلام النبوة و فضيلة ظاهرة لعليّ و لعمّار، وردّ على النواصب الزاعمين أنّ عليّاً لم يكن مصيباً في حروبه»؛ (٦) ۔
فائدہ : اس حدیث «تقتل عمارا الفئة الباغیة « ،عمار کو گروہ باغی قتل کرے گا، کو صحابہ کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے اور جس طرح سے روایت گزری ہے اسی طرح قتادة بن نعمان نے نقل کیا ہے ۔ نیز مسلم نے ام سلمہ سے ، ترمذی نے ابوہریرہ سے نسائی نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے ،عثمان بن عفان، حذیفہ ، ابوایوب ، ابو رافع ، خزیمة بن ثابت ،معاویة ، عمرو بن عاص ،ابوالیسیر اور خود عمار نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور یہ پوری حدیث طبری اور دیگر علماء کے پاس موجود ہے اور اس کے اکثر طُرُق صحیح یا حسن ہیں اوراس حدیث میں نبوت کی علامتوں میں سے ایک علامت اور حضرت علی (علیہ السلام) و عمار کے لئے ظاہری فضیلت ہے ، نیز ان ناصبوں کا جواب ہے جو گمان کرتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) جنگوں میں حق پر نہیں تھے ۔
ابن حجر کی یہ عبارت ابن تیمیہ کی اس بات کا جواب ہے جو اس نے جنگوں کے متعلق حضرت علی (علیہ السلام) پر اعتراض کیا تھا ۔
ثالثا : بخاری نے اپنی صحیح میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : «ویح عمار تقتلہ الفئة الباغیة یدعوھم الی الجنة و یدعونہ الی النار« (٧) ۔
عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ، عمار ان کو بہشت کی دعوت دیں گے اور وہ عمار کو جہنم کی طرف بلائیں گے ۔
بخاری نے ایک باب میں اس حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے : «.... یدعوھم الی اللہ و یدعونہ الی النار « (٨) ۔ وہ اُن کو خدا کی طرف بلائیں گے لیکن وہ عمار کو دوزخ کی دعوت دیں گے ۔
ابن حبان نے اپنی صحیح میں امام سلمہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : «تقتل عمارا الفئة الباغیة « (٩) ۔ عمار کو ظالم گروہ قتل کرے گا ۔
نیز ابوسعید خدری سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : ویح ابن سمیة تقتلہ الفئة الباغیة یدعوھم الی الجنة و یدعونہ الی النار « (١٠) ۔ سمیہ کے بیٹے (عمار) کو باغی و ظالم گروہ قتل کرے گا ، عمار ان کو جنت کی دعوت دیں گے اور وہ عمار کو دوزخ کی طرف بلائیں گے ۔
ابن حجر نے صحیح بخاری کی شرح میں کہا ہے : « و دل حدیث (تقتل عمارا الفئة الباغیة) علی ان علیا کان المصیب فی تلک الحروب ، لان اصحاب معاویة قتلوہ ...« (١٢) ۔ یہ حدیث(عمار کو ظالم گروہ قتل کرے گا )اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ علی (علیہ السلام) ان جنگوں میں حق پر تھے ، کیونکہ معاویہ کے اصحاب نے عمار کو قتل کیا ہے (١٣) ۔
ابن تیمیہ کہتا ہے : «فھھنا للناس اقوال : منھم من قدح فی حدیث عمار « (١) ۔ یہاں پرلوگوں کے لئے کچھ اقوال ہیں انہی میں سے وہ بھی ہیں جنہوں نے عمار کی حدیث پر اعتراض کیا ہے ۔
اس نے ایک دوسری جگہ اس حدیث کے متعلق کہا ہے : «فبعضھم ضعفہ « (٢) ۔ بعض افراد نے اس کی تضعیف کی ہے ۔
حدیث عمار سے مراد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی وہ حدیث ہے جو آپ نے عمار کے متعلق فرمائی تھی کہ اے عمار ! تجھے ظالم اور باغی گروہ قتل کرے گا، باغی ور ظالم گروہ سے مراد معاویہ کا گروہ ہے ۔
اس کے جواب میں یہ کہنا ضروری ہے کہ اولا : اس نے یہ نہیں بتایا کہ اس حدیث کی کس نے تضعیف کی ہے ۔
ثانیا : حدیث عمار ،ثابت اورمتواتر حدیث ہے جس کو ٢٤ صحابہ نے نقل کی ہے ،حافظ سیوطی نے بھی کتاب «الخصائص الکبری « میں اس حدیث کے متواتر ہونے کی تصریح کی ہے (٣) ۔
اسی طرح حافظ لغوی مرتضی زبیدی نے کتاب «لفظ اللآلی« میں ، مناوی نے شرح جامع الصغیر میں ، سیوطی اور دوسرے علماء نے اس حدیث کو متواتر کہا ہے (٤) ۔
ابن عبدالبر نے «الاستیعاب « میں عمار کی سوانح حیات میں کہا ہے : «و تواترت الآثار عن النبی (ص) انہ قال : «تقتل عمارا الفئة الباغیة « و ھذا من اخبارہ بالغیب و اعلام نبوتہ (ص) و ھو من اصح الاحادیث « (٥) ۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے متواتر احادیث میں نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا : عمار کا ظالم اور باغی گروہ قتل کرے گا ۔ اور یہ آنحضرت کی پیشین گوئی اور نبوت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے اور اس حدیث کا شمار صحیح احادیث میں ہوتا ہے۔
حافظ ابن حجر نے شرح صحیح بخاری میں کہا ہے : «فائدة: روى حديث (تقتل عماراً الفئة الباغية) جماعة من الصحابة منهم قتادة بن النعمان كما تقدم، و أمّ سلمة عند مسلم و أبوهريره عند الترمذى، و عبدالله بن عمرو بن العاص عند النسائى و عثمان بن عفان و حذيفة و أبوايّوب و أبورافع و خزيمة بن ثابت و معاويه و عمرو بن العاص و أبواليسر و عمار نفسه. و كلّها عند الطبرى و غيره. و غالب طرقها صحيحة أو حسنة. و فيه عن جماعة آخرين يطول عدّهم. و في هذا الحديث علم من إعلام النبوة و فضيلة ظاهرة لعليّ و لعمّار، وردّ على النواصب الزاعمين أنّ عليّاً لم يكن مصيباً في حروبه»؛ (٦) ۔
فائدہ : اس حدیث «تقتل عمارا الفئة الباغیة « ،عمار کو گروہ باغی قتل کرے گا، کو صحابہ کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے اور جس طرح سے روایت گزری ہے اسی طرح قتادة بن نعمان نے نقل کیا ہے ۔ نیز مسلم نے ام سلمہ سے ، ترمذی نے ابوہریرہ سے نسائی نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے ،عثمان بن عفان، حذیفہ ، ابوایوب ، ابو رافع ، خزیمة بن ثابت ،معاویة ، عمرو بن عاص ،ابوالیسیر اور خود عمار نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور یہ پوری حدیث طبری اور دیگر علماء کے پاس موجود ہے اور اس کے اکثر طُرُق صحیح یا حسن ہیں اوراس حدیث میں نبوت کی علامتوں میں سے ایک علامت اور حضرت علی (علیہ السلام) و عمار کے لئے ظاہری فضیلت ہے ، نیز ان ناصبوں کا جواب ہے جو گمان کرتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) جنگوں میں حق پر نہیں تھے ۔
ابن حجر کی یہ عبارت ابن تیمیہ کی اس بات کا جواب ہے جو اس نے جنگوں کے متعلق حضرت علی (علیہ السلام) پر اعتراض کیا تھا ۔
ثالثا : بخاری نے اپنی صحیح میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : «ویح عمار تقتلہ الفئة الباغیة یدعوھم الی الجنة و یدعونہ الی النار« (٧) ۔
عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ، عمار ان کو بہشت کی دعوت دیں گے اور وہ عمار کو جہنم کی طرف بلائیں گے ۔
بخاری نے ایک باب میں اس حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے : «.... یدعوھم الی اللہ و یدعونہ الی النار « (٨) ۔ وہ اُن کو خدا کی طرف بلائیں گے لیکن وہ عمار کو دوزخ کی دعوت دیں گے ۔
ابن حبان نے اپنی صحیح میں امام سلمہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : «تقتل عمارا الفئة الباغیة « (٩) ۔ عمار کو ظالم گروہ قتل کرے گا ۔
نیز ابوسعید خدری سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : ویح ابن سمیة تقتلہ الفئة الباغیة یدعوھم الی الجنة و یدعونہ الی النار « (١٠) ۔ سمیہ کے بیٹے (عمار) کو باغی و ظالم گروہ قتل کرے گا ، عمار ان کو جنت کی دعوت دیں گے اور وہ عمار کو دوزخ کی طرف بلائیں گے ۔
ابن حجر نے صحیح بخاری کی شرح میں کہا ہے : « و دل حدیث (تقتل عمارا الفئة الباغیة) علی ان علیا کان المصیب فی تلک الحروب ، لان اصحاب معاویة قتلوہ ...« (١٢) ۔ یہ حدیث(عمار کو ظالم گروہ قتل کرے گا )اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ علی (علیہ السلام) ان جنگوں میں حق پر تھے ، کیونکہ معاویہ کے اصحاب نے عمار کو قتل کیا ہے (١٣) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.