مختصر جواب:
مفصل جواب:
سوال : حضرت علی (علیہ السلام) نے عمروعاص کی مذمت میں کیا فرمایا ہے ؟
جواب : ”من عبداللہ علی امیرالمومنین الی الابتر ابن الابتر، عمروبن العاص بن وائل، شانئی محمد و آل محمد فی الجاھلیة والاسلام۔ سلام علی من اتبع الھدی ۔ اما بعد : فانک ترکت مروئتک لا مری فاسق مھتوک سترہ، یشین الکریم بمجلسہ ،و یسفہ الحلیم بخلطتہ، فصار قلبک لقلبہ تعبا، کما قیل: وافق شن طبقة، فسلبک دینک، و امانتک و دنیاک ، و آخرتک ، کان علم اللہ بالغا فیک، فصرت کالذئب یتبع الضرغام اذا مااللیل دجا، او اتی الصبح، یلتمس فاضل سورہ، و حوایا فریستہ، و لکن لا نجاة من القدر، و لو بالحق اخذت لادرکت ما رجوت، و قد رشد من کان الحق قائدہ، فان یمکن اللہ منک و من ابن آکلة الاکباد،الحقتکما بمن قتلہ اللہ من ظلمة قریش علی عھد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)، و ان تعجزا و تبقیا بعدی، فاللہ حسبکما ، و کفی بانتقامہ انتقاما،و بعقابہ عقابا ۔ والسلام “ ۔ خدا کے بندہ علی امیر المومنین کی طرف سے نسل بریدہ کے بیٹے نسل بریدہ عمرو بن عاص بن وائل ،جاہلیت اور اسلام میں محمد و آل محمد کے دشمن کے نام۔ سلام اس شخص پر جس نے ہدایت الہی کی پیروی کی ۔ اما بعد ۔ تو نے ایک فاسق و فاجر شخص کی وجہ سے اپنی مردانگی اور مروت کو ختم کردیا ہے ،نیک اور کریم ا نسان بھی اس کے ساتھ ہم نشینی کرنے سے بدنام ہوجاتا ہے، اس کی مجلس میں بیٹھنے سے ذہین اور بردبار انسان کا شمار احمقوں میں ہونے لگتا ہے ، بہر حال تیری فکر اور تیرا دل اس کا مطیع ہوگیا ہے ، اس نے تیرے دین، تیری امانت اور تیری دنیا و آخرت کو تجھ سے چھین لیا ہے ، اگر چہ خداوند عالم روز اول ہی سے تیری بدکاری اور غلط کاموں کوجانتا تھا ، تو ایسا بھیڑیا ہوگیا ہے جو اندھیری رات اور دن میں شیر کے پیچھے چلتا ہے تاکہ اس کی باقی بچی ہوئی غذا یا شکار سے اپنا پیٹ بھر سکے ، لیکن یہ جان لے کہ الہی تقدیر سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے ، اگر تو حق کی پیروی کرتا توتیری تمنائیں پوری ہوجاتیں،کیونکہ جس کا رہبر حق ہو وہ راہ راست کی طرف ہدایت حاصل کرلیتا ہے ۔ اگر میں ، تجھے اور جگر خوار ہندہ کے بیٹے معاویہ کو پکڑ لوں تو تم دونوں کو قریش کے ان ظالموں اور کافروں سے ملحق کردوں گا جن کو خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں قتل کیا تھا ۔ اور اگر ایسا نہ ہو ااور میرے بعد زندہ رہے تو خدا تم سے بدلہ لے گا اور خداوند عالم کا انتقام و عقاب تمہارے لئے کافی ہے ۔
نکتہ : ابن ابی الحدید (۱)نے مذکورہ خط کو بعینہ ”نہج البلاغہ کی شرح“ (۲)میں نصر بن مزاحم کی کتاب ”صفین“ سے نقل کیا ہے ، لیکن اس کتاب میں ہمیں یہ خط نہیں ملا ، اسی طرح اگر کوئی اکثر جگہوں پر جہاں ابن ابی الحدید نے اس کتاب سے نقل کیا ہے ، غور وفکر کرے تو وہ سمجھ جائے گا کہ جو کچھ ابن ابی الحدید نے اس کتاب سے نقل کیا ہے اس سب کو حذف کردیا گیا ہے اور اب یہ کتاب وہ اصل کتاب نہیں رہ گئی بلکہ اس کا خلاصہ باقی رہ گیا ہے (۳) ۔
۱۔ ڈاکٹر احمد زکی صفوت نے اس خط کو کتاب ”جمہرة الرسائل“ میں ابن ابی الحدید سے نقل کیا ہے ۔
۲۔ شرح نہج البلاغہ، ج ۴، ص ۶۱۔
۳۔ شفیعی مازندرانی ، گزیدہ ای جامع از الغدیر، ص ۱۷۳۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.