مختصر جواب:
مفصل جواب:
اس مھم سوال کے جواب میں دقتّ اور جستجو کرنا چاہیے اور وہ اس طرح سے ہے کہ
آزمائش اور امتحان کا مفہوم خدا کے بارے میں اس مفہوم سے بہت مختلف ہے جو ہمارے در میان مروج ہے۔ ہماری آزمائشوں کا مقصود وہی ہے جو اوپر بیان کیاجاچکاہے یعنی مزید معلومات حاصل کرنا اور ابہام و جہل کو دور کرنا لیکن خدا کی آزمائش در حقیقت پرورش و تربیت ہی کا دوسرا نام ہے جس کی وضاحت یوں ہے کہ قرآن میں بیس سے زیادہ مقامات پر امتحان کی نسبت خدا تعالی کی طرف دی گئی ہے۔ یہ ایک قانون کلی ہے اور پروردگار کی دائمی سنت ہے کہ وہ پوشیدہ صلاحیتوں کو ظاہر کرتاہے (جسے قوت سے فعل تک پہنچنے کا عمل کہتے ہیں)۔ وہ بندوں کو تربیت دینے کے لئے آزماتاہے جیسے فولاد کو زیادہ مضبوط بنانے کے لئے بھٹی میں ڈالا جاتاہے۔ اصطلاح میں اسے آب دینا کہتے ہیں اسی طرح خدا تعالی آدمی کو شدید حوادث کی بھٹی میں پرورش و تربیت کے لئے ڈالتاہے اور اسے مشکلات کا مقابلہ کرنے لئے تیار کرتاہے۔
در اصل خدا کا امتحان اس تجربہ کا باغبان کی مانند ہے جو مستعد دانوں کو تیار زمینوں میں ڈالتاہے۔ یہ دانے طبیعی عطیات سے استفادہ کرتے ہوئے نشو و نما پاتے ہیں اور آہستہ آہستہ مشکلات کا مقابلہ کرتے ہیں، حوادث سے بر سر پیکار رہتے ہیں اور سخت طوفان، کمر توڑ سردی اور جلادینے والی گرمی کے سامنے کھڑے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی شاخوں پر خوبصورت پھول کھلتے ہیں یا وہ تنومند اور پر ثمر درخت بن جاتے ہیں۔
فوجی جوانوں کو جنگی نقطہ نظر سے طاقت و ربنا نے کے لئے مصنوعی جنگی مشقیں کرائی جاتی ہیں اور انہیں طرح طرح کی مشکلات بھوک، پیاس ، گرمی، سردی، دشوار حوادث اور سخت مسائل سے گزاراجاتاہے تاکہ وہ قومی اور پختہ کار ہوجائیں۔ خدا کی آزمائشوں کی رمز بھی یہی ہے۔
قرآن مجید ایک مقام پراس حقیقت کی تصریح کرتے ہوئے کہتاہے:
وَلِیَبْتَلِیَ اللهُ مَا فِی صُدُورِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِی قُلُوبِکُمْ وَاللهُ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِة
جو تمہارے سینوں میں ہے خدا اس کی آزمائش کرتاہے تا کہ تمہارے دل مکمل طور پر خالص ہوجائیں اور وہ تمہارے سب اندرونی رازوں سے واقف ہے۔ (آل عمران۔ ۱۵۴)
حضرت امیر المؤمنین علی نے امتحانات الہی کی بڑی پر مغز تعریف فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
و ان کان سبحانہ اعلم بہم من انفسہم و لکن لتظہر الافعال التی بہا یستحق الثواب و العقاب
اگر چہ بندوں کی نفسیات خود ان سے زیادہ جانتاہے۔ پھر بھی انہیں آزماتاہے تا کہ اچھے اور برے کا م ظاہر ہوں جو جزا و سزا کا معیار ہیں۔
یعنی انسان کی اندرونی صفات ہی ثواب و عقاب کا معیار نہیں جب تک کہ وہ انسان کے عمل و کردار سے ظاہر نہ ہوں۔ خدا اپنے بندوں کو آزماتاہے تا کہ جو کچھ ان کی ذات میں پنہاں ہے وہ عمل میں آجائے اور استعداد، قوت سے فعل تک پہنچ جائے اور یوں وہ جزا یا سزا کا مستحق ہوجائے۔ اگر خدا کی آزمائش نہ ہوتی تو یہ استعدادیں ظاہر نہ ہوتیں اور انسانی شجر کی شاخوں پر اعمال کے پھل نہ اُگتے۔ اسلامی منطق میں یہی خدائی آزمائش کا فلسفہ ہے۔
آزمائش اور امتحان کا مفہوم خدا کے بارے میں اس مفہوم سے بہت مختلف ہے جو ہمارے در میان مروج ہے۔ ہماری آزمائشوں کا مقصود وہی ہے جو اوپر بیان کیاجاچکاہے یعنی مزید معلومات حاصل کرنا اور ابہام و جہل کو دور کرنا لیکن خدا کی آزمائش در حقیقت پرورش و تربیت ہی کا دوسرا نام ہے جس کی وضاحت یوں ہے کہ قرآن میں بیس سے زیادہ مقامات پر امتحان کی نسبت خدا تعالی کی طرف دی گئی ہے۔ یہ ایک قانون کلی ہے اور پروردگار کی دائمی سنت ہے کہ وہ پوشیدہ صلاحیتوں کو ظاہر کرتاہے (جسے قوت سے فعل تک پہنچنے کا عمل کہتے ہیں)۔ وہ بندوں کو تربیت دینے کے لئے آزماتاہے جیسے فولاد کو زیادہ مضبوط بنانے کے لئے بھٹی میں ڈالا جاتاہے۔ اصطلاح میں اسے آب دینا کہتے ہیں اسی طرح خدا تعالی آدمی کو شدید حوادث کی بھٹی میں پرورش و تربیت کے لئے ڈالتاہے اور اسے مشکلات کا مقابلہ کرنے لئے تیار کرتاہے۔
در اصل خدا کا امتحان اس تجربہ کا باغبان کی مانند ہے جو مستعد دانوں کو تیار زمینوں میں ڈالتاہے۔ یہ دانے طبیعی عطیات سے استفادہ کرتے ہوئے نشو و نما پاتے ہیں اور آہستہ آہستہ مشکلات کا مقابلہ کرتے ہیں، حوادث سے بر سر پیکار رہتے ہیں اور سخت طوفان، کمر توڑ سردی اور جلادینے والی گرمی کے سامنے کھڑے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی شاخوں پر خوبصورت پھول کھلتے ہیں یا وہ تنومند اور پر ثمر درخت بن جاتے ہیں۔
فوجی جوانوں کو جنگی نقطہ نظر سے طاقت و ربنا نے کے لئے مصنوعی جنگی مشقیں کرائی جاتی ہیں اور انہیں طرح طرح کی مشکلات بھوک، پیاس ، گرمی، سردی، دشوار حوادث اور سخت مسائل سے گزاراجاتاہے تاکہ وہ قومی اور پختہ کار ہوجائیں۔ خدا کی آزمائشوں کی رمز بھی یہی ہے۔
قرآن مجید ایک مقام پراس حقیقت کی تصریح کرتے ہوئے کہتاہے:
وَلِیَبْتَلِیَ اللهُ مَا فِی صُدُورِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِی قُلُوبِکُمْ وَاللهُ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِة
جو تمہارے سینوں میں ہے خدا اس کی آزمائش کرتاہے تا کہ تمہارے دل مکمل طور پر خالص ہوجائیں اور وہ تمہارے سب اندرونی رازوں سے واقف ہے۔ (آل عمران۔ ۱۵۴)
حضرت امیر المؤمنین علی نے امتحانات الہی کی بڑی پر مغز تعریف فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
و ان کان سبحانہ اعلم بہم من انفسہم و لکن لتظہر الافعال التی بہا یستحق الثواب و العقاب
اگر چہ بندوں کی نفسیات خود ان سے زیادہ جانتاہے۔ پھر بھی انہیں آزماتاہے تا کہ اچھے اور برے کا م ظاہر ہوں جو جزا و سزا کا معیار ہیں۔
یعنی انسان کی اندرونی صفات ہی ثواب و عقاب کا معیار نہیں جب تک کہ وہ انسان کے عمل و کردار سے ظاہر نہ ہوں۔ خدا اپنے بندوں کو آزماتاہے تا کہ جو کچھ ان کی ذات میں پنہاں ہے وہ عمل میں آجائے اور استعداد، قوت سے فعل تک پہنچ جائے اور یوں وہ جزا یا سزا کا مستحق ہوجائے۔ اگر خدا کی آزمائش نہ ہوتی تو یہ استعدادیں ظاہر نہ ہوتیں اور انسانی شجر کی شاخوں پر اعمال کے پھل نہ اُگتے۔ اسلامی منطق میں یہی خدائی آزمائش کا فلسفہ ہے۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.