مختصر جواب:
مفصل جواب:
حدیث "" علی منی"" مختلف جگہوں پر متعدد راویوں سے نقل ہوئی ہے، یہاں پر ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
١۔ جنگ احد
ابن عساکر اپنی سند کے ساتھ جابر بن عبداللہ سے نقل کرتے ہیں کہ احد کے روز حضرت علی (علیہ السلام)، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے پاس تشریف لائے ، آنحضرت نے ان سے فرمایا : روانہ ہوجائو ۔ جبرئیل نے عرض کیا : یا محمد ! خدا کی قسم ! یہ مدد ، غمخواری اور ہمدردی ہے ۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے فرمایا : ائے جبرئیل ! یقینا وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ۔ جبرئیل نے عرض کیا : اور میں تم دونوں سے ہوں (١) ۔
اس مضمون کو ابورافع نے تاریخ دمشق(٢) ، طبرانی نے المعجم الکبیر (٣) اور طبری نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے (٤) ۔
٢۔ حجة الوداع
حبشی بن جنادہ ، حجة الوداع کے موقع پر حاضر تھے وہ کہتے ہیں : "" میں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سنا ہے کہ اس روز آپ نے فرمایا: علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں اور ان کے علاوہ کوئی دوسرا شخص میرے دین کو قائم نہیں کرے گا (٥) ۔
٣۔ جس روز رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے لئے ہدیہ لایا گیا:
ایک نیک شخص نے حضرت علی (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ہدیہ کے طور پر کیلے دئیے گئے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کیلوں کے چھلکے اتارتے تھے اور میرے میں رکھتے تھے ۔ ایک شخص نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ علی کو دوست رکھتے ہیں؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں (٦) ۔
٤۔ عمر بن خطاب کے بقول
بخاری نے اپنی سند کے ساتھ عمر بن خطاب سے نقل کیا ہے کہ عمر نے کہا : رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جب اس دنیا سے تشریف لے گئے تو آپ حضرت علی (علیہ السلام) سے راضی تھے اور ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: "" انت منی و انا منک"" (٧) تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں""۔
٥ ۔ یمن کی طرف لشکر بھیجنے کے بعدفرمایا:
ترمذی نے عمران بن حصین سے نقل کیا ہے : رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) کی سردار ی میں ایک لشکر بھیجا ،حضرت علی (علیہ السلام) نے اس جنگ میں ایک کنیز کو اپنے لئے انتخاب کرلیا، بعض افراد نے اعتراض کیا اور اصحاب پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں سے چار اصحاب نے یہ عہد و پیمان کیا کہ اس خبر کو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچائیں گے ۔ عمران کہتا ہے: ہم جب بھی سفر سے واپس آتے تھے تو پہلے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں جاتے اور آپ کو سلام کرتے تھے ۔ عمران کہتا ہے : یا رسول اللہ ! علی نے فلاںکام انجام دیا۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنا منہ پھیر لیا۔ دوسراآدمی کھڑا ہو اور اسی بات کی تکرار کی، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس کی طرف سے بھی منہ پھیر لیا ، پھر تیسرا شخص کھڑا ہو اور اس نے بھی وہی بات پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے سامنے تکرار کی ۔ آنحضرت نے اس کی طرف سے بھی منہ پھیر لیا ۔ چوتھا شخص کھڑا ہو کر اعتراض کرنے لگا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس کی طرف رخ کیا تو آپ کا چہرہ غصہ سے لال ہو رہا تھا فرمایا: ""ما تریدون من علی ، ماتریدون من علی، ماتریدون من علی انہ منی و انا منہ، و ھو ولی کل مومن بعدی "" علی سے کیا چاہتے ہو، علی سے کیا چاہتے ہو ، یقینا علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں ، اور وہ میرے بعد ہر مومن کے ولی ہیں (٨) ۔
اس حدیث کو ترمذی نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے ان کے علاوہ دوسرے افراد جیسے ابوداود طیالسی، حاکم نیشاپوری اور احمد بن حنبل نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے (٩) (١٠) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.