مختصر جواب:
مفصل جواب:
رشوت خوری۔ ایک مصیبت
ایک عظیم مصیبت جو زمانہ قدیم سے نوع انسانی کودا من گیر ہے اور جو آج کل تو بڑی شدت سے رائج اور جاری و ساری ہے وہ رشوت ہے ۔ عدالت اجتماعی کی راہ میں یہ ایک بہت بڑی رکاوٹ رہی ہے اور آج بھی ہے ۔ اسی کے سبب وہ قوانین جو کمز وروں کے تحفظ کے ضامن تھے ۔ طاقتوروں کے ان مظالم کے حق میں استعمال ہو تے،ہیں قانون جہنیں محدود کرنا چا ہتا تھا کیونکہ طاقتور اور قوی لوگ تو ہمیشہ اپنی قوت کے بل بوتے پر اپنی منافع کی حفاظت کر سکتے میںزیہ تو ضعیف اور کمز و لوگ ہی، ہیں جن کے منافع اور حقوق کی حفاظت قانون کو کرنا ہے ۔ واضح ہے کہ اگر رشوت کا دروازہ کھلا رہے تو قوانین کا نتیجہ با لکل بر عکس نکلے گا کیونکہ قوی لوگ تو رشوت دینے کی قدرت رکھتے ، ہیں اس کے نتیجے میں ان کے ہا تھوں قوانین کمزور لوگوں کے حقوق پر ظلم و ستم اور تجاوز جاری رکھنے کے لیے ایک کھیل بن کررہ جائیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ جس معاشرے میں رشوت نفوذ کرے گی وہاں زندگی کا شیرازہ بکھر کررہ جائے گا اور ظلم و فساد، نا انصافی او رتبعیض کا دور دورہ ہو گا اور قانون عدالت برائے نام باقی رہ جائے گا۔ اسی لیے اسلام نے رشوت خوری کو پوری شدت کے ساتھ قباحت قرار دیا ہے ، اس کی مذمت کی ہے اور اسے گناہان کبیرہ میں سے قرار دیا ہے ۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ رشوت جیسی برائی اور قباحت دو سرے پر فریب ناموں سے انجام پاتی ہے ۔ رشوت خوار اور رشوت دینے والا اس کے لیے ہدیہ ، حق حساب حق زحمت اور انعام جیسے الفاظ استعمال کر تے میں ۔ لیکن واضح ہے کہ ناموں کی یہ تبدیلی کسی طرح بھی اس کی ماہیت اور حقیقت کو نہیں بدل سکتی۔ ہر صورت میں جو بھی پیسہ اس طریقے سے وصول ہو گا وہ، حرام اور ناجائز ہے۔
نہج البلاغہ میں اشعث بن قیس کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ ایک مرتبہ وہ حضرت علی کے محکمہ عدل میں اپنے مد مقابل پر کامیابی کے لیے رشوت لے کرآیا۔ ہوایوں کہ رات کے وقت اسک لذیذ حلو ے سے بھرا ہوا بر تن لے کر حضرت علی کے دروازے پر آیا ۔ وہ اسے ہدیہ قرار دے رہاتھا۔ حضرت علی نے غصے سے فرمایا:
ہبلتک الہبول اعن دین اللہ اتیتنی لتخذ عنی و اللہ لواعطیت الا قالیم السبعة بما تحت افلاکہا علی ان اعصی اللہ فی نملة اسلبہا جلب شعیرة ما فعلة وا ن دنیا کم عندی لاہون من ورقہ فی فم جرادة تقضمہا ما لعلی و لنعیم یفنی و لذرة لا تبقی
سوگوار تجھ پر روئیں ۔ کیا تو اس لیے آیا ہے کہ مجھے فریب دے اور مجھے دین حق سے باز رکھے خدا کی قسم اگر سات اقلیم سب چیزوں کے سمیت جوان کے آسمانون کے پنجے ہیں مجھے و ے دی جائیں صرف اس کے بد لے کہ میں چیونٹی کے منہ سے جو کا ایک چھلکا ظلم سے چھین لوں تو میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔ یہ دنیا میرے نزدیک ٹڈی کے منہ میں چبا ئے ہو ئے پتے سے بھی زیادہ بے وقعت ہے ۔ علی کو فنا ہو نے والی نعمتوں اور جلد گزر جا نے والی لذتوں سے کیا کام۔
اسلام رشوت کی ہر شکل و صورت کو مذموم سمجھتا ہے۔ پیغمبر اسلام کی تاریخ حیات کا ایک واقعہ ہے کہ آپ کو ایک مرتبہ خبر ملی کہ آپ کی طرف سے معین ایک حاکم نے ہدیہ کے نام پر رشوت قبول کر لی ہے ۔ آنحضرت غبضناک ہو ئے اور اس فرمایا
کیف تاخذ مالیس لک بحق؟
تو وہ چیز کیوں لیتا ہے جو تیرا حق نہیں ہے
اس نے جواب میں معذرت کر تے ہو ئے کہا :
لقد کانت ہدیہ یا رسول اللہ؟
اے رسول خدا !میں نے جو کچھ لیا وہ تو ہدیہ تھا
رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم) نے فرمایا
ارایت لوقعد احد کم فی دارہ و لم نولہ عملا اکان الناس یہدونہ شیئا؟
اگر تم گھروں میںبیٹھے رہو اور میری طرف سے کسی جگہ پر عامل و حاکم نہ بنو تو کیا پھر بھی لوگ تمہیں ہدیہ دیتے میں۔
اس کے بعد آپ نے حکم دیا اور اس سے وہ ہدیہ لے کر بیت المال میں داخل کر دیا گیا اور اسے آپ نے معزول کر دیا ۔۱۔
اسلام نے تو یہاں تک اہتمام کیا ہے کہ قاضی کہیں مخفی رشوتوں میں مبتلا نہ ہو جا ئے ۔ اسلام نے حکم دیا ہے کہ قاضی خود بازار میں نہ جائے
و اما الرشا فی الحکم فہو الکفر باللہ العظیم
باقی رہا فیصیلہ کرنے میں رشوت لینا ۔تو یہ خدا ئے عظیم سے کفر ہے۔2۔
رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم) سے ایک مشہور حدیث منقول ہے جس کے الفاظ یہ میں ۔
لعن اللہ الراشی و المرتشی و الساعی بینہما
خدا اپنی رحمت سے دو رکھے رشوت لینے والے، رشوت دینے والے اور ان کے در میان واسطہ بننے والے کو 3
ایک عظیم مصیبت جو زمانہ قدیم سے نوع انسانی کودا من گیر ہے اور جو آج کل تو بڑی شدت سے رائج اور جاری و ساری ہے وہ رشوت ہے ۔ عدالت اجتماعی کی راہ میں یہ ایک بہت بڑی رکاوٹ رہی ہے اور آج بھی ہے ۔ اسی کے سبب وہ قوانین جو کمز وروں کے تحفظ کے ضامن تھے ۔ طاقتوروں کے ان مظالم کے حق میں استعمال ہو تے،ہیں قانون جہنیں محدود کرنا چا ہتا تھا کیونکہ طاقتور اور قوی لوگ تو ہمیشہ اپنی قوت کے بل بوتے پر اپنی منافع کی حفاظت کر سکتے میںزیہ تو ضعیف اور کمز و لوگ ہی، ہیں جن کے منافع اور حقوق کی حفاظت قانون کو کرنا ہے ۔ واضح ہے کہ اگر رشوت کا دروازہ کھلا رہے تو قوانین کا نتیجہ با لکل بر عکس نکلے گا کیونکہ قوی لوگ تو رشوت دینے کی قدرت رکھتے ، ہیں اس کے نتیجے میں ان کے ہا تھوں قوانین کمزور لوگوں کے حقوق پر ظلم و ستم اور تجاوز جاری رکھنے کے لیے ایک کھیل بن کررہ جائیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ جس معاشرے میں رشوت نفوذ کرے گی وہاں زندگی کا شیرازہ بکھر کررہ جائے گا اور ظلم و فساد، نا انصافی او رتبعیض کا دور دورہ ہو گا اور قانون عدالت برائے نام باقی رہ جائے گا۔ اسی لیے اسلام نے رشوت خوری کو پوری شدت کے ساتھ قباحت قرار دیا ہے ، اس کی مذمت کی ہے اور اسے گناہان کبیرہ میں سے قرار دیا ہے ۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ رشوت جیسی برائی اور قباحت دو سرے پر فریب ناموں سے انجام پاتی ہے ۔ رشوت خوار اور رشوت دینے والا اس کے لیے ہدیہ ، حق حساب حق زحمت اور انعام جیسے الفاظ استعمال کر تے میں ۔ لیکن واضح ہے کہ ناموں کی یہ تبدیلی کسی طرح بھی اس کی ماہیت اور حقیقت کو نہیں بدل سکتی۔ ہر صورت میں جو بھی پیسہ اس طریقے سے وصول ہو گا وہ، حرام اور ناجائز ہے۔
نہج البلاغہ میں اشعث بن قیس کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ ایک مرتبہ وہ حضرت علی کے محکمہ عدل میں اپنے مد مقابل پر کامیابی کے لیے رشوت لے کرآیا۔ ہوایوں کہ رات کے وقت اسک لذیذ حلو ے سے بھرا ہوا بر تن لے کر حضرت علی کے دروازے پر آیا ۔ وہ اسے ہدیہ قرار دے رہاتھا۔ حضرت علی نے غصے سے فرمایا:
ہبلتک الہبول اعن دین اللہ اتیتنی لتخذ عنی و اللہ لواعطیت الا قالیم السبعة بما تحت افلاکہا علی ان اعصی اللہ فی نملة اسلبہا جلب شعیرة ما فعلة وا ن دنیا کم عندی لاہون من ورقہ فی فم جرادة تقضمہا ما لعلی و لنعیم یفنی و لذرة لا تبقی
سوگوار تجھ پر روئیں ۔ کیا تو اس لیے آیا ہے کہ مجھے فریب دے اور مجھے دین حق سے باز رکھے خدا کی قسم اگر سات اقلیم سب چیزوں کے سمیت جوان کے آسمانون کے پنجے ہیں مجھے و ے دی جائیں صرف اس کے بد لے کہ میں چیونٹی کے منہ سے جو کا ایک چھلکا ظلم سے چھین لوں تو میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔ یہ دنیا میرے نزدیک ٹڈی کے منہ میں چبا ئے ہو ئے پتے سے بھی زیادہ بے وقعت ہے ۔ علی کو فنا ہو نے والی نعمتوں اور جلد گزر جا نے والی لذتوں سے کیا کام۔
اسلام رشوت کی ہر شکل و صورت کو مذموم سمجھتا ہے۔ پیغمبر اسلام کی تاریخ حیات کا ایک واقعہ ہے کہ آپ کو ایک مرتبہ خبر ملی کہ آپ کی طرف سے معین ایک حاکم نے ہدیہ کے نام پر رشوت قبول کر لی ہے ۔ آنحضرت غبضناک ہو ئے اور اس فرمایا
کیف تاخذ مالیس لک بحق؟
تو وہ چیز کیوں لیتا ہے جو تیرا حق نہیں ہے
اس نے جواب میں معذرت کر تے ہو ئے کہا :
لقد کانت ہدیہ یا رسول اللہ؟
اے رسول خدا !میں نے جو کچھ لیا وہ تو ہدیہ تھا
رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم) نے فرمایا
ارایت لوقعد احد کم فی دارہ و لم نولہ عملا اکان الناس یہدونہ شیئا؟
اگر تم گھروں میںبیٹھے رہو اور میری طرف سے کسی جگہ پر عامل و حاکم نہ بنو تو کیا پھر بھی لوگ تمہیں ہدیہ دیتے میں۔
اس کے بعد آپ نے حکم دیا اور اس سے وہ ہدیہ لے کر بیت المال میں داخل کر دیا گیا اور اسے آپ نے معزول کر دیا ۔۱۔
اسلام نے تو یہاں تک اہتمام کیا ہے کہ قاضی کہیں مخفی رشوتوں میں مبتلا نہ ہو جا ئے ۔ اسلام نے حکم دیا ہے کہ قاضی خود بازار میں نہ جائے
و اما الرشا فی الحکم فہو الکفر باللہ العظیم
باقی رہا فیصیلہ کرنے میں رشوت لینا ۔تو یہ خدا ئے عظیم سے کفر ہے۔2۔
رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم) سے ایک مشہور حدیث منقول ہے جس کے الفاظ یہ میں ۔
لعن اللہ الراشی و المرتشی و الساعی بینہما
خدا اپنی رحمت سے دو رکھے رشوت لینے والے، رشوت دینے والے اور ان کے در میان واسطہ بننے والے کو 3
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.