مختصر جواب:
مفصل جواب:
سوال :امیر المومنین علی (علیہ السلام) نے اپنے خط میں عمروعاص کی کس طرح تعریف کی ہے؟
جواب : ابوحیان توحیدی نے کتاب ”الامتاع والموانسة“ (۱) میں روایت کی ہے کہ شعبی نے اس طرح نقل کیا ہے :
عمروعاص نے حضرت علی (علیہ السلام) کا تذکرہ کیا اور کہا : وہ بہت زیادہ مذاق کرتے ہیں ، جب یہ بات حضرت علی (علیہ السلام) کے پاس پہنچی تو آپ نے فرمایا : ”زعم ابن النابغة انی تلعابة، تمراحة، ذو دعابة، اعافس، و امارس،ھیھات یمنع من العفاس والمراس (۲) ذکر المومت و خوف البعث والحساب، ومن کان لہ قلب ، ففی ھذا من ھذا لہ واعظ وزاجر۔ اما و شرالقول الکذب، انہ لیعد فیخلف، و یحدث فیکذب۔ فاذا کان یوم الباس فانہ زاجر و آمر ما لم تاخذ السیوف بھام الرجال، فاذا کان ذاک فاعظم فی مکیدتہ فی نفسہ ان یمنح القوم استہ“ (۳) ۔ (نابغہ کا بیٹا خیال کرتا ہے کہ میں عیش و عشرت ،مذاق اور کھلواڑ کرتا ہوں اور بیہودہ اپنی عمر کو تباہ کررہا ہوں، موت کی یاد، محشر اور حساب کا خوف انسان کو فساد او ربیہودگی سے منع کرتا ہے ، اگر کسی کا دل سالم ہو تو یہ سب کام اس کو نصیحت کرتے ہیں اور اس کو ان تمام کاموں سے منع کرتے ہیں ، یقینا جھوٹ بدترین قول ہے اور یقینا عمروبن عاص وعدے کرتا ہے اور پھر وفا نہیں کرتا اور باتیں کرتے وقت جھوتی باتیں گڑھتا ہے ، جس وقت تک تلواریں انسان کے جسم کو زخمی نہیں کرتی وہ امر و نہی کرتا رہتا ہے ، لیکن جب جنگ شروع ہوتی ہے تو بہت بڑی چالاکی کے ساتھ اپنی جان کو نجات دینے کے لئے اپنے نیچے کا حصہ لوگوں کے لئے کھول دیتا ہے) ۔
امیر المومنین نے اپنے خطبوں میں اس شخص کے لئے بہت سے جملہ بیان کئے ہیں ، جیسے آپ نے فرمایا : ” قد سار الی مصر ابن النابغة عدواللہ ، و ولی من عادی اللہ“ (نابغہ کا بیٹا ، خدا کا دشمن ہے اور خدا کے دشمن کا مددگار مصر کی طرف گیا ہے) ۔ ”ان مصر افتتحھا الفجرة اولو الجور والظلم الذین صدوا عن سبیل اللہ، و بغوا الاسلام عوجا“۔ (۴) ۔(۵) ۔
۱۔ مراجعہ کریں : الامتاع والمؤانسة 3: 183; و نهج البلاغه 1: 145 (ص 115، خطبه 84).
۲۔ «عِفاس»: فساد. «مراس»: مزاخ، کھیل اور بہودگی ۔
۳۔ سید رضی نے نہج البلاغہ میں 1: 145 (ص 115، خطبه 84) اس کو دوسری طرح سے نقل کیا ہے ۔
۴۔ تاریخ طبرى 6: 61 و62 (5/107 و108، حوادث سال 38 هـ ق).
۵۔ شفیعی مازندرانی / گزیده اى جامع از الغدیر، ص 173.
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.