مختصر جواب:
مفصل جواب:
اہل فرعون کے زیر اثر رہ کر بنی اسراییل کمزور و ناتواں ہو چکے تھے حضرت موسیٰ کی دانشمندانہ رہبری کے نتیجہ میں انہیں اس افسوسناک حالت سے نجات ملی اور انہوں نے قدرت و عظمت حاصل کر لی
اس پیغمبر کی بر کت سے خدا نے انہیں بہت سی نعمات سے نوازا ان نعمات میں سے ایک صندوق عہد( ۱)بھی تھا یہودی اپنے لشکر کے آگے اسے اٹھاے ٴ رکھتے تھے اس اسے یک طرح ان میں سکون قلباور رتوحانیء طاقت پیدا ہوتی تھی بنی اسرائیل کو یہ قدرت و عظمت حضرت موسیٰ کے بود ایک مدت تک حاصل رہی لیکن یہی کامیابیاں اور نعمتیں رفتہ رفتہ ان کے غرور و تکبّر کا باعث بن گییٴںاور وہ قانون شکنی کرنے لگے اسکے نتیجے میں انہیں فلسطینیوں کے ہاتھوں شکست اٹھانا پڑی وہ اپنی قدرت و عظمت کھوبیٹھے اور صندوق عہد بھی گنوا بیٹھے پھر اس قدر پراکندگی اور اختلاف کا شکار ہوے ٴ کہ چھوٹے سے چھوٹے دشمن سے بھی دفاع کے قابل نہ رہے یہا ں تک کے دشمنوں نے انکے بہت سے لوگوں کو انکی سر زمین سے نکال دیا اور انکی اولاد کو غلام اور قیدی بنا لیا کیٴ برس تک یہ کیفیت رہی یہاں تک کہ خدا وند عالم نے انکی نجات اور ارشاد و ہدایت کے لیے ھضرت اشموییٴل کو پیغمبر بنا کر مبعوثفرماےا بنی اسراییٴل بھی دشمنوں کے ظلم و جور سے تنگ آ چکے تھے اور کسی پناہ گاہ کی تلاش میں تھے لہٰذا نکے گرد جمع ہو گیے اور ان سے خواہش کی کہ وہ انکے لیے کوییٴ رہبر امیر مقرر کر دیں تاکہ وہ اسکی قیادت میں ہم آواز اور ایک جان ہو کر دشمن سے جنگ کریں اور عذت رفتہ بحال ہو سکے.
اشموئیل انکی اندرونی کیفیات اور سست ہمّتی سے پوری طرح واقف تھے انہوں نے کہا مجھے ڈر ہے جب جہاد کا حکم آے ٴ تو تم کہیں امیر کے حکم سے رو گردانی نہ کرو اور دشمن سے مقابلے اور پہلو تہی نہ کرو وہ کہنے لگے: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم امیر کے حکم سے منہ پھیر لیں اور اپنی ذمہ داری بنبھانے سے دریغ کریں حالنکہ دشمن مہیں ہمارے وطن سے نکال چکا ہے ہماری زمینوں پر قبضہ کر چکا ہے اور ہماری اولاد کو قیدی بنا کر لے گیا ہے حضرت اشموئیل نے دیکھا کہ وہ اپنی بیماری کی تشخیص کھو چکے ہیں اس پر ھجرت اشموییٴل نے بار گاہ الٰہی کا رخ کیا اور قوم کی خواہش کو اسکے حضور پیش کیا وحی ہویی ٴ
میں نے طالوت کو انکی سر براہی کے لیے منتخب کیا ہے
حضرت اشموئیل نے عرض کیا :
خدا وندا !میں ابھی تک طالوت کو دیکھا ہے نہ پہچانتا ہوں
ارشاد ہوا:
ہم اسے تمہاری طرف بھیجیں گے جب وہ تمہارے پاس آے ٴ تو فوج کی کمان اسکے حوالے کر دینا اور علم جہاد اسکے ہاتھ میں دے دینا
طالوت ایک بلند قامت ،تنومند اور خوبصورت مرد تھے وہ مضبوط اور قوی اعصاب کے مالک تھے روحانی طور پر بھی بہت ہی زیرک اور دانشمند اور صاحب تدبّر تھے بعض لوگوں نے انکے نام طالوت کو بھی ان کے طولانی قد کا سبب قرار دیا ہے
ان تمام صفات کے با وجود مشہور نہیں تھے اپنی والد کے ساتھ دریا کے کنارے ایک بستی میں رہتے تھے والد کے چوپایوں کو چراتھے اور زراعت کرتے تھے
ایک دن کچھ جانور بیابان میں گم ہو گیے طالوت اپنے دوست کے ساتھ کیی دن تک انکی تلاش میں سر گرداں رہے انہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ شہر صوف کے قریب پہنچ گیے
انکے دوست نے کہا ہم تو اشموئیل کے شہر صوف میں آپہنچے ہیں آیے انکے پاس چلتے ہیں شاید وحی کے سایہ میں اور انکی راے ٴ کی رو شنی میں ہمیں کچھ پتہ چل سکے.
شہر میں داخل ہوے تو حضرت اشموئیل سے ملاقات ہو گیی جب اشموییٴل؛ اور طالوت نے ایک دوسرے کو دیکھا تو گویا دل مل گیے اشموئیل نے اسی لمحہ طالوت کو پہچان لیا وہ جان گیے کہ یہ وہی نو جوان ہے جسے خدا نے ان لو گوں کی قیادت کے لیے منتخب کیا ہے
طالوت نے اپنی کہانی سنایی ٴ تو اشموئیل کہنے لگے وہ چو پاے تو تو اس وقت تمہاری بستی کی راہ پر ہیں اور تمہارے باپ کے باغ کی طرف جا رہے ہیں ان کے بارے میں فکر نہ کرو مین تمہیں اس سے کہیں بڑے کام کی دعوت دیتا ہوں خدا نے تمہین بنی اسرائیل کی نجات کے لیے مامور کیا ہے
طالوت پہلے تو اس پرو گرام پر حیران ہوے ٴ اور پھر اسے سعادت سمجھتے ہو ے ٴ قبول کر لیا اشموییٴل نے اپنی قوم سے کہا.
خدا نے ےالوت کو تمہاری قیادت سونپی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ تم اس کی پیروی کرو اب اپنے تئیں دشمن سے مقابلے کے لیے تیار کر لو
بنی اسرائیل کے نذدیک تو حسب ونسب اور ثروت کے حوالے سے کیی خصوصیات فرمانروا کے لیے ضروری تھیں اور انمیں سے کویی چیز بھی طالوت میں دکھایی نہ دیتی تھی اس انتخاب و تقرر پر وہ بہت حیران و پریشان ہو گیے ٴ انہوں نے دیکا کہ انکے عقیدہ کے بر خلاف وہ نہ تو لاوی کی اولاد میں سے تھے جن میں سے نبی ہوتے تھے نہ یوسف اور یہودا کے خاندان سے تھے جو گذشتہ زمانے مین حکومت کرتے تھے ب؛لکہ انکا تعلّق تو بنیامین کے گمنام خاندان سے تھا اور پھر وہ مالی طور پر بھی تہی دست تھے
انہوں نے اعتراض کیا وہ کیسے حکومت کر سکتا ہے جب کہ ہم اس سے زیادہ حقدار ہیں
اشموییٴل سمجھتے تھے کہ وہ بہت اشتباہ کر رہے ہیں کہنے لگے : انہیں خدا نے تم پر امیر مقرر کیا ہے نیز قیادت کے لیے ان کی اہلیت اور لیاقت کی دلیل یہ ہے کہ وہ جسمانی طور پر زیادہ طاقت ور ہیں اور روحانی طاقت میں بھی سب سے بڑھ کر ہیں اس لحاظ سے وہ تم میں سب پر برتری رکھتے ہیں
بنی اسراییٴل نے خدا کی طعف سے اسکے تقرر کے لیے
کسی علامت یا نشانی کا مطالبہ کر دیا اس پر اشموییٴل بولے انبیا ء بنی اسراییٴل کی ہم یاد گار تابوت (صندوق عہد)جو جنگ میں تمہارے لیے اطمینان اور ولولے کا باعث تھا تمہارے پاس لوٹ آے ٴگا اور اسے تمہارے آگے چند فرشتوں نے اٹھا رکھا ہوگا
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ صندوق عہد انکے سامنے آگیا یہ نشانی دیکھ کر انہوں نے طالوت کی سر براہی قبول کر لی.
طالوت نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۱۔
اس پیغمبر کی بر کت سے خدا نے انہیں بہت سی نعمات سے نوازا ان نعمات میں سے ایک صندوق عہد( ۱)بھی تھا یہودی اپنے لشکر کے آگے اسے اٹھاے ٴ رکھتے تھے اس اسے یک طرح ان میں سکون قلباور رتوحانیء طاقت پیدا ہوتی تھی بنی اسرائیل کو یہ قدرت و عظمت حضرت موسیٰ کے بود ایک مدت تک حاصل رہی لیکن یہی کامیابیاں اور نعمتیں رفتہ رفتہ ان کے غرور و تکبّر کا باعث بن گییٴںاور وہ قانون شکنی کرنے لگے اسکے نتیجے میں انہیں فلسطینیوں کے ہاتھوں شکست اٹھانا پڑی وہ اپنی قدرت و عظمت کھوبیٹھے اور صندوق عہد بھی گنوا بیٹھے پھر اس قدر پراکندگی اور اختلاف کا شکار ہوے ٴ کہ چھوٹے سے چھوٹے دشمن سے بھی دفاع کے قابل نہ رہے یہا ں تک کے دشمنوں نے انکے بہت سے لوگوں کو انکی سر زمین سے نکال دیا اور انکی اولاد کو غلام اور قیدی بنا لیا کیٴ برس تک یہ کیفیت رہی یہاں تک کہ خدا وند عالم نے انکی نجات اور ارشاد و ہدایت کے لیے ھضرت اشموییٴل کو پیغمبر بنا کر مبعوثفرماےا بنی اسراییٴل بھی دشمنوں کے ظلم و جور سے تنگ آ چکے تھے اور کسی پناہ گاہ کی تلاش میں تھے لہٰذا نکے گرد جمع ہو گیے اور ان سے خواہش کی کہ وہ انکے لیے کوییٴ رہبر امیر مقرر کر دیں تاکہ وہ اسکی قیادت میں ہم آواز اور ایک جان ہو کر دشمن سے جنگ کریں اور عذت رفتہ بحال ہو سکے.
اشموئیل انکی اندرونی کیفیات اور سست ہمّتی سے پوری طرح واقف تھے انہوں نے کہا مجھے ڈر ہے جب جہاد کا حکم آے ٴ تو تم کہیں امیر کے حکم سے رو گردانی نہ کرو اور دشمن سے مقابلے اور پہلو تہی نہ کرو وہ کہنے لگے: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم امیر کے حکم سے منہ پھیر لیں اور اپنی ذمہ داری بنبھانے سے دریغ کریں حالنکہ دشمن مہیں ہمارے وطن سے نکال چکا ہے ہماری زمینوں پر قبضہ کر چکا ہے اور ہماری اولاد کو قیدی بنا کر لے گیا ہے حضرت اشموئیل نے دیکھا کہ وہ اپنی بیماری کی تشخیص کھو چکے ہیں اس پر ھجرت اشموییٴل نے بار گاہ الٰہی کا رخ کیا اور قوم کی خواہش کو اسکے حضور پیش کیا وحی ہویی ٴ
میں نے طالوت کو انکی سر براہی کے لیے منتخب کیا ہے
حضرت اشموئیل نے عرض کیا :
خدا وندا !میں ابھی تک طالوت کو دیکھا ہے نہ پہچانتا ہوں
ارشاد ہوا:
ہم اسے تمہاری طرف بھیجیں گے جب وہ تمہارے پاس آے ٴ تو فوج کی کمان اسکے حوالے کر دینا اور علم جہاد اسکے ہاتھ میں دے دینا
طالوت ایک بلند قامت ،تنومند اور خوبصورت مرد تھے وہ مضبوط اور قوی اعصاب کے مالک تھے روحانی طور پر بھی بہت ہی زیرک اور دانشمند اور صاحب تدبّر تھے بعض لوگوں نے انکے نام طالوت کو بھی ان کے طولانی قد کا سبب قرار دیا ہے
ان تمام صفات کے با وجود مشہور نہیں تھے اپنی والد کے ساتھ دریا کے کنارے ایک بستی میں رہتے تھے والد کے چوپایوں کو چراتھے اور زراعت کرتے تھے
ایک دن کچھ جانور بیابان میں گم ہو گیے طالوت اپنے دوست کے ساتھ کیی دن تک انکی تلاش میں سر گرداں رہے انہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ شہر صوف کے قریب پہنچ گیے
انکے دوست نے کہا ہم تو اشموئیل کے شہر صوف میں آپہنچے ہیں آیے انکے پاس چلتے ہیں شاید وحی کے سایہ میں اور انکی راے ٴ کی رو شنی میں ہمیں کچھ پتہ چل سکے.
شہر میں داخل ہوے تو حضرت اشموئیل سے ملاقات ہو گیی جب اشموییٴل؛ اور طالوت نے ایک دوسرے کو دیکھا تو گویا دل مل گیے اشموئیل نے اسی لمحہ طالوت کو پہچان لیا وہ جان گیے کہ یہ وہی نو جوان ہے جسے خدا نے ان لو گوں کی قیادت کے لیے منتخب کیا ہے
طالوت نے اپنی کہانی سنایی ٴ تو اشموئیل کہنے لگے وہ چو پاے تو تو اس وقت تمہاری بستی کی راہ پر ہیں اور تمہارے باپ کے باغ کی طرف جا رہے ہیں ان کے بارے میں فکر نہ کرو مین تمہیں اس سے کہیں بڑے کام کی دعوت دیتا ہوں خدا نے تمہین بنی اسرائیل کی نجات کے لیے مامور کیا ہے
طالوت پہلے تو اس پرو گرام پر حیران ہوے ٴ اور پھر اسے سعادت سمجھتے ہو ے ٴ قبول کر لیا اشموییٴل نے اپنی قوم سے کہا.
خدا نے ےالوت کو تمہاری قیادت سونپی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ تم اس کی پیروی کرو اب اپنے تئیں دشمن سے مقابلے کے لیے تیار کر لو
بنی اسرائیل کے نذدیک تو حسب ونسب اور ثروت کے حوالے سے کیی خصوصیات فرمانروا کے لیے ضروری تھیں اور انمیں سے کویی چیز بھی طالوت میں دکھایی نہ دیتی تھی اس انتخاب و تقرر پر وہ بہت حیران و پریشان ہو گیے ٴ انہوں نے دیکا کہ انکے عقیدہ کے بر خلاف وہ نہ تو لاوی کی اولاد میں سے تھے جن میں سے نبی ہوتے تھے نہ یوسف اور یہودا کے خاندان سے تھے جو گذشتہ زمانے مین حکومت کرتے تھے ب؛لکہ انکا تعلّق تو بنیامین کے گمنام خاندان سے تھا اور پھر وہ مالی طور پر بھی تہی دست تھے
انہوں نے اعتراض کیا وہ کیسے حکومت کر سکتا ہے جب کہ ہم اس سے زیادہ حقدار ہیں
اشموییٴل سمجھتے تھے کہ وہ بہت اشتباہ کر رہے ہیں کہنے لگے : انہیں خدا نے تم پر امیر مقرر کیا ہے نیز قیادت کے لیے ان کی اہلیت اور لیاقت کی دلیل یہ ہے کہ وہ جسمانی طور پر زیادہ طاقت ور ہیں اور روحانی طاقت میں بھی سب سے بڑھ کر ہیں اس لحاظ سے وہ تم میں سب پر برتری رکھتے ہیں
بنی اسراییٴل نے خدا کی طعف سے اسکے تقرر کے لیے
کسی علامت یا نشانی کا مطالبہ کر دیا اس پر اشموییٴل بولے انبیا ء بنی اسراییٴل کی ہم یاد گار تابوت (صندوق عہد)جو جنگ میں تمہارے لیے اطمینان اور ولولے کا باعث تھا تمہارے پاس لوٹ آے ٴگا اور اسے تمہارے آگے چند فرشتوں نے اٹھا رکھا ہوگا
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ صندوق عہد انکے سامنے آگیا یہ نشانی دیکھ کر انہوں نے طالوت کی سر براہی قبول کر لی.
طالوت نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۱۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.