مختصر جواب:
مفصل جواب:
شوہر کی وفات کے بعد دوسری شادی عورت کے لیے بنیادی اور مشکل مسائل میں سے ہے پہلے شوہر کی وفات کے بعد فوری طور پر دوسری شادی کرنا سابق شوہر کی محبت، دوستی اور احترام کے منافی ہے ۔ نیز یہ یقین پیدا کرنا بھی ضروری ہے کہ عور ت کا رحم پہلے شوہر کے نطفے سے خالی ہے۔ علاوہ ازیں فوری طور پر دوسری شادی مرنے والے کے لوا حقین کے جذبات کے مجروح ہونے کا سبب بھی ہے لہذا مندرجہ بالا آیت میں عورتوں کے لیے یہ شرط عاید کی گئی ہے کہ ننے نکاح کے لیے چار مہینے اور دس دن کی عدت گزاریں۔
شوہر کے مرنے کے بعد بھی ازدواجی زندگی کے حریم کا احترام ایک فطری امر ہے۔ اس لیے مختلف قبائل میں اس مقصد کے لیے طرح طرح کے آداب و رسوم رہے ہیں اگر چہ بعض اوقات یہ بات زیادتی اور افراط کی شکل اختیار کرجاتی ہے اور عملی طور پر عورتیں قید و بند میں ڈال دی جاتی ہیں۔ بعض اوقات تو ایسی عورتوں پر بہت زیادہ ظلم روا رکھا جاتا رہاہے۔ بعض لوگ تو شوہر کے انتقال کے بعد عورت کو جلادیتے تھے یا مرد کے ساتھ ہی زندہ و فن کردیتے تھے۔
لوگوں میں یہ رسم بھی رہی ہے کہ عورت کو نئی شادی سے یکسر محروم کرکے گوشہ نشینی پر مجبور کردیاجاتا۔ بعض قبائل میں یہ رواج تھا کہ شوہر کے انتقال کے بعد عورت ایک مدت تک سیاہ اور بوسیدہ خیمہ قبر شوہر پر گاڑتی اور اُس میں پھٹے پرانے اور کثیف لباس میں وقت گزارتی، ہر طرح کی آرائش و زیور یہاں تک کہ نہانے دھونے سے بھی دور رہتی اور یونہی اس کے شب و روز گزرجاتے۔ ۱
زیر نظر آیت نے ان تمام خرافات پرخط بطلان کھینچ دیاہے اور شائستہ طور پر حریم زوجیت کی بنیاد کی حفاظت کے لیے”عدت“ مقرر کردی ہے۔
"وَالَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُونَ اٴَزْوَاجًا یَتَرَبَّصْنَ بِاٴَنفُسِہِنَّ اٴَرْبَعَةَ اٴَشْہُرٍ وَعَشْرًا "
لفظ ”توفی“ قرآن میں بہت سے مواقع پر استعمال ہواہے۔ اس کا معنی ہے ”گرفت میں لینا“ لفظ ”لفظ یذر“ ماضی کا صیغہ نہیں ہے اور اس کا معنی ہے ”چھوڑنا“ ۔ آیت کہتی ہے: جن عورتوں کے شوہر چل بستے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ چار مہینے اور دس دن عدت میں رہیں اور اس عرصے میں نئی شادی سے اجتناب کریں۔
رہبران اسلام سے ہم تک پہنچنے والی روایات کے مطابق عورتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مدت میں حالت سوگواری میں رہیں یعنی آرائش و زیبائش ہرگز نہ کریں اور سادگی میں رہیں۔ عدت مقرر کرنے کا فلسفہ بھی اس بات کو ضروری قرار دیتا ہے۔ اسلام نے عورتو ںکو زمانہ جاہلیت کے آداب و رسوم سے اس حد تک نجات بخشی کہ بعض لوگوں نے خیال کیا کہ شاید وہ اس عدت کے دوران میں بھی شادی کرسکتی ہیں۔ جن عورتوں کا یہ خیال تھا انہی میں سے ایک عورت پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ وہ نئی شادی کے لیے اجازت کی طلب گار تھی۔ اس نے پیغمبر اکرم سے سوال کیا:
"کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں سرمہ لگاؤں اور اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کروں؟
آنحضرت نے فرمایا: تم عورتیں بھی عجیب و غریب مخلوق ہو۔ اسلام سے پہلے تو وفات شوہر کے بعد مدت عدت سخت ترین حالات میں بھی پورا کرتی تھیں یہاں تک کہ بعض اوقات مرتے دم تک یہ مدت تمہارے ساتھ چلتی تھی۔ اب جب کہ خاندان کے احترام اور حق زوجیت کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے حکم دیاگیاہے کہ تھوڑی سی مدت مدت صبر کر لو تو اب اسے بھی برداشت نہیں کرتی ہو ۱
شوہر کے مرنے کے بعد بھی ازدواجی زندگی کے حریم کا احترام ایک فطری امر ہے۔ اس لیے مختلف قبائل میں اس مقصد کے لیے طرح طرح کے آداب و رسوم رہے ہیں اگر چہ بعض اوقات یہ بات زیادتی اور افراط کی شکل اختیار کرجاتی ہے اور عملی طور پر عورتیں قید و بند میں ڈال دی جاتی ہیں۔ بعض اوقات تو ایسی عورتوں پر بہت زیادہ ظلم روا رکھا جاتا رہاہے۔ بعض لوگ تو شوہر کے انتقال کے بعد عورت کو جلادیتے تھے یا مرد کے ساتھ ہی زندہ و فن کردیتے تھے۔
لوگوں میں یہ رسم بھی رہی ہے کہ عورت کو نئی شادی سے یکسر محروم کرکے گوشہ نشینی پر مجبور کردیاجاتا۔ بعض قبائل میں یہ رواج تھا کہ شوہر کے انتقال کے بعد عورت ایک مدت تک سیاہ اور بوسیدہ خیمہ قبر شوہر پر گاڑتی اور اُس میں پھٹے پرانے اور کثیف لباس میں وقت گزارتی، ہر طرح کی آرائش و زیور یہاں تک کہ نہانے دھونے سے بھی دور رہتی اور یونہی اس کے شب و روز گزرجاتے۔ ۱
زیر نظر آیت نے ان تمام خرافات پرخط بطلان کھینچ دیاہے اور شائستہ طور پر حریم زوجیت کی بنیاد کی حفاظت کے لیے”عدت“ مقرر کردی ہے۔
"وَالَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُونَ اٴَزْوَاجًا یَتَرَبَّصْنَ بِاٴَنفُسِہِنَّ اٴَرْبَعَةَ اٴَشْہُرٍ وَعَشْرًا "
لفظ ”توفی“ قرآن میں بہت سے مواقع پر استعمال ہواہے۔ اس کا معنی ہے ”گرفت میں لینا“ لفظ ”لفظ یذر“ ماضی کا صیغہ نہیں ہے اور اس کا معنی ہے ”چھوڑنا“ ۔ آیت کہتی ہے: جن عورتوں کے شوہر چل بستے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ چار مہینے اور دس دن عدت میں رہیں اور اس عرصے میں نئی شادی سے اجتناب کریں۔
رہبران اسلام سے ہم تک پہنچنے والی روایات کے مطابق عورتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مدت میں حالت سوگواری میں رہیں یعنی آرائش و زیبائش ہرگز نہ کریں اور سادگی میں رہیں۔ عدت مقرر کرنے کا فلسفہ بھی اس بات کو ضروری قرار دیتا ہے۔ اسلام نے عورتو ںکو زمانہ جاہلیت کے آداب و رسوم سے اس حد تک نجات بخشی کہ بعض لوگوں نے خیال کیا کہ شاید وہ اس عدت کے دوران میں بھی شادی کرسکتی ہیں۔ جن عورتوں کا یہ خیال تھا انہی میں سے ایک عورت پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ وہ نئی شادی کے لیے اجازت کی طلب گار تھی۔ اس نے پیغمبر اکرم سے سوال کیا:
"کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں سرمہ لگاؤں اور اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کروں؟
آنحضرت نے فرمایا: تم عورتیں بھی عجیب و غریب مخلوق ہو۔ اسلام سے پہلے تو وفات شوہر کے بعد مدت عدت سخت ترین حالات میں بھی پورا کرتی تھیں یہاں تک کہ بعض اوقات مرتے دم تک یہ مدت تمہارے ساتھ چلتی تھی۔ اب جب کہ خاندان کے احترام اور حق زوجیت کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے حکم دیاگیاہے کہ تھوڑی سی مدت مدت صبر کر لو تو اب اسے بھی برداشت نہیں کرتی ہو ۱
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.