مختصر جواب:
مفصل جواب:
اس سؤال کا جواب سوره «انعام» کی آیت ۷۶ اور ۷۹ میں ذکر ہو ا ہےخدا وند متعال ان آیات میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) کے استدلال کو بیان کررہاہے ۔ جس میں ستاروں وآفتاب کے طلوع وغروب کے متعلق جناب ابراہیم نے اچھی بحث کی ہے ۔
اس میں شک نہیں ہے کہ ابراہیم خدا کی یگانگت کا استدلالی و فطری یقین رکھتے تھے، لیکن اسرار آفرینش کے مطالبہ سے یہ یقین درجہ کمال کو پہنچ گیا، جیسا کہ وہ قیامت اور معاد کا یقین رکھتے تھے، لیکن سر بریدہ پرندوں کے زندہ ہونے کے مشاہدہ سے ان کا ایمان ”عین الیقین“ کے مرحلہ کو پہنچ گیاتھا۔
بعد والی آیات میں اس موضوع کو تفصیلی طور پر بیان کیا ہے جو ستاروں اور آفتاب کے طلوع و غروب سے ابراہیم کے استدلال کو ان کے خدا نہ ہونے پر واضح کرتا ہے۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: جب رات کے تاریک پردے نے سارے عالم کو چھپالیا تو اُن کی آنکھوں کے سامنے ایک ستارہ ظاہر ہوا۔ ابراہیم نے پکار کر کہا کہ کیا یہ میرا خدا ہے؟ لیکن جب وہ غروب ہوگیا تو اُنہوں نے پورے یقین کے ساتھ کہا کہ میں ہرگز ہرگز غروب ہوجانے والوں کو پسند نہیں کرتا اور انھیں عبودیت و ربوبیت کے لائق نہیں سمجھتا ( فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْہِ اللَّیْلُ رَاٴَی کَوْکَبًا قَالَ ہٰذَا رَبِّی فَلَمَّا اٴَفَلَ قَالَ لاَاٴُحِبُّ الْآفِلِینَ )۔
انھوں نے دوبارہ اپنی آنکھیں صفحہ آسمان پر گاڑدیں۔ اس دفعہ چاند کی چاندی جیسی ٹکیہ وسیع اور دل پذیر روشنائی کے ساتھ صفحہ آسمان پر ظاہر ہوئی۔ جب چاند کو دیکھا تو ابراہیم نے پکار کر کہا کہ کیا یہ ہے میرا پروردگار ؟ لیکن آخر کار چاند کا انجام بھی اُس ستارے جیسا ہی ہوا اور اُس نے بھی اپنا چہرہ پر وہٴ افق میں چُھپالیا تو حقیقت کے متلاشی ابراہیم نے کہا کہ اگر میرا پروردگار مجھے اپنی طرف رہنمائی نہ کرے تو میں گمراہوں کی صف میں جاکھڑا ہوں گا ( فَلَمَّا رَاٴَی الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ہٰذَا رَبِّی فَلَمَّا اٴَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ یَہْدِنِی رَبِّی لَاٴَکُونَنَّ مِنْ الْقَوْمِ الضَّالِّینَ )۔
اُس وقت رات آخر کو پہنچ چکی تھی اور اپنے تاریک پردوں کو سمیٹ کو آسمان کے منظر سے بھاگ رہی تھی، آفتاب نے افق مشرق سے نکالا اور اپنے زیبا اور لطیف نور کو زربفت کے ایک ٹکڑے کی طرح دشت و کوہ و بیابان پر پھیلا دیا، جس وقت ابراہیم کی حقیقت بین نظر اُس کے خیرہ کرنے والے نور پر پڑی تو پکار کر کہا: کیا میرا خدا یہ ہے؟ جو سب سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ روشن ہے، لیکن سورج کے غروب ہوجانے اور آفتاب کی ٹکیہ کے ہیولائے شب کے منہ میں چلے جانے سے ابراہیم نے اپنی آخری بات ادا کی، اور کہا: اے گروہِ (قوم) میں ان تمام بناوئی معبودوں سے جنھیں تم نے خدا کا شریک قرار دے لیا ہے بری و بیزار ہوں ( فَلَمَّا رَاٴَی الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ ہٰذَا رَبِّی ہٰذَا اٴَکْبَرُ فَلَمَّا اٴَفَلَتْ قَالَ یَاقَوْمِ إِنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِکُونَ )۔
اب جب کہ میں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اس متغیر و محدود اور قوانینِ طبیعت کے چنگل میں اسیر مخلوقات کے ماو اء ایک ایسا خدا ہے کہ جو اس سارے نظامِ کائنات پر قادر حاکم ہے تو میں تو اپنا رڑخ ایسی ذات کی طرف کرتا ہوں کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور اس عقیدے میں کم سے کم شرک کو بھی راہ نہیں دیتا، میں تو موحد خالص ہوں اور مشرکین میں سے نہیں ہوں ( إِنِّی وَجَّہْتُ وَجْہِی لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ حَنِیفًا وَمَا اٴَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ )۔
اس آیت کی تفسیر اور بعد والی آیات کی تفسیر میں اور یہ کہ ابراہیم جیسے موحد و یکتا پرست نے کس طرح آسمان کے ستارے کی طرف اشارہ کیا اور یہ کہا کہ یہ میرا خدا ہے مفسرّین نے بہت بحث کی ہے۔ ان تمام تفاسیر میں سے دو تفسیریں زیادہ قابلِ ملاحظہ ہیں کہ جن میں سے ہر ایک کو بعض بزرگ مفسرین نے اختیار کیا ہے اور ان پر منابعِ حدیث میں بھی شواہد موجود ہیں۔
اس میں شک نہیں ہے کہ ابراہیم خدا کی یگانگت کا استدلالی و فطری یقین رکھتے تھے، لیکن اسرار آفرینش کے مطالبہ سے یہ یقین درجہ کمال کو پہنچ گیا، جیسا کہ وہ قیامت اور معاد کا یقین رکھتے تھے، لیکن سر بریدہ پرندوں کے زندہ ہونے کے مشاہدہ سے ان کا ایمان ”عین الیقین“ کے مرحلہ کو پہنچ گیاتھا۔
بعد والی آیات میں اس موضوع کو تفصیلی طور پر بیان کیا ہے جو ستاروں اور آفتاب کے طلوع و غروب سے ابراہیم کے استدلال کو ان کے خدا نہ ہونے پر واضح کرتا ہے۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: جب رات کے تاریک پردے نے سارے عالم کو چھپالیا تو اُن کی آنکھوں کے سامنے ایک ستارہ ظاہر ہوا۔ ابراہیم نے پکار کر کہا کہ کیا یہ میرا خدا ہے؟ لیکن جب وہ غروب ہوگیا تو اُنہوں نے پورے یقین کے ساتھ کہا کہ میں ہرگز ہرگز غروب ہوجانے والوں کو پسند نہیں کرتا اور انھیں عبودیت و ربوبیت کے لائق نہیں سمجھتا ( فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْہِ اللَّیْلُ رَاٴَی کَوْکَبًا قَالَ ہٰذَا رَبِّی فَلَمَّا اٴَفَلَ قَالَ لاَاٴُحِبُّ الْآفِلِینَ )۔
انھوں نے دوبارہ اپنی آنکھیں صفحہ آسمان پر گاڑدیں۔ اس دفعہ چاند کی چاندی جیسی ٹکیہ وسیع اور دل پذیر روشنائی کے ساتھ صفحہ آسمان پر ظاہر ہوئی۔ جب چاند کو دیکھا تو ابراہیم نے پکار کر کہا کہ کیا یہ ہے میرا پروردگار ؟ لیکن آخر کار چاند کا انجام بھی اُس ستارے جیسا ہی ہوا اور اُس نے بھی اپنا چہرہ پر وہٴ افق میں چُھپالیا تو حقیقت کے متلاشی ابراہیم نے کہا کہ اگر میرا پروردگار مجھے اپنی طرف رہنمائی نہ کرے تو میں گمراہوں کی صف میں جاکھڑا ہوں گا ( فَلَمَّا رَاٴَی الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ہٰذَا رَبِّی فَلَمَّا اٴَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ یَہْدِنِی رَبِّی لَاٴَکُونَنَّ مِنْ الْقَوْمِ الضَّالِّینَ )۔
اُس وقت رات آخر کو پہنچ چکی تھی اور اپنے تاریک پردوں کو سمیٹ کو آسمان کے منظر سے بھاگ رہی تھی، آفتاب نے افق مشرق سے نکالا اور اپنے زیبا اور لطیف نور کو زربفت کے ایک ٹکڑے کی طرح دشت و کوہ و بیابان پر پھیلا دیا، جس وقت ابراہیم کی حقیقت بین نظر اُس کے خیرہ کرنے والے نور پر پڑی تو پکار کر کہا: کیا میرا خدا یہ ہے؟ جو سب سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ روشن ہے، لیکن سورج کے غروب ہوجانے اور آفتاب کی ٹکیہ کے ہیولائے شب کے منہ میں چلے جانے سے ابراہیم نے اپنی آخری بات ادا کی، اور کہا: اے گروہِ (قوم) میں ان تمام بناوئی معبودوں سے جنھیں تم نے خدا کا شریک قرار دے لیا ہے بری و بیزار ہوں ( فَلَمَّا رَاٴَی الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ ہٰذَا رَبِّی ہٰذَا اٴَکْبَرُ فَلَمَّا اٴَفَلَتْ قَالَ یَاقَوْمِ إِنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِکُونَ )۔
اب جب کہ میں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اس متغیر و محدود اور قوانینِ طبیعت کے چنگل میں اسیر مخلوقات کے ماو اء ایک ایسا خدا ہے کہ جو اس سارے نظامِ کائنات پر قادر حاکم ہے تو میں تو اپنا رڑخ ایسی ذات کی طرف کرتا ہوں کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور اس عقیدے میں کم سے کم شرک کو بھی راہ نہیں دیتا، میں تو موحد خالص ہوں اور مشرکین میں سے نہیں ہوں ( إِنِّی وَجَّہْتُ وَجْہِی لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ حَنِیفًا وَمَا اٴَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ )۔
اس آیت کی تفسیر اور بعد والی آیات کی تفسیر میں اور یہ کہ ابراہیم جیسے موحد و یکتا پرست نے کس طرح آسمان کے ستارے کی طرف اشارہ کیا اور یہ کہا کہ یہ میرا خدا ہے مفسرّین نے بہت بحث کی ہے۔ ان تمام تفاسیر میں سے دو تفسیریں زیادہ قابلِ ملاحظہ ہیں کہ جن میں سے ہر ایک کو بعض بزرگ مفسرین نے اختیار کیا ہے اور ان پر منابعِ حدیث میں بھی شواہد موجود ہیں۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.