مختصر جواب:
مفصل جواب:
یہ بات خاص طور پر قابلِ توجہ ہے کہ مسیح کے بشر ہونے اور ان کی مادّی اور جسمانی ضروریات اور احتیاجات کا مسئلہ کہ جس کا قرآن نے ان آیات اور دوسری آیات میں تذکرہ کیا ہے حضرت عیسیٰ کی خدائی کا دعویٰ کرنے والے عیسائیوں کے لئے بہت بڑی مشکلات میں سے ایک ہے کہ جس کی توجیہ کے لئے وہ بہت ہی ہاتھ پاؤں مارتے ہیں اور بعض اوقات وہ مجبور ہوجاتے ہیں کہ مشکلات میں سے ایک ہے کہ جس کی توجیہ کے لئے وہ بہت ہی ہاتھ پاؤں مارتے ہیں اور بعض اوقات وہ مجبور ہوجاتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کے لئے جنبوں کے قائل ہوں جنبہ لاہوت اور دوسرے جنبہ ناسوت ۔ جنبہ لاہوت کی نظر سے وہ خدا کے بیٹے ہیں اور خود خدا ہیں اور ناسوت کی نظر سے جسم اور مخلوقِ خدا ہیں اور اسی قسم کی دوسری توجیہات کہ جوان کی منطق کے ضعف اور نادرستی کی بہترین مظہر ہیں ۔
اس نکتہ کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے کہ آیت میں لفظ ”من“ کے بجائے ”ما“ استعمال ہوا ہے جو عام طور پر غیر ذوی العقول موجودات کے لئے ذکر ہوتا ہے یہ تعبیر شاید اسی بناپر ہو کہ باقی معبودوں اور بتوں کو بھی جو پتھر اور لکڑی سے بنے ہوئے ہوتے ہیں اس جملہ کی عمومیت میں داخل کرتے ہوئے یہ کہا جائے کہ اگر مخلوق کی پرستش جائز ہو تو پھر بت پرستوں کی بت پرستی بھی جائز شمار کی جائے ۔ کیونکہ مخلوق ہونے میں سب برابر ہیں اور مساوی ہیں اور حقیقت میں حضرت مسیح کی الوہیت پر ایمان ایک طرح کی بت پرستی ہیں ہے نہ کہ خدا پرستی ۔
انبیاء کے بارے میں غلو کے سلسلے میں روشن دلائل سے اہلِ کتاب کا اشتباہ واضح ہوجانے کے بعد پیغمبر کو حکم دیا گیا ہے کہ اُنہیں دعوت دو کہ وہ اس راستے سے عملی طور پر پلٹ آئیں ۔ فرمایا گیا ہے: کہہ دو کہ اے اہلِ کتاب! اپنے دین میں غلونہ کرو اور حد سے تجاوز نہ کرو اور حق کے علاوہ کوئی بات نہ کہو (قل یا اھن الکتاب لا تفلوافی دینکم غیر الحق )۔(۱)
البتہ عیسائیوں کا غلو تو واضح ہے باقی رہا یہودیوں کا غلو کہ اہلِ کتاب کا خطاب ان کے بارے میں بھی ہے، تو بعید نہیں ہے کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہو جو وہ عزیر کے بارے میں کہتے تھے اور اُسے خدا کا بیٹا سمجھتے تھے ۔ چونکہ غلو کا سر چشمہ عموماً گمراہ لوگوں کی ہوا وہوس کی پیروی کرنا ہے اس لئے اس گفتگو کی تکمل کے لئے فرمایا گیا ہے کہ اس قوم کی خواہشات کی پیروی نہ کرو کہ جو تم سے پہلے گمراہ ہوئی اور انھوں نے بہت سے لوگوں کو بھی گمراہ کیا اور جو راہ مستقیم سے منحرف ہوگئے (ولا تتبعوا اھوا ۔ قوم قد ضلوا من قبل و اضلوا کثیرًا و ضلوا عن سواء السبیل)۔
یہ جملہ حقیقت میں ایک ایسی چیز کی طرف اشارہ ہے جو مسیحیت کی تاریخ میں بھی منعکس ہے کہ مسئلہ تثلیث اور حضرت عیسیٰ کے بارے میں غلو مسیحیت کی ابتدائی صدیوں میں ان کے درمیان وجود نہیں رکھتا تھا بلکہ جب ہندوستان کے بت پر ست اور ان کی مانند دوسرے لوگوں نے دین مسیحیت اختیار کیا تو انھوں نے اپنے سابقہ دین میں سے باقی ماندہ ایک چیز یعنی تثلیثِ شرک کو مسیحیت میں شامل کردیا ۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ثابوث ہندی (تین خداؤں، بر ہما فیشنو، سیفا پر ایمان) تاریخی لحاظ سے تثلیث مسیحیت سے پہلے تھا اور در حقیقت یہ اسی کی عکاسی ہے ۔
اس نکتہ کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے کہ آیت میں لفظ ”من“ کے بجائے ”ما“ استعمال ہوا ہے جو عام طور پر غیر ذوی العقول موجودات کے لئے ذکر ہوتا ہے یہ تعبیر شاید اسی بناپر ہو کہ باقی معبودوں اور بتوں کو بھی جو پتھر اور لکڑی سے بنے ہوئے ہوتے ہیں اس جملہ کی عمومیت میں داخل کرتے ہوئے یہ کہا جائے کہ اگر مخلوق کی پرستش جائز ہو تو پھر بت پرستوں کی بت پرستی بھی جائز شمار کی جائے ۔ کیونکہ مخلوق ہونے میں سب برابر ہیں اور مساوی ہیں اور حقیقت میں حضرت مسیح کی الوہیت پر ایمان ایک طرح کی بت پرستی ہیں ہے نہ کہ خدا پرستی ۔
انبیاء کے بارے میں غلو کے سلسلے میں روشن دلائل سے اہلِ کتاب کا اشتباہ واضح ہوجانے کے بعد پیغمبر کو حکم دیا گیا ہے کہ اُنہیں دعوت دو کہ وہ اس راستے سے عملی طور پر پلٹ آئیں ۔ فرمایا گیا ہے: کہہ دو کہ اے اہلِ کتاب! اپنے دین میں غلونہ کرو اور حد سے تجاوز نہ کرو اور حق کے علاوہ کوئی بات نہ کہو (قل یا اھن الکتاب لا تفلوافی دینکم غیر الحق )۔(۱)
البتہ عیسائیوں کا غلو تو واضح ہے باقی رہا یہودیوں کا غلو کہ اہلِ کتاب کا خطاب ان کے بارے میں بھی ہے، تو بعید نہیں ہے کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہو جو وہ عزیر کے بارے میں کہتے تھے اور اُسے خدا کا بیٹا سمجھتے تھے ۔ چونکہ غلو کا سر چشمہ عموماً گمراہ لوگوں کی ہوا وہوس کی پیروی کرنا ہے اس لئے اس گفتگو کی تکمل کے لئے فرمایا گیا ہے کہ اس قوم کی خواہشات کی پیروی نہ کرو کہ جو تم سے پہلے گمراہ ہوئی اور انھوں نے بہت سے لوگوں کو بھی گمراہ کیا اور جو راہ مستقیم سے منحرف ہوگئے (ولا تتبعوا اھوا ۔ قوم قد ضلوا من قبل و اضلوا کثیرًا و ضلوا عن سواء السبیل)۔
یہ جملہ حقیقت میں ایک ایسی چیز کی طرف اشارہ ہے جو مسیحیت کی تاریخ میں بھی منعکس ہے کہ مسئلہ تثلیث اور حضرت عیسیٰ کے بارے میں غلو مسیحیت کی ابتدائی صدیوں میں ان کے درمیان وجود نہیں رکھتا تھا بلکہ جب ہندوستان کے بت پر ست اور ان کی مانند دوسرے لوگوں نے دین مسیحیت اختیار کیا تو انھوں نے اپنے سابقہ دین میں سے باقی ماندہ ایک چیز یعنی تثلیثِ شرک کو مسیحیت میں شامل کردیا ۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ثابوث ہندی (تین خداؤں، بر ہما فیشنو، سیفا پر ایمان) تاریخی لحاظ سے تثلیث مسیحیت سے پہلے تھا اور در حقیقت یہ اسی کی عکاسی ہے ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.