مختصر جواب:
مفصل جواب:
یعنی وہ ذات یگانہ اور تنہا ہے اور تمام صفات کمال کی جامع ہے وہی عالم ہستی کو پیدا کرنے والی ہے لہٰذا عالم وجود میں کوئی اسکے علاوہ پرستش کے لائق نہیں ہے لا الہ الا اللہ اس ارشاد میں قرآن خلاّق عالم کی وحدت و یگانگی کو جو اسلام کی بنیاد ہے بیان کرتا ہے لیکن جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے لفظ ”اللہ“ میں بھی یہ حقیقت پوشیدہ ہے اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ لا الہ الا اللہ اس حقیہقت کی تاکید ہے
حیّ“کا معنی ہے زندہ اور یہ لفظ ہر صفت مشبہ کی طرح دوام و ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے خدا کی حیات حقیقی کیونکہ اسکی حیات عین ذات ہے نہ کہ عارضی یا کسی دوسرے سے لی ہوئی سورہ ٴ فرقان آیہ ۵۸میں ہے
"وتوکّل علیٰ الحیّ الذی لا یموت “ایک یہ پہلو ہے اور دوسرا حیات یہ ہے کہ حیات کامل وہ زندگی ہے جس میں موت کا تصور نہ ہو اس لئے حقیقی حیات اسی کی ہے جو ازل تا باد قائم و دائم ہے رہی انسان کی زندگی خصوصاً اس جہان میں جہاں موت بھی ہے ،یہ حقیہقی حیات نہیں ہو سکتی اسی لئے سورہ ٴ عنکبوت کی آیت ۶۴میں ہماری نظر سے یہ عبارت گذرتی ہے
"ووما ھٰذہ الحیاة الدّنیا الاّ لھو و لعب و ان الدار الآخرہ لھی الحیوان "
اس جہان کی زندگی لھو و لعب کے سوا کچھ نہیں ہے ( ایک لحاظ سے )حقیقی زندگی تو دار آخرت کی زندگی ہے
ان دو وجوہ کی بناء پر حقیقی زندگی خدا ہی کے لئے مخصوص ہے
خدا کے زندہ ہونے کا مفہوم
عام طور پر موجود زندہ اس چیز کو کہتے ہیں جو نمو ، تغزیہ ، تولید مثل ،جذب و دفع اور کبھی کبھی حس و حرکت رکھتی ہو لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ رہے کہ ممکن ہے کوتاہ نظر افراد خدا کے بارے میں بھی ایسی ہی حیات سمجھتے ہوں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ میں ایسی کوئی صفت موجود نہیں یہی قیاس انسان کو خدا شناسی کے بارے میں اشتباہ میں مبتلاء کر دیتا ہے کیونکہ وہ خدا کی صفات کو اپنی صفات پر قیاس کرنے لگتا ہے حیاے اپنے وسیع اور واقعی معنی کے لحاظ سے علم و قدرت سے عبارت ہے لہٰذا جو وجود لا متناہی علم وقدرت کا حامل ہے وہ حیات کامل رکھتا ہے خدا کی حیات اسکے علم وقدرت کا مجموعہ ہے اور در حقیقت علم و قدرت ہی کے ذریعے موجود زندہ اور غیر زندہ میں امتیاز کیا جا سکتا ہے رہا نمو ،حرکت تغذیہ، تولید مثلاور حرکت تو یہ ناق ص اور محدود موجودات کے آثار ہیں اور یہ آثار نقائص پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ غزا ،تولید مثل اور حرکت در اصل کسی نہ کسی کمی کو پورا کرنے کے لیے ہوتی ہے لیکن وہ ذات جس میں کوئی قص اور کمی نہیں اس میں یہ امور نہیں پاے ٴ جاتے
القیوم
"قیوم “مبالغہ کا صیغہ ہے اسکا مادہ ”قیام“ہے اسی بناء پر اسکا معنی ہے وہ وجود جسکا قیام اپنی ذات کے ساتھ ہے اور تمام موجودات کا قیام اسکے ساتھ دوسرے لفظوں میں عالم ہستی کے تمام موجودات اسی کے بھروسے اور سہارے پر قائم ہیں
(۱)مزید وضاحت کے لئے کتاب جستجوے ٴ خدا کی طرف رجوع فرمائیں
واضح ہے کہ قیام کا معنی کھڑا ہونا روز مرّہ میں یہ لفظ اسی مخسوص ہیئت و کیفیت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اس معنی کا خدا کے لئے کوئی مفہوم نہیں کیونکہ وہ جسم اور صفات جسمانی سے منزہ ہے اسا لئے اس سے مراد تخلیق ، تدبیر اور نگہداری کے لئے قیام کرنا ہے صرف وہی ذات ہے جس نے تمام موجودات کو پیدا کیا ہے اور اسی نے انکی نگہداری و تربیت اپنے ذمہ لے رکھی ہے وہ کبھی اس کی انجام دہی میں غفلت نہیں کرتا اور وہ ہمیشہ سے بغیر کسی وقفے کے ان امور کو انجام دینے کے لئے قیام کئے ہو ےٴ ہے
اس بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ قیوم حقیقت میں تمام صفات ِفعل کی بنیاد ہے صفات فعل سے مراد وہ صفات ہیں جو کسی موجود سے خدا کے ارتباط کو بیان کرتی ہیں ، مثلاً پیدا کرنے والا ، روزی دینے والا زندہ کرنے والا ہدایت کرنے والا وغیرہ
موجودات عالم کی خلقت و تدبیر کے لئے قیام کرنے میں یہ تمام امور شامل ہیں وہی جو روزی دیتا ہے جو زندہ کرتا ہے وہی ہے جو مارتا ہے وہی ہے جو ہدایت کرتا ہے اس لئے خالق، رازق اور محی وغیرہ صفات سب قیوم میں جمع ہیں
حیّ“کا معنی ہے زندہ اور یہ لفظ ہر صفت مشبہ کی طرح دوام و ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے خدا کی حیات حقیقی کیونکہ اسکی حیات عین ذات ہے نہ کہ عارضی یا کسی دوسرے سے لی ہوئی سورہ ٴ فرقان آیہ ۵۸میں ہے
"وتوکّل علیٰ الحیّ الذی لا یموت “ایک یہ پہلو ہے اور دوسرا حیات یہ ہے کہ حیات کامل وہ زندگی ہے جس میں موت کا تصور نہ ہو اس لئے حقیقی حیات اسی کی ہے جو ازل تا باد قائم و دائم ہے رہی انسان کی زندگی خصوصاً اس جہان میں جہاں موت بھی ہے ،یہ حقیہقی حیات نہیں ہو سکتی اسی لئے سورہ ٴ عنکبوت کی آیت ۶۴میں ہماری نظر سے یہ عبارت گذرتی ہے
"ووما ھٰذہ الحیاة الدّنیا الاّ لھو و لعب و ان الدار الآخرہ لھی الحیوان "
اس جہان کی زندگی لھو و لعب کے سوا کچھ نہیں ہے ( ایک لحاظ سے )حقیقی زندگی تو دار آخرت کی زندگی ہے
ان دو وجوہ کی بناء پر حقیقی زندگی خدا ہی کے لئے مخصوص ہے
خدا کے زندہ ہونے کا مفہوم
عام طور پر موجود زندہ اس چیز کو کہتے ہیں جو نمو ، تغزیہ ، تولید مثل ،جذب و دفع اور کبھی کبھی حس و حرکت رکھتی ہو لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ رہے کہ ممکن ہے کوتاہ نظر افراد خدا کے بارے میں بھی ایسی ہی حیات سمجھتے ہوں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ میں ایسی کوئی صفت موجود نہیں یہی قیاس انسان کو خدا شناسی کے بارے میں اشتباہ میں مبتلاء کر دیتا ہے کیونکہ وہ خدا کی صفات کو اپنی صفات پر قیاس کرنے لگتا ہے حیاے اپنے وسیع اور واقعی معنی کے لحاظ سے علم و قدرت سے عبارت ہے لہٰذا جو وجود لا متناہی علم وقدرت کا حامل ہے وہ حیات کامل رکھتا ہے خدا کی حیات اسکے علم وقدرت کا مجموعہ ہے اور در حقیقت علم و قدرت ہی کے ذریعے موجود زندہ اور غیر زندہ میں امتیاز کیا جا سکتا ہے رہا نمو ،حرکت تغذیہ، تولید مثلاور حرکت تو یہ ناق ص اور محدود موجودات کے آثار ہیں اور یہ آثار نقائص پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ غزا ،تولید مثل اور حرکت در اصل کسی نہ کسی کمی کو پورا کرنے کے لیے ہوتی ہے لیکن وہ ذات جس میں کوئی قص اور کمی نہیں اس میں یہ امور نہیں پاے ٴ جاتے
القیوم
"قیوم “مبالغہ کا صیغہ ہے اسکا مادہ ”قیام“ہے اسی بناء پر اسکا معنی ہے وہ وجود جسکا قیام اپنی ذات کے ساتھ ہے اور تمام موجودات کا قیام اسکے ساتھ دوسرے لفظوں میں عالم ہستی کے تمام موجودات اسی کے بھروسے اور سہارے پر قائم ہیں
(۱)مزید وضاحت کے لئے کتاب جستجوے ٴ خدا کی طرف رجوع فرمائیں
واضح ہے کہ قیام کا معنی کھڑا ہونا روز مرّہ میں یہ لفظ اسی مخسوص ہیئت و کیفیت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اس معنی کا خدا کے لئے کوئی مفہوم نہیں کیونکہ وہ جسم اور صفات جسمانی سے منزہ ہے اسا لئے اس سے مراد تخلیق ، تدبیر اور نگہداری کے لئے قیام کرنا ہے صرف وہی ذات ہے جس نے تمام موجودات کو پیدا کیا ہے اور اسی نے انکی نگہداری و تربیت اپنے ذمہ لے رکھی ہے وہ کبھی اس کی انجام دہی میں غفلت نہیں کرتا اور وہ ہمیشہ سے بغیر کسی وقفے کے ان امور کو انجام دینے کے لئے قیام کئے ہو ےٴ ہے
اس بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ قیوم حقیقت میں تمام صفات ِفعل کی بنیاد ہے صفات فعل سے مراد وہ صفات ہیں جو کسی موجود سے خدا کے ارتباط کو بیان کرتی ہیں ، مثلاً پیدا کرنے والا ، روزی دینے والا زندہ کرنے والا ہدایت کرنے والا وغیرہ
موجودات عالم کی خلقت و تدبیر کے لئے قیام کرنے میں یہ تمام امور شامل ہیں وہی جو روزی دیتا ہے جو زندہ کرتا ہے وہی ہے جو مارتا ہے وہی ہے جو ہدایت کرتا ہے اس لئے خالق، رازق اور محی وغیرہ صفات سب قیوم میں جمع ہیں
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.