مختصر جواب:
مفصل جواب:
مباہلہ “ در اصل ” بھل“ کے مادہ سے ہے ، اس کا معنی ہے ”رہا کرنا “ اور کسی کی قید و بندکو ختم کردینا ۔ اسی بناء پر جب کسی جانور کو اس کے حال پر چھوڑ دیں اور اس کے پستان کسی تھیلی میں نہ باندھیں تاکہ اس کا نو زائیدہ بچہ آزادی سے اس کا دودھ پی سکے تو اسے ” باھل “ کہتے ہیں ۔ دعا میں ” ابتھال“ تضرع و زاری اور کام خدا کے سپرد کرنے کے معنی میں آتا ہے ۔
کبھی کبہار یہ لفظ ہلاکت ، لعنت اورخدا سے دوری کے معنی میں اس لئے استعمال ہوتا ہے کہ بندے کو اس کے حال پر چھوڑدینا منفی نتائج کا حامل ہوتا ہے ۔ یہ تو تھا ” مباہلہ “ کا مفہوم اصل لغت کے لحاظ سے لیکن اس مروج مفہوم کے لحاظ سے جو اوپر والی آیت میں مراد لیا گیا ہے یہ دو اشخاص کے درمیان ایک دوسرے پر نفرین کرنے کو کہتے ہیں اور وہ ببھی اس طرح کہ دو گروہ جو کسی اہم مذہبی مسئلے میں اختلافَ رائے رکھتے ہوں ، ایک جگہ جمع ہو جائیں ، بار گاہ الہٰی میں تضرع کریں اور اس سے دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا و ذلیل کرے اور اسے سزا و عذاب دے ۔
مندرجہ بالا آیت میں خدا تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کو ئی شخص تم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے ” مباہلہ کی دعوت دو اور کہو کہ وہ اپنے بچو ں ، عورتوں او ر نفسوں کو لے آئے اور تم بھی اپنے بچوںاور عورتوں اور نفسوں کو بلا وٴ پھر دعا کرو تاکہ خدا جھوٹوں کو رسوا کردے ۔(» (فَمَنْ حَاجَّکَ فیهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَکُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَکُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللّهِ عَلَى الْکاذِبینَ).
اسلامی روایات میں ہے کہ “ مباہلہ “ کی دعوت دی گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرم کے پاس آئے اور آپ سے مہلت چاہی تاکہ اس بارے میں سوچ بچار کرلیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کرلیں ۔ مشورے کی یہ بات ان کی نفساتی حالت کی چغلی کھاتی ہے ۔ بہر حال مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں کے مابین یہ طے پایا کہ اگر محمد شو ر و غل ، مجمع اور داد و فریاد کے ساتھ ” مباہلہ“ کے لئے آئیں تو ڈرا نہ جائے اور مباہلہ کرلیا جائے کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پھر حقیقت کچھ بھی نہیں جبھی شور وغل کا سہارا لیا جائے اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیں بہت قریبی خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پھر جالینا چاہئیے کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور اس صور میںان سے ”مباہلہ “ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطر ناک ہے ۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق عیسائی میدان مباہلہ میں پہنچے تو اچانک دیکھا کہ پیغمبر اپنے بیٹے حسین (علیه السلام) کو گود میں لئے حسن (علیه السلام) کا ہاتھ پکڑے اور علی (علیه السلام) و فاطمہ (علیه السلام) کو ہمراہ لئے آپہنچے ہیں اور انہیں فرمارہے ہیںکہ جب میں دعا کرو ، تم آمین کہنا ۔
عیسائیوں نے یہ کیفیت دیکھی تو انتہائی پریشان ہوئے اور مباہلہ سے رک گئے اور صلح و مصالحت کے لیے تیار ہو گئے اور اہل ذمہ کی حیثیت سے رہنے پر آمادہ ہو گئے ۔
کبھی کبہار یہ لفظ ہلاکت ، لعنت اورخدا سے دوری کے معنی میں اس لئے استعمال ہوتا ہے کہ بندے کو اس کے حال پر چھوڑدینا منفی نتائج کا حامل ہوتا ہے ۔ یہ تو تھا ” مباہلہ “ کا مفہوم اصل لغت کے لحاظ سے لیکن اس مروج مفہوم کے لحاظ سے جو اوپر والی آیت میں مراد لیا گیا ہے یہ دو اشخاص کے درمیان ایک دوسرے پر نفرین کرنے کو کہتے ہیں اور وہ ببھی اس طرح کہ دو گروہ جو کسی اہم مذہبی مسئلے میں اختلافَ رائے رکھتے ہوں ، ایک جگہ جمع ہو جائیں ، بار گاہ الہٰی میں تضرع کریں اور اس سے دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا و ذلیل کرے اور اسے سزا و عذاب دے ۔
مندرجہ بالا آیت میں خدا تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کو ئی شخص تم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے ” مباہلہ کی دعوت دو اور کہو کہ وہ اپنے بچو ں ، عورتوں او ر نفسوں کو لے آئے اور تم بھی اپنے بچوںاور عورتوں اور نفسوں کو بلا وٴ پھر دعا کرو تاکہ خدا جھوٹوں کو رسوا کردے ۔(» (فَمَنْ حَاجَّکَ فیهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَکُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَکُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللّهِ عَلَى الْکاذِبینَ).
اسلامی روایات میں ہے کہ “ مباہلہ “ کی دعوت دی گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرم کے پاس آئے اور آپ سے مہلت چاہی تاکہ اس بارے میں سوچ بچار کرلیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کرلیں ۔ مشورے کی یہ بات ان کی نفساتی حالت کی چغلی کھاتی ہے ۔ بہر حال مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں کے مابین یہ طے پایا کہ اگر محمد شو ر و غل ، مجمع اور داد و فریاد کے ساتھ ” مباہلہ“ کے لئے آئیں تو ڈرا نہ جائے اور مباہلہ کرلیا جائے کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پھر حقیقت کچھ بھی نہیں جبھی شور وغل کا سہارا لیا جائے اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیں بہت قریبی خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پھر جالینا چاہئیے کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور اس صور میںان سے ”مباہلہ “ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطر ناک ہے ۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق عیسائی میدان مباہلہ میں پہنچے تو اچانک دیکھا کہ پیغمبر اپنے بیٹے حسین (علیه السلام) کو گود میں لئے حسن (علیه السلام) کا ہاتھ پکڑے اور علی (علیه السلام) و فاطمہ (علیه السلام) کو ہمراہ لئے آپہنچے ہیں اور انہیں فرمارہے ہیںکہ جب میں دعا کرو ، تم آمین کہنا ۔
عیسائیوں نے یہ کیفیت دیکھی تو انتہائی پریشان ہوئے اور مباہلہ سے رک گئے اور صلح و مصالحت کے لیے تیار ہو گئے اور اہل ذمہ کی حیثیت سے رہنے پر آمادہ ہو گئے ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.