مختصر جواب:
مفصل جواب:
سوال : عمرو عاص نے حضرت علی (علیہ السلام) کی مدح اور معاویہ کی مذمت میں جو قصیدہ بیان کیا ہے اس کو ذکر کریں؟
جواب :
1 ـ معاویةُ الحالَ لا تجهلِ *** وعن سُبُلِ الحَقِّ لا تعدِلِ
2 - نسیتَ احتیالیَ فی جِلّق(1) *** على أهلِها یوم لُبْسِ الحُلی
3 - وقد أقبلوا زُمَراً یُهْرَعونَ *** مهالیعَ کالبقرِ الجُفَّلِ(2)
4 - وقولی لهم إنَّ فرضَ الصلاةِ *** بغیرِ وجودِکَ لمْ تُقبلِ
5 - فَوَلَّوا ولم یعبأوا بالصلاةِ *** ورمت النفار الى القَسْطَلِ(3)
6 - ولَمّا عصیتَ إمام الهدى *** وفی جیشِهِ کلُّ مُستفحلِ
7 - أبالْبَقر البُکْمِ أهلِ الشآمِ *** لأهلِ التقى والحجا أَبتلی؟
8 - فقلت نعم قم فإنّی أرى *** قتالَ المُفضَّل بالأفضلِ
9 - فبی حاربوا سیِّدَ الأوصیاءِ *** بقولی دمٌ طُلَّ مِن نعثلِ(4)
10 - وکدتُ لهمْ أنْ أقاموا الرماحَ *** علیها المصاحفُ فی القَسْطَلِ
11 - وعلّمتُهمْ کشفَ سوآتِهم *** لردِّ الغَضَنفَرَةِ المُقبلِ
12 - فَقامَ البغاةُ على حیدر *** وکفّوا عن المِشعَلِ المصطلی
13 - نسیتَ محاورةَ الأشعریِّ *** ونحنُ على دَوْمَةِ الجَنْدَلِ
14 - ألینُ فیطمعُ فی جانبی *** وسهمىَ قد خاضَ فی المَقْتَلِ
15 - خلعتُ الخلافةَ من حیدر *** کخَلعِ النعالِ من الأرجلِ
16 - وألبستُها فیک بعد الإیاس *** کَلُبس الخواتیمِ بالأنمُلِ
17 - ورقّیتُکَ المنبرَ المُشْمَخِرَّ *** بلا حدِّ سیف ولا مُنصِلِ
18 - ولو لم تکن أنت من أهلِهِ *** وربِّ المقام ولم تَکْمُلِ
19 - وسیّرتُ جیشَ نفاقِ العراقِ *** کَسَیْرِ الجَنوبِ مع الشمأَلِ
20 - وسیّرتُ ذِکرَک فی الخافقینِ *** کَسَیرِ الحَمیرِ مع المحملِ
21 - وجهلُکَ بی یا ابنَ آکلةِ الـ *** ـکبودِ لأَعظَمُ ما أبتلی
22 - فلولا موازرتی لم تُطَعْ *** ولولا وجودیَ لمْ تُ قَبِل
23 - ولولایَ کنتَ کَمِثْل النساء *** تعافُ الخروجَ من المنزلِ
24 - نصرناک من جَهْلِنا یا ابن هند *** على النبأِ الأعظمِ الأفضلِ
25 - وحیث رفعناک فوقَ الرؤوسِ *** نَزلْنا إلى أسفلِ الأسفَلِ
26 - وکمْ قد سَمِعْنا من المصطفى *** وَصایا مُخصّصةً فی علی
27 - وفی یومِ خُمٍّ رقى منبراً *** یُبلّغُ والرکبُ لم یرحلِ(5)
28 - وفی کفِّهِ کفُّهُ معلناً *** یُنادی بأمرِ العزیزِ العلی
29 - الستُ بکم منکمُ فی النفوسِ *** بأَولى فقالوا بلى فافعلِ
30 - فَأَنْحَلهُ إمرَةَ المؤمنینَ *** من الله مُستخلف المُنحِلِ
31 - وقال فمن کنتُ مولىً لَهُ *** فهذا له الیومَ نعمَ الولی
32 - فوالِ مُوالیهِ یا ذا الجلا *** لِ وعادِ مُعادی أخی المُرْسَلِ
33 - ولا تَنْقضُوا العهدَ من عِترتی ** فقاطِعُهُمْ بیَ لم یُوصِلِ
34 - فَبخْبَخَ شیخُکَ لَمّا رأى *** عُرى عَقْدِ حیدر لم تُحْلَلِ
35 - فقالَ ولیُّکُم فاحفظوهُ *** فَمَدْخَلُهُ فیکمُ مَدْخَلی
36 - وإنّا وما کان من فعلِنا *** لفی النارِ فی الدرَکِ الأسفلِ
37 - وما دَمُ عثمانَ مُنْج لنا *** من الله فی الموقفِ المُخجِلِ
38 - وإنَّ علیّاً غداً خصمُنا *** ویعتزُّ بالله والمرُسَلِ(6)
39 - یُحاسبُنا عن اُمور جَرَتْ *** ونحنُ عن الحقِّ فی مَعْزلِ
40 - فما عُذْرُنا یومَ کشفِ الغطا *** لکَ الویلُ منه غداً ثمّ لی
41 - ألا یا ابن هند أبِعتَ الجِنانَ *** بعهد عهدتَ ولم تُوفِ لی
42 - وأخسرتَ اُخراک کیما تنالَ ** یَسیرَ الحُطامِ من الأجزلِ
43 - وأصبحتَ بالناسِ حتّى استقام *** لک الملکُ من ملِک محولِ
44 - وکنتَ کمُقتنص فی الشراکِ(7) *** تذودُ الظِّماءَ عن المنهلِ
45 - کأنَّکَ اُنسِیتَ لیلَ الهریرِ *** بصفِّینَ مَعْ هولِها المُهْولِ
46 - وقد بتَّ تذرقُ ذَرقَ النعامِ *** حذاراً من البَطَل المُقبلِ
47 - وحین أزاحَ جیوشَ الضلالِ *** وافاک کالأسد المُبسلِ
48 - وقد ضاق منکَ علیکَ الخناقُ *** وصارَ بکَ الرحبُ کالفلفلِ(8)
49 - وقولک یا عمرو أین المفَرُّ *** من الفارسِ القَسْوَرِ المُسبلِ
50 - عسى حیلةٌ منک عن ثنیِهِ *** فإنَّ فؤادیَ فی عسعلِ
51 - وشاطرتنی کلَّ ما یستقیمُ *** من المُلْکِ دهرَکَ لم یکملِ
52 - فقمتُ على عَجْلَتی رافعاً *** وأکشِفُ عن سوأتی أَذْیُلی
53 - فستّرَ عن وجهِهِ وانثنى *** حیاءً وروعُکَ لم یعقلِ
54 - وأنتَ لخوفِکَ من بأسِهِ *** هناک مُلئت من الأفکلِ(9)
55 - ولَمّا ملکتَ حُماة الأنامِ *** ونالتْ عصاک یدَ الأوّلِ
56 - منحتَ لِغیریَ وزنَ الجبالِ *** ولم تُعْطِنی زِنةَ الخردلِ
57 - وأنْحَلْتَ مصراً لعبد الملک(10) *** وأنت عن الغیِّ لم تَعدِلِ
58 - وإن کنتَ تطمعُ فیها فقدْ *** تخلّى القَطا من یَدِ الأجدلِ
59 - وإن لم تسامحْ إلى ردِّها *** فإنّی لحَوبِکمُ مُصطلی
60 - بِخَیْل جیاد وشُمِّ الاُنوفِ *** وبالمُــــرهَفات وبالذبّلِ
61 - وأکشفُ عنک حجابَ الغرورِ *** وأوقظُ نائمةَ الأثکلِ
62 - فإنّک من إمرةِ المؤمنینَ *** ودعوى الخلافةِ فی مَعْزلِ
63 - ومالک فیها ولا ذرّةٌ *** و لا لِجدُودک بالأوّل
64 - فإن کانَ بینکما نِسْبةٌ *** فأینَ الحُسامُ من المِنجلِ
65 - وأین الحصى من نجوم السما *** وأین معاویةُ من علی
66 - فإن کنتَ فیها بلغتَ المُنى *** ففی عُنقی عَلَقُ الجلجلِ(11)
ترجمہ : ۱۔ اے معاویہ میرے بارے اور اپنے کام کے سلسلہ میں نادان نہ بنو اور راہ حق سے ایک قدم بھی دور نہ ہو ۔
۲۔ کیا تو بھول گیا ہے کہ اس روز کس طرح تو نے حکومت کا لباس پہنا تھا اور میں نے دمشق والوں کو کس طرح دھوکا دیا تھا؟!
۳۔ کس طرح گروہ در گروہ سب تیری طرف آگئے اور خوف زدہ گائے کی طرح آہ و زاری اور فریاد کررہے تھے ۔
۴۔ کیا تو بھول گیا کہ میں نے ان سے کہا تھا: تمہار واجب نمازیں معاویہ کے بغیر قابل قبول نہیں ہیں ۔
۵۔ جس کی وجہ سے انہوں نے دین کو چھوڑ دیا اور نمازکی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور ان خوف زدہ لوگوں کو جنگ کے لئے تیار کیا ۔
۶۔ اس وقت کو یاد کرجب تو نے ہدایت شدہ رہبر سے روگردانی کی جب کہ ان کے لشکر میں شجاع اور دلیر انسان موجود تھے ۔
۷۔ تو نے کہا تھا : کیا میںان نامبارک اور برے لوگوں کے ساتھ جو خاموش گائے کی طرح ہیں ، اہل تقوا سے جنگ کرنے کیلئے جاؤں؟!
۸۔ میں نے کہا : جی ہاں ، تیار ہوجاؤ میں ان لوگوں سے ساتھ جن کو خدا نے برتری اور فضیلت عطاء کی ہے ،بہترین کام انجام دوں گا ۔
۹۔ یہ میں تھا جس نے ان لوگوں کو سید الاوصیاء علی (علیہ السلام) سے اس احمق مرد (عثمان) کی خون خواہی کا بدلہ لینے کے لئے بھڑکایا ۔
۱۰۔ یہ میں تھا جس نے تیرے لشکر کو یہ سکھا یا کہ قرآن کریم کو نیزوں پر بلند کردو ۔
۱۱۔ میں نے تیرے لشکر والوں کو سکھایا کہ اپنی عورتین کو کھول دو تاکہ وہ جوان مرد تجھے قتل کرنے سے چشم پوشی کرے ۔
۱۲۔ اس کے بعد ظالم و سمتگر گنہگاروں نے حیدر کے خلاف قیام کیا اور ان لوگوں کو بہترین اور روشن ہدایت سے دور رکھا گیا ۔
۱۳۔ کیا تو بھول گیا ہے کہ میں نے ابوموسی اشعری سے ”دومة الجندل“ میں کس طرح مذاکرہ کیا تھا ۔
۱۴۔ میں بہت ہی نرمی سے بات کرتا ہوں اورسامنے والا میری خیر اندیشی کا لالچ کرتا ہے جب کہ میرے فریب کے تیر اس کے بدن میں چلے جاتے ہیں ۔
۱۵۔ بہت ہی آسانی سے فریب و دھوکے کے ساتھ حیدر کو خلافت سے خلع کردیا (اور خلافت کا لباس علی کے جسم سے اتار لیا) ۔
۱۶۔ اور خلافت کے لباس کو انگوٹھی کی طرح تجھے پہنا دیا ،جب کہ تو خود خلافت سے مایوس تھا ۔
۱۷۔ میں نے تجھے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بلند و بالا منبرپر بغیر جنگ اور تلوار تیز کئے ہوئے بٹھا دیا ۔
۱۸۔ اگر چہ تو اس بلند و بالا مقام کے لایق نہیں تھا ۔
۱۹۔ اہل عراق کے منافقین کے لشکر کو روانہ کیا جس کی مثال ایسی تھی کہ تو نے جنوب وشمال کو اپنے ساتھ کرلیا ہو ۔
۲۰۔ یہ میں تھا جس نے تیرے نام کو دور دراز کے علاقوں تک پہنچایا ۔
۲۱۔ اے جگر خوار ہندکے بیٹے! اگر تومجھے نہیں پہنچانتا تویہ میرے لئے بہت سخت مرحلہ ہے ۔
۲۲۔ اگر میں تیرے وزیر اور مشاور نہ ہوتا تو کبھی بھی لوگ تیری اطاعت نہ کرتے اور میرے بغیر وہ کبھی بھی تجھے قبول نہ کرتے ۔
۲۳۔ اگر میں نہ ہوتا تو تو عورتوں کی طرح گھر میں بیٹھا رہتا اورگھر سے باہر نہ نکلتا ۔
۲۴۔ اے ہند کے بیٹے ! ہم نے نادانی کی وجہ سے نباء عظیم اور بہترین انسانوں کے مقابلہ میں تیری مدد کی ۔
۲۵۔ اور جب ہم نے تجھے لوگوں کے سروں اور بلند و بالا مقام پر بٹھا دیا تو ہم خود بہت ہی نیچے کے درجوں میں پست ہوگئے اور اسفل السافلین میں پہنچ گئے ۔
۲۶۔ جب کہ ہم نے حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے علی (علیہ السلام) کے بہت سے فضائل وکمالات سنے تھے ۔
۲۷۔ جس روز پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) غدیر خم میں منبر پر گئے اور خدا کے حکم کو لوگوں تک پہنچایا اس وقت تک کوئی بھی قافلہ اپنے گھر نہیں پہنچا تھا ۔
۲۸۔ انہوں نے علی (علیہ السلام) کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا اور سب کو دکھاکر بلند آواز سے خدا کے حکم کو لوگوں تک پہنچایا ۔
۲۹۔ اے لوگو! کیا میں تمہارے اوپر تم سے زیادہ سزاوار نہیں ہوں (اورتمہارے اوپر ولایت مطلقہ نہیں رکھتا ہوں)؟ سب نے کہا : جی ہاں، آپ جو چاہیں انجام دیں ۔
۳۰۔ انہوں نے خداوند عالم کی طرف سے لوگوں پر حکومت کو امیر المومنین علی (علیہ السلام) سے مخصوص کی اور صرف وہی اپنی خلافت کو جس کو چاہے دے سکتا ہے ۔
۳۱۔ فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، آج سے اس کے یہ علی (علیہ السلام) مولا ہیں ۔
۳۲۔ اس کے بعد دعا کی : اے خدائے ذوالجلال ! اس کے چاہنے والوں کو دوست رکھ اور اپنے پیغمبر کے بھائی کے دشمنوں سے دشمنی کر۔
۳۳۔ اے لوگو ! میری عترت کے متعلق تم نے جو عہد و پیمان باندھا ہے اس کو توڑنا نہیں کیہوں کہ جو بھی ان کی پیروی سے دور ہوگا وقت قیامت کے روز مجھ تک نہیں پہنچ سکے گا ۔
۳۴۔ پھر تیرے استاد (ابوبکر) نے جب یہ دیکھا کہ حیدر کی ولایت اورزعامت کے پیمان کی مضبوط گرہ کھل نہیں سکتی تو بخ بخ کے ذریعہ آپ کو تبریک کہی ۔
۳۵۔ رسول خدا نے فرمایا : علی تمہارے ولی ہیں، اور تمہارے اوپر واجب ہے کہ تم ان کی حفاظت کرو اور جس طرح مجھ سے سلوک کرتے تھے اسی طرح ان سے ملنا ۔
۳۶۔ ہم اپنے اعمال و کردا ر کی وجہ سے جہنم کے سب سے آخری درجہ میں جائیں گے ۔
۳۷۔ کل قیامت کے روز (جو کہ ہماری شرمندگی کا دن ہے) عثمان کا خون ہمیںنجات نہیں دے گا ۔
۳۸۔ قیامت میں علی (علیہ السلام) خد ا اور رسول کی وجہ سے عزت کے آخری درجہ پر ہوں گے اور اس روز وہ ہمارے دشمن ہوں گے ۔
۳۹۔ اس وقت خداوند عالم ان تمام واقعات کا حساب لے گا جو رونما ہوئے اور ان واقعات میں ہم حق سے دور ہو کر باطل کی طرف چلے گئے تھے ۔
۴۰۔ اس روز حقیقت کے چہرہ سے نقاب اٹھ جائے گا ہمارے پاس کوئی بہانہ نہیں ہوگا ، وائے ہو ہم پر اس روز کیا ہوگا؟
۴۱۔ اے ہند کے بیٹے ! تو نے جو میرے ساتھ عہد و پیمان کیا تھا اور اس پر عمل نہیں کیا اور بہشت کو بیچ دیا ۔
۴۲۔ آخرت کی بی شمار نعمتوں کے مقابلے میں دنیا کے ناچیز مال تک پہنچنے کے لئے تو نے آخرت کو کھو دیا ۔
۴۳۔ صبح کو تو نے دیکھا کہ لوگ تیرے ارد گرد جمع ہیں اور حکومت تیرے لئے آمادہ ہے ،ایسی حکومت جو دوسرے سے تجھ تک پہنچی ہے یہ حکومت پایدار نہیں ہے ۔
۴۴۔ تیری مثال ایسے شکاری کی طرح ہے جو جال پھینکتا ہے اور انسانوں کو دھوکا دیتا ہے اور پیاسے لوگوں کو پانی کی نہر سے دور کرتا ہے ۔
۴۵۔ گویا تو نے جنگ صفین کی اس ترسناک ”لیلة الحریر“ کو فراموش کردیا ۔
۴۶۔ اس روز تو اس قدر کمزور ہوگیاتھا کہ شجاع اور دلیر مرد کے خوف کی وجہ سے شتر مرغ کی طرح تیرا پاجامہ خراب ہوگیا تھا ۔
۴۷۔ جس وقت تو نے اپنے گمراہ لشکر کو منتشر کیا تو اس طرح ڈر رہا تھا جس طرح ویران گر شیر تجھے ہلاک کردے گا ۔
۴۸۔ تو بہت مشکلات میں گرفتار تھا اور بہت بڑا میدان تجھے بہت چھوٹا دکھائی دے رہا تھا ۔
۴۹۔ تو نے مجھ سے کہا اے عمرو!طاقت ور جنگجو کے چنگال سے کہاں فرار کریں ۔
۵۰۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ اے عمرو تو ان کے حملوں کے مقابلہ میں کسی حیلہ سے کام لے ، کوئی کام کر میرا دل پریشان ہے ۔
۵۱۔ اس وقت جب تیری حکومت کامل نہیں ہوئی تھی تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ تجھے جو عہدہ و مقام ملے گا اس میں سے آدھا مجھے دے ۔
۵۲۔ میں بھی جلدی سے اٹھا اور امیر المومنین علی (علیہ السلام) کے سامنے اپنے لباس کو اتار دیا اور اپنی شرمگاہ کو ظاہر کردیا ۔
۵۳۔ ان کی شرم نے تقاضا کیا کہ اپنے چہرہ کو چھپا لیں اور مجھے قتل نہ کریں، یہ ایسی چیز ہے جس تک تیری عقل نہیں پہنچ سکتی ۔
۵۴۔ لیکن تو دلیر و شجاع مرد کے خوف سے بید کی طرح کانپ رہا تھا ۔
۵۵۔ جب لوگوں کے اوپر تجھے حکومت مل گئی اور حکومت کا عصا تیرے ہاتھ میں آگیا ۔
۵۶۔ تو تو نے دوسروں کو مال و جاہ و حشم سے نوازا لیکن مجھے ایک دانہ کے برابربھی کچھ نہیں دیا ۔
۵۷۔ مصر کی حکومت عبدالملک کو بخش دی اور اس طرح تو نے مجھ پر ظلم کیا ۔
۵۸۔ اگر چہ تجھے اس (حکومت مصر) کا لالچ تھا لیکن یہ جان لے کہ پتھر کھانے والے مرغ ، شاہین کے چنگل سے نکل گیا (اور یہ حکومت تیرے ہاتھ سے نکل گئی) ۔
۵۹۔ اگر مصر کی حکومت کی خیرخواہی اور اس کے خراج سے در گذر نہیں کرے گا تو میں جنگ کے لئے آمادہ اور تجھے خوف و ہراس میں ڈالنے کو تیار ہوں ۔
۶۰۔ فوج و لشکر ، تیز تلوار اور بلند نیزوں کے ساتھ تیار ہوں ۔
۶۱۔ میں تیرے غرور کے پردہ کو چاک چاک کردوںگا اور سوئے ہوئے داغداروں (وہ یتیم جن کے والد تیری وجہ سے قتل ہوئے) کو بیدار کردوں گا (اور ان کو تیرے خلاف بھڑکاؤں گا) ۔
۶۲۔ تو مومنین کی اوپر حکومت اور خلافت سے بہت دور ہے ۔
۶۳۔ حکومت میں تیرا ایک ذرہ کے برابر بھی حق نہیں ہے اور تجھ سے قبل تیرے آباؤ اجداد کو بھی یہ حق نہیں تھا ۔
۶۴۔ اے معاویہ ! تیرے اور علی (علیہ السلام) کے درمیان کیا نسبت ہوسکتی ہے؟ ! علی (علیہ السلام) ایک تیز اور قتل کرنے والی تلوار ہیں اور تو ایک زنگ زدہ درانتی کی طرح ہے ۔
۶۵۔ علی (علیہ السلام ) جو کہ آسمان کے ستارہ ہیں کہاں ، اور تو ایک ریت کے علاوہ کچھ نہیں ہے تو کہاں ۔
۶۶۔ اے معاویہ ! اگر حکومت کے کاموں میں تو اپنی آرزو تک پہنچا ہے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ رسوائی کی گھنٹی میرے میں گلے میں بندھی تھی (اور یہ جان لے کہ میرے گلے میں ایسی گھنٹی ہے کہ اگر میں اپنی گردن کو ہلاؤں گا تو یہ گھنٹی بجنے لگے گی) ۔
اشعار کی وضاحت:
یہ قصیدہ جو قصیدہ جلجلیہ (۱۲) کے نام سے مشہور ہے یہ اس خط کا مضمون ہے جس کو عمرو عاص نے معاویہ بن ابی سفیان کو لکھا تھا ، اس نے یہ خط معاویہ کے خط کے جواب میں لکھا تھا جس میں معاویہ نے اس سے مصر کا خراج مانگا تھا اور اس کو خراج ادا نہ کرنے کی وجہ سے سرزنش کی تھی ۔
ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح (۱۳) میں اس قصیدہ کے بعض اشعار کو بیان کیا ہے ۔
اسحاقی نے ”لطائف اخبار الدول“ (۱۴) میں کہا ہے :
معاویہ نے ایک خط میں عمرو بن عاص کو لکھا: میں نے متعدد بار مصر کے خراج سے متعلق تجھے خطوط لکھے ہیں، لیکن تو نے خراج سے دینے سے انکار کیا ہے میں آخری بار تاکید کے ساتھ کہتا ہوں مصر کے خراج کو میرے لئے ارسال کردے ، والسلام۔عمروعاص نے بھی اس کے خط کے جواب میں خط لکھا جو قصیدہ جلجلیہ کے نام سے مشہور ہے اور اس کے دو شعر یہ ہیں :
و ان کام بینکما نسبة فاین الحسام من المنجل
واین الثریا و این الثری و این معاویہ من علی
اے معاویہ ! تیرے اور علی (علیہ السلام) کے درمیان کیا نسبت ہوسکتی ہے؟ ! علی (علیہ السلام) ایک تیز اور قتل کرنے والی تلوار ہیں اور تو ایک زنگ زدہ درانتی کی طرح ہے ۔
علی (علیہ السلام ) جو کہ آسمان کے ستارہ ہیں کہاں ، اور تو ایک ریت کے علاوہ کچھ نہیں ہے تو کہاں ۔
جس وقت معاویہ نے ان اشعار کو سنا تو پھر کبھی اس سے مصر کا خراج نہیں مانگا ۔
زنوزی نے اپنی کتا کے دوسرے روضہ ”ریاض الجنة“ میں اس پورے قصیدہ کوذکر کیا ہے اور کہا ہے :
یہ قصیدہ آخری شعر کی مناسبت ” وفی عنقی علق الجلجل“ سے قصیدہ جلجلیہ کے نام سے مشہور ہوا ہے ۔
( یَقُولُونَ بِاٴَفْواہِہِمْ ما لَیْسَ فی قُلُوبِہِمْ وَ اللَّہُ اٴَعْلَمُ بِما یَکْتُمُونَ)(۱۵) ۔
زبان سے وہ کہتے ہیں جو دل میں نہیں ہوتا اور اللہ ان کے پوشیدہ امور سے باخبر ہے (۱۶) ۔
۱۔ جلق : شہر دمشق۔
۲۔ اھرع : بہت جلدی چلا گیا ۔ الھلع : نالہ و فریاد۔ الجفل : بھاگنا، بیزار ہونا ۔
۳۔ القسطل : جنگ میں اڑنے والی گرد و غبار۔
۴۔ طل الدم : خون رایگان گیا اور کسی نے اس کا بدلہ نہیں لیا ، اس خون کو طلیل، مطلول اور مطل کہتے ہیں ۔
۵۔ بعض نسخوں میں دوسرے مصرعہ کی جگہ یہ عبارت ”وبلغ والصحب لم ترحل“ (اس نے ابلاغ کیا جب کہ اس کے ساتھی نہیں گئے تھے) نقل ہوئی ہے ۔
۶۔ خطیب تبریزی کی روایت میں دوسرے مصرعہ کی جگہ یہ عبارت ”سیحتج باللہ والمرسل“ (خدا و رسول اکرم کی وجہ سے ہم پر دلیل و برہان اقامہ کرتے تھے) بیان ہوئی ہے ۔
۷۔ اقتنص الطیر او الظبی : اس کو واضح کیا ۔
۸۔ الفلفل : قدموں کے درمیان نزدیک ہونا ۔
۹۔ الافکل : خوف کی وجہ سے حاصل ہونے والی لرزش۔
۱۰۔ عبدالملک بن مروان ،اموی خلفاء کا باپ۔
۱۱۔ عربی میں ایک محاورہ ہے اس شخص کے لئے جو اپنے آپ کو رسوا کرتا ہے اور لوگوں کے درمیان اپنی جان کو خطرہ میں ڈالتا ہے ۔ عمرو عاص نے معاویہ سے کہا : میں نے اپنے آپ کو ذلیل کیا اور تیری حکومت کی وجہ سے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالا اور تیرے حکومت تک پہنچنے کے لئے میں نے کسی کام سے دریغ نہیں کیا ۔ رجوع کریں، مجمع الامثال ، میدانی : ۱۹۵(۳/۲۰۹، شمارہ ۳۶۹۴) ۔
۱۲۔ جلجل کے معنی گھنٹی کے ہیں ۔ عمروعاص کی مراد یہ ہے کہ تیری حکومت کی وجہ سے مجھے بہت زیادہ ذلت اور زحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ یا کہنا چاہتاہے کہ میں نے تجھے یہاں تک پہنچا دیا لہذا اگر تو مجھ سے لڑنا چاہے گا تو میں اس گھنٹی کو اس طرح بجادوں گا کہ تیری رسوائی ہوجائے گی ۔
۱۳۔ شرح نہج البلاغہ ، ج۲، ص ۵۲۲ (خطبہ ۱۰/۵۶، خطبہ ۱۷۸) ۔
۱۴۔ لطائف اخبار الدول : ۴۱، ص ۶۱۔
۱۵۔ سورہ آل عمران ، آیت ۱۶۷۔
۱۶۔ شفیعی مازندرانی ، گزیدہ ای جامع از الغدیر ، ص ۱۶۵۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.