مختصر جواب:
مفصل جواب:
عیسائی یوحنا کی انجیل کی طرف اسناد کرتے ہوئے کہتے ہیں اور اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ عیسی ایک انسان ہیں ان کے لیے خدا کلمہ کہنا بہت بری بات ہے ،
۔ عیسیٰ (علیه السلام) کو کلمہ کیوں کہا گیا ؟ : اس آیت میں اور دو مزید آیات میں حضرت مسیح (علیه السلام) کو " کلمہ" کے عنوان سے یاد کیاگیا ہے ۔ یہ تعبیر عہد جدید کی کتب میں بھی دکھائی دیتی ہے ۔
اس بارے میں مفسرین میںاختلاف ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کو " کلمہ " کیوں کہا گیا ہے لیکن زیادہ تر یہی نظر آتا ہے کہ اس کا سبب ان کی غیر معمولی پیدائش ہے جو اس فرمان الہٰی کی مصداق ہے :۔
"انّما ٓ امرہٓ اذا رادا شیئاً ان یقول لہ کن فیکون "
اس کا امر تو بس یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا رادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہوجا بس وہ ہوجاتی ہے ۔ ( یس ٓ۔ ۸۲) یا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ولادت سے پہلے خدا تعالیٰ نے ان کی والدہ کو ایک کلام کے ذریعے بشارت دی تھی ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اس تعبیر کی وجہ یہ ہوکہ لفظ " کلمہ " قرآن کی اصطلاح میں مخلوق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، مثلاً:
" قل لوکان البحر مداداً لکمات ربّی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربّی ولو جئنا بمثلہ مددا ۔"
کہہ دیجئے میرے پروردگار کے کلمات لکھنے کے لئے اگر دریا سیاہی بن جائیں تو وہ ختم ہو جائیں گے لیکن میرے رب کے کلمات ختم نہیں ہوں اگر چہ انہی جتنے اور دریابھی ان میں شامل ہوجائیں ۔ ( کہف ، ۱۰۹) ۔
اس آیت میں کلمات خدا سے مراد مخلوقاتِ خدا ہی ہے اور چونکہ حضرت" مسیح " خدا کی عظیم مخلوقات میں سے ایک تھے اس لیے ان پر " کلمہ" کا اطلاق ہوا ہے ۔ ضمناً اس میں حضرت عیسیٰ کی الوہیت کے دعویداروں کا جواب بھی آگیا ہے ۔ 1
۔ عیسیٰ (علیه السلام) کو کلمہ کیوں کہا گیا ؟ : اس آیت میں اور دو مزید آیات میں حضرت مسیح (علیه السلام) کو " کلمہ" کے عنوان سے یاد کیاگیا ہے ۔ یہ تعبیر عہد جدید کی کتب میں بھی دکھائی دیتی ہے ۔
اس بارے میں مفسرین میںاختلاف ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کو " کلمہ " کیوں کہا گیا ہے لیکن زیادہ تر یہی نظر آتا ہے کہ اس کا سبب ان کی غیر معمولی پیدائش ہے جو اس فرمان الہٰی کی مصداق ہے :۔
"انّما ٓ امرہٓ اذا رادا شیئاً ان یقول لہ کن فیکون "
اس کا امر تو بس یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا رادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہوجا بس وہ ہوجاتی ہے ۔ ( یس ٓ۔ ۸۲) یا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ولادت سے پہلے خدا تعالیٰ نے ان کی والدہ کو ایک کلام کے ذریعے بشارت دی تھی ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اس تعبیر کی وجہ یہ ہوکہ لفظ " کلمہ " قرآن کی اصطلاح میں مخلوق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، مثلاً:
" قل لوکان البحر مداداً لکمات ربّی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربّی ولو جئنا بمثلہ مددا ۔"
کہہ دیجئے میرے پروردگار کے کلمات لکھنے کے لئے اگر دریا سیاہی بن جائیں تو وہ ختم ہو جائیں گے لیکن میرے رب کے کلمات ختم نہیں ہوں اگر چہ انہی جتنے اور دریابھی ان میں شامل ہوجائیں ۔ ( کہف ، ۱۰۹) ۔
اس آیت میں کلمات خدا سے مراد مخلوقاتِ خدا ہی ہے اور چونکہ حضرت" مسیح " خدا کی عظیم مخلوقات میں سے ایک تھے اس لیے ان پر " کلمہ" کا اطلاق ہوا ہے ۔ ضمناً اس میں حضرت عیسیٰ کی الوہیت کے دعویداروں کا جواب بھی آگیا ہے ۔ 1
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.