مختصر جواب:
مفصل جواب:
اس سؤال کا جواب سوره «انعام»کی آیات ۱۵۱ و۱۵۳ میں ذکر ہوا ہے در حقیقت ان آیات اسلام کے محرمات کے اصول کی طرف اشارہ کیا ہے اور سب سے پہلے گناہ کبیرہ کی طرف مختصر طور پر اشارہ کیا اور پھر اس کے ایک ایک کرکے دس چیزوں کو تفصیل سے ذکر کیا ہے سب سے پہلے اللہ فرماتا ہے ۔: ۱۔(قُلْ تَعَالَوْا اٴَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ اٴَلاَّ تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا )۔کہو کہ آؤ جس چیز کو تمہارے پروردگار نے تمہارے اوپر حرام قرار دیا ہے میں تمھیں پڑھ کر سناؤں اور وہ یہ کہ کسی چیز کو خدا کا شریک نہ ٹھہرانا کیونکہ خدا ایک ہے اس کا کو ئی شریک نہیں ہے اور خدا نےاس بات کی طرف قرآن میں متعدد آیات میں اشارہ کیا ہے کہ وہ ایک ہے جیسا کہ سورہ توحید اس کی مکمل دلیل ہے ،
۲۔ (وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا)پھراحسان ونیکی کے عنوان سے ذکر فرمایا اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا، یعنی نہ صرف یہ کہ انھیں تکلیف پہنچانا حرام ہے بلکہ اس کے علاوہ ان پر نیکی رنا بھی لازم وضروری ہے۔یہاں پر یہ نکتہ بھی جاذبِ نظر ہے کہ کلمہٴ ”احسان“ کو ”ب“ کے ذریعہ متعدی کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ”وبالوالدین احسانا“ ”الیٰ“ کے ساتھ متعدی نہیں کیا کیونکہ ”احسان“ اگر ”الیٰ“ کے ساتھ متعدی ہو تو اس کے معنی نیکی کرنے کے ہوں گے چاہے بالواسطہ، لیکن اگر ”احسان“ کا ”ب“ کے ذریعہ کیا جائے تو اس کے معنی بالواسطہ اور بطور مستقیم نیکی کرنے کے ہیں، بنابریں آیت اس بات کی تاکید کررہی ہے کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کے مسئلے کو اس قدر اہمیت دینا چاہیے کہ شخصاً اور بغیر واسطہ کے اسے انجام دینا چاہیے۔
۳۔ (وَلَاتَقْتُلُوا اٴَوْلَادَکُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَإِیَّاھُمْ) اور اپنی اولاد کو تنگدستی (کے خوف) سے ہلاک نہ کرنا، ہم تمھیں اور انھیں دونوں کو روزی دیتے ہیں:۔اس آیت سے مفہوم یہ نکلتا ہے کہ عرب زمانہٴ جاہلیت میں بیجا تعصّب وغیرت کی وجہ سے اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے، بلکہ لڑکوں کو (جو اس دور میں بزرگی وشرف کا سرمایہ سمجھے جاتے تھے ) بھی فقر وتنگدستی کے خوف سے قتل کردیتے تھے، اس آیت میں الله تعالیٰ نے اپنے وسیع خوان نعمت، کہ جس سے ضعیف ترین موجودات بھی بہرہ ور ہوتے ہیں، کی طرف توجہ دلاکر اس بُرے کام سے روکا ہے۔
بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ”زمانہ جاہلیت کا عمل “ہمارے زمانہ میں بھی پایا جاتا ہے اور ایک دوسرے انداز سے اس کی تکرار کی جاتی ہے کیونکہ بعض افراد غذا کی کمی کے خوف سے بے گناہ بچوں کو حالتِ جنین میں ”ضانع“ کرکے رحمِ مادر ہی میں قتل کردیتے ہیں۔
۴۔ (وَلَاتَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَن) اور بُرے کاموں کے پاس بھی نہ جانا، چاہے وہ نمایاں ہوں یا چھپے ہوئے،ان کو تنہا انجام نہ دینا بلکہ اس کے قریب بھی نہ جانا جیسے زنا وغیرہ یا اس کے علاوہ اور بہت سے فحش کام جو اللہ تعالی نے حرام قرار دئیے ہیں ۔
۵۔ (وَلَاتَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ)اور جس جان کو اللہ نے محترم قرار دیا ہے اسے نہ مارنا، الّا یہ کہ حق (استحقاق کی بناپر) ہو، یہ وہ (حکم) ہے جس کی اللہ نے تمھیں تاکید کی ہے، تاکہ تم اسے سمجھو۔یعنی اللہ تعالی تاکید کررہا ہے کہ کسی کا ناحق خون بہانا جائز نہیں مگر یہ کہ ان کا قتل کرنا اگر قانون الہی کے مطابق ہو ،کیونکہ اللہ تعالی دیگر آیات میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر کسی انسان نے کسی دوسرے انسان کو بغیر کسی خطا کے قتل کردیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کردیا ۔
۶۔ کبھی بھی بغیر ارادہٴ اصلاح کے یتیم کے مال کے پاس نہ جانا حتّیٰ کہ وہ سن تمیز کو پہنچ جایں (وَلَاتَقْرَبُوا مَالَ الْیَتِیمِ إِلاَّ بِالَّتِی ھِیَ اٴَحْسَنُ حَتَّی یَبْلُغَ اٴَشُدَّہُ)۔
۷۔ کم فروشی نہ کرنا اور پیمانہ وترازو کے حق کو عدالت کے ساتھ ادا نہ کرنا (وَاٴَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیزَانَ بِالْقِسْطِ)۔
چونکہ ترازواور پیمانہ کے بارے میں یہ اندیشہ تھا کہ باوجود احتیاط کرنے کے پھر بھی کچھ فرق باقی رہ جائے جیسا کہ ایسا ہوتا ہے کہ توجہ کے باوجود تھوڑا فرق پھر بھی رہ باقی رہ جاتا ہے جس کی شناخت عام ترازووٴں اور پیمانوں سے ممکن نہیں اس لئے مذکورہ بالا جملہ کے ساتھ ہی فرمایا: ہم کسی شخص پر اس کی قدرت واستطاعت سے زیادہ ذمہ داری عائد نہیں کرتے (لَانُکَلِّفُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَھَا)۔
۸۔ فیصلہ کرتے وقت یا گواہی دینے کے موقع پر یا جب بھی کوئی بات کہو تو حق وعدالت کو پیش نظر رکھو اور حق کی راہ سے باہر نہ جاؤ چاہے وہ تمھارے عزیزوں کے بارے میں ہو اور حق کہنے سے انھیں نقصان پہنچ جائے (وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبیٰ)۔۹۔ الله سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرو اور اسے مت توڑو (وَبِعَھْدِ اللهِ اٴَوْفُوا)۔
عہد الٰہی سے کیا مراد ہے، اس بارے میں مفسّرین تے متعدد احتمالات بیان کئے ہیں لیکن آیت کا مفہوم عام ہے جو تمام الٰہی عہدوں پر محیط ہے چاہے وہ تکوینی ہوں یا تشریعی نیز تکالیف الٰہی اور ہر قسم کا عہد ، نذر اور قسم بھی اس میں شامل ہے۔
مزید تاکید کے لئے ان چار قسموں کے آخر میں فرماتا ہے: یہ وہ امور ہیں جن کی خدا تھمیں تاکید کرتا ہے تاکہ تمھیں یاد رہے (ذَلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ)۔
۱۰۔ یہ میرا سیدھا راستہ، توحید کا راستہ ہے، حق وعدالت کا راستہ، پاکیزگی اور تقویٰ کا راستہ ہے، اس کی پیروی کرو اور ٹیڑھے راستے اور افتراق کے راستوں پر ہر گز نہ جاؤ کیونکہ یہ تمھیں خدا کے راستے سے ہٹادیں گے اور تمھارے درمیان نفاق اور اختلاف کے بیج بودیں گے (وَاٴَنَّ ھٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوہُ وَلَاتَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیلِہِ)۔
اس سب کے آخر میں تیسری تاکید فرماتا ہے کہ یہ وہ امور ہیں جن کی خدا تمھیں تاکید فماتا ہے تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ (ذَلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ)۔۱
۲۔ (وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا)پھراحسان ونیکی کے عنوان سے ذکر فرمایا اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا، یعنی نہ صرف یہ کہ انھیں تکلیف پہنچانا حرام ہے بلکہ اس کے علاوہ ان پر نیکی رنا بھی لازم وضروری ہے۔یہاں پر یہ نکتہ بھی جاذبِ نظر ہے کہ کلمہٴ ”احسان“ کو ”ب“ کے ذریعہ متعدی کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ”وبالوالدین احسانا“ ”الیٰ“ کے ساتھ متعدی نہیں کیا کیونکہ ”احسان“ اگر ”الیٰ“ کے ساتھ متعدی ہو تو اس کے معنی نیکی کرنے کے ہوں گے چاہے بالواسطہ، لیکن اگر ”احسان“ کا ”ب“ کے ذریعہ کیا جائے تو اس کے معنی بالواسطہ اور بطور مستقیم نیکی کرنے کے ہیں، بنابریں آیت اس بات کی تاکید کررہی ہے کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کے مسئلے کو اس قدر اہمیت دینا چاہیے کہ شخصاً اور بغیر واسطہ کے اسے انجام دینا چاہیے۔
۳۔ (وَلَاتَقْتُلُوا اٴَوْلَادَکُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَإِیَّاھُمْ) اور اپنی اولاد کو تنگدستی (کے خوف) سے ہلاک نہ کرنا، ہم تمھیں اور انھیں دونوں کو روزی دیتے ہیں:۔اس آیت سے مفہوم یہ نکلتا ہے کہ عرب زمانہٴ جاہلیت میں بیجا تعصّب وغیرت کی وجہ سے اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے، بلکہ لڑکوں کو (جو اس دور میں بزرگی وشرف کا سرمایہ سمجھے جاتے تھے ) بھی فقر وتنگدستی کے خوف سے قتل کردیتے تھے، اس آیت میں الله تعالیٰ نے اپنے وسیع خوان نعمت، کہ جس سے ضعیف ترین موجودات بھی بہرہ ور ہوتے ہیں، کی طرف توجہ دلاکر اس بُرے کام سے روکا ہے۔
بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ”زمانہ جاہلیت کا عمل “ہمارے زمانہ میں بھی پایا جاتا ہے اور ایک دوسرے انداز سے اس کی تکرار کی جاتی ہے کیونکہ بعض افراد غذا کی کمی کے خوف سے بے گناہ بچوں کو حالتِ جنین میں ”ضانع“ کرکے رحمِ مادر ہی میں قتل کردیتے ہیں۔
۴۔ (وَلَاتَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَن) اور بُرے کاموں کے پاس بھی نہ جانا، چاہے وہ نمایاں ہوں یا چھپے ہوئے،ان کو تنہا انجام نہ دینا بلکہ اس کے قریب بھی نہ جانا جیسے زنا وغیرہ یا اس کے علاوہ اور بہت سے فحش کام جو اللہ تعالی نے حرام قرار دئیے ہیں ۔
۵۔ (وَلَاتَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ)اور جس جان کو اللہ نے محترم قرار دیا ہے اسے نہ مارنا، الّا یہ کہ حق (استحقاق کی بناپر) ہو، یہ وہ (حکم) ہے جس کی اللہ نے تمھیں تاکید کی ہے، تاکہ تم اسے سمجھو۔یعنی اللہ تعالی تاکید کررہا ہے کہ کسی کا ناحق خون بہانا جائز نہیں مگر یہ کہ ان کا قتل کرنا اگر قانون الہی کے مطابق ہو ،کیونکہ اللہ تعالی دیگر آیات میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر کسی انسان نے کسی دوسرے انسان کو بغیر کسی خطا کے قتل کردیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کردیا ۔
۶۔ کبھی بھی بغیر ارادہٴ اصلاح کے یتیم کے مال کے پاس نہ جانا حتّیٰ کہ وہ سن تمیز کو پہنچ جایں (وَلَاتَقْرَبُوا مَالَ الْیَتِیمِ إِلاَّ بِالَّتِی ھِیَ اٴَحْسَنُ حَتَّی یَبْلُغَ اٴَشُدَّہُ)۔
۷۔ کم فروشی نہ کرنا اور پیمانہ وترازو کے حق کو عدالت کے ساتھ ادا نہ کرنا (وَاٴَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیزَانَ بِالْقِسْطِ)۔
چونکہ ترازواور پیمانہ کے بارے میں یہ اندیشہ تھا کہ باوجود احتیاط کرنے کے پھر بھی کچھ فرق باقی رہ جائے جیسا کہ ایسا ہوتا ہے کہ توجہ کے باوجود تھوڑا فرق پھر بھی رہ باقی رہ جاتا ہے جس کی شناخت عام ترازووٴں اور پیمانوں سے ممکن نہیں اس لئے مذکورہ بالا جملہ کے ساتھ ہی فرمایا: ہم کسی شخص پر اس کی قدرت واستطاعت سے زیادہ ذمہ داری عائد نہیں کرتے (لَانُکَلِّفُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَھَا)۔
۸۔ فیصلہ کرتے وقت یا گواہی دینے کے موقع پر یا جب بھی کوئی بات کہو تو حق وعدالت کو پیش نظر رکھو اور حق کی راہ سے باہر نہ جاؤ چاہے وہ تمھارے عزیزوں کے بارے میں ہو اور حق کہنے سے انھیں نقصان پہنچ جائے (وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبیٰ)۔۹۔ الله سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرو اور اسے مت توڑو (وَبِعَھْدِ اللهِ اٴَوْفُوا)۔
عہد الٰہی سے کیا مراد ہے، اس بارے میں مفسّرین تے متعدد احتمالات بیان کئے ہیں لیکن آیت کا مفہوم عام ہے جو تمام الٰہی عہدوں پر محیط ہے چاہے وہ تکوینی ہوں یا تشریعی نیز تکالیف الٰہی اور ہر قسم کا عہد ، نذر اور قسم بھی اس میں شامل ہے۔
مزید تاکید کے لئے ان چار قسموں کے آخر میں فرماتا ہے: یہ وہ امور ہیں جن کی خدا تھمیں تاکید کرتا ہے تاکہ تمھیں یاد رہے (ذَلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ)۔
۱۰۔ یہ میرا سیدھا راستہ، توحید کا راستہ ہے، حق وعدالت کا راستہ، پاکیزگی اور تقویٰ کا راستہ ہے، اس کی پیروی کرو اور ٹیڑھے راستے اور افتراق کے راستوں پر ہر گز نہ جاؤ کیونکہ یہ تمھیں خدا کے راستے سے ہٹادیں گے اور تمھارے درمیان نفاق اور اختلاف کے بیج بودیں گے (وَاٴَنَّ ھٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوہُ وَلَاتَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیلِہِ)۔
اس سب کے آخر میں تیسری تاکید فرماتا ہے کہ یہ وہ امور ہیں جن کی خدا تمھیں تاکید فماتا ہے تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ (ذَلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ)۔۱
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.