مختصر جواب:
مفصل جواب:
شفاعت “کا مفہوم ایک قوی موجود کا ضعیف تر موجود کی مدد کرنا ہے تاکہ وہ آسانی سے تکامل و ارتقاء کے مراحل طے کر سکے البتہ یہ لفظ عموماً گناہگاروں کی شفاعت کے بارے میں استعمال ہوتا ہے لیکن شفاعت کے وسیع تر معنی میں عالم ہستی کے تمام عوامل اور علل و اسباب شامل ہیں مثلاً زمین پانی ہوا اور سورج کی روشنی چار عامل ہیں جو جو دانے کو ایک مکمل درخت یا مکمل سبزے کے مرحلے تک پہنچانے میں شفاعت اور ہدایت کرتے ہیں اب اگر مذکورہ آیت کو اس وسیع معنی میں دیکھا جاے ٴ تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ عالم ہستی مختلف عوامل اور اسباب کا وجود خدا کی مالکیت مطلقہ کو ہر گز محدود نہیں کرتا کیونکہ ان تمام اسباب کی تاثیر اس کے حکم سے ہے اور در اصل اس کی قیومیت اور مالکیت کی نشانی ہے
بعض لوگ سمجھتے ہیں شفاعت بھی بلا وجہ کسی کی سفارش کرنے کی طرح ہے اور ایک طرح کی پارٹی بازی ہے کہا جاتا ہے کہ اسکا مفہوم یوں ہے لوگ جو چاہیں گناہ کریں اور جب سر سے پاوئں تک گناہ میں ڈوب جائیںتو شفیع کا دامن پکڑ لیں اور اس طرح کہتے پھریں !
ان دم کہ مردمان بہ شفیعی زنندہ دست
مائیم و دست و دامن اولاد فاطمہ
یعنی جب دوسرے لوگ کسی شفیع کا دامن تھامیں گے تو ہم اولاد فاطمہ کا دامن اور ہاتھ تھام لیں گے اعتراض کرنے والوں نے شفاعت کے بارے میں دین کی منطق کو نہیں سمجھا اور نہ اس گناہ گارجسور اور بے پروا گروہ نے اسے سمجھا جو ایسی باتیں کرتا ہیںکیونکہ جیاس کہ بیان کیا جا چکا ہے شفاعت جو خدا کے خاص بندے کریں گے شفاعت تکوینی کی طرح ہے جو طبیعی عوامل کے ذریعے انجام پاتی ہے جیسے ایک دانے میں اگر عامل حیات اور زندگی کے سیل life cells موجود نہ ہوںتو ہزاروں سال تک سورج کی تپش ، باد نسیم اور بارش کے حیات بخش قطرے اسے نشو نما اور رشد نہیں دے سکتے ،اس طرح اولیاء خدا کی شفاعت بھی نا لائق افراد کے لئے بے اثر ہے یعنی اصولی طور پر وہ ایسے افراد کی شافعت نہیں کریں گے شفاعت ایک طرح کے معنوی ربط کی محتاج ہے یہ ربط شفاعت کرنے والے اور جس کی شفاعت ہو رہی ہے اس کے درمیان درکار ہے اس لئے جو شفاعت کی امّد رکھتا ہے اسکا فرض ہے کہ اس جہان میں اس شخص سے معنوی رابطہ پیدا کرے جس سے وہ شفاعت کی توقع رکھتا ہے اور حقیقت میں یہ ربط ہی شفاعت حاصل کرنے والے کے لئے تربیت کا ایک ذریعہ ہوگا یہ تعلق اسے شفاعت کرنے والے کے افکار ، اعمال اور مکتب کے قریب کرے گا اور اس کے نتیجہ میں وہ شفاعت کے اہل ہو جاے گا
اس سے واضح ہوا کہ شفاعت ایک عامل تربیت ہے نہ کہ پارٹی بازی یا فرائض سے فرار کا ذریعہ یہ بھی واضح ہو گیا کہ شفاعت گناہگار کے بارے میں میں پروردگار کے ارادے میں تغیر و تبدیل پیدا نہیں کرتی بلکہ گناہگار ہی شفاعت کرنے والے سے معنوی ربط کے ذریعے ایک تکامل و تربیت حاصل کرتا ہےاور ایسی سر حد میں جا پہنچتا ہے جہاں وہ عفو خدا کے اہل ہو جاتا ہے (غور کیجئے گا )(۱)
بعض لوگ سمجھتے ہیں شفاعت بھی بلا وجہ کسی کی سفارش کرنے کی طرح ہے اور ایک طرح کی پارٹی بازی ہے کہا جاتا ہے کہ اسکا مفہوم یوں ہے لوگ جو چاہیں گناہ کریں اور جب سر سے پاوئں تک گناہ میں ڈوب جائیںتو شفیع کا دامن پکڑ لیں اور اس طرح کہتے پھریں !
ان دم کہ مردمان بہ شفیعی زنندہ دست
مائیم و دست و دامن اولاد فاطمہ
یعنی جب دوسرے لوگ کسی شفیع کا دامن تھامیں گے تو ہم اولاد فاطمہ کا دامن اور ہاتھ تھام لیں گے اعتراض کرنے والوں نے شفاعت کے بارے میں دین کی منطق کو نہیں سمجھا اور نہ اس گناہ گارجسور اور بے پروا گروہ نے اسے سمجھا جو ایسی باتیں کرتا ہیںکیونکہ جیاس کہ بیان کیا جا چکا ہے شفاعت جو خدا کے خاص بندے کریں گے شفاعت تکوینی کی طرح ہے جو طبیعی عوامل کے ذریعے انجام پاتی ہے جیسے ایک دانے میں اگر عامل حیات اور زندگی کے سیل life cells موجود نہ ہوںتو ہزاروں سال تک سورج کی تپش ، باد نسیم اور بارش کے حیات بخش قطرے اسے نشو نما اور رشد نہیں دے سکتے ،اس طرح اولیاء خدا کی شفاعت بھی نا لائق افراد کے لئے بے اثر ہے یعنی اصولی طور پر وہ ایسے افراد کی شافعت نہیں کریں گے شفاعت ایک طرح کے معنوی ربط کی محتاج ہے یہ ربط شفاعت کرنے والے اور جس کی شفاعت ہو رہی ہے اس کے درمیان درکار ہے اس لئے جو شفاعت کی امّد رکھتا ہے اسکا فرض ہے کہ اس جہان میں اس شخص سے معنوی رابطہ پیدا کرے جس سے وہ شفاعت کی توقع رکھتا ہے اور حقیقت میں یہ ربط ہی شفاعت حاصل کرنے والے کے لئے تربیت کا ایک ذریعہ ہوگا یہ تعلق اسے شفاعت کرنے والے کے افکار ، اعمال اور مکتب کے قریب کرے گا اور اس کے نتیجہ میں وہ شفاعت کے اہل ہو جاے گا
اس سے واضح ہوا کہ شفاعت ایک عامل تربیت ہے نہ کہ پارٹی بازی یا فرائض سے فرار کا ذریعہ یہ بھی واضح ہو گیا کہ شفاعت گناہگار کے بارے میں میں پروردگار کے ارادے میں تغیر و تبدیل پیدا نہیں کرتی بلکہ گناہگار ہی شفاعت کرنے والے سے معنوی ربط کے ذریعے ایک تکامل و تربیت حاصل کرتا ہےاور ایسی سر حد میں جا پہنچتا ہے جہاں وہ عفو خدا کے اہل ہو جاتا ہے (غور کیجئے گا )(۱)
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.