مختصر جواب:
مفصل جواب:
حجر بن عدی کا شمار رسول خدا کے بزرگ اصحاب میں ہوتا تھا ۔ شیعہ اور سنی علماء نے ان کی عظمت میں بہت بلند و بالا تعبیرات نقل کی ہیں ۔ ان کے متعلق لکھا ہے : حجر بن عدی عمر کے لحاظ سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے دوسرے اصحاب سے چھوٹے تھے ،لیکن عظمت کے اعتبار سے آپ کا شمار بزرگ صحابہ میں ہوتا ہے ۔ حاکم نیشاپوری نے مستدرک میں ان کو ""اصحاب محمد کے راہب"" کے عنوان سے یاد کیا ہے ، ابن اثیر نے اسد الغابہ میں اور ابن حجر عسقلانی نے الاصابہ میں ""حجر الخیر"" کے عنوان سے یاد کیا ہے ۔ آپ کے متعلق بیان ہوا ہے کہ آپ بہت بڑے عابد وزاہد تھے ، ہمیشہ وضو سے رہتے تھے اور جب بھی وضو کرتے تھے ، نماز پڑھتے تھے ۔ ابن عبدالبر نے استیعاب میں اور ابن اثیر نے اسد الغابہ میں ان کو مستجاب الدعوت بیان کیا ہے (١)۔
جس وقت ""مغیرہ بن شعبہ "" معاویہ کی طرف سے کوفہ کا حاکم ہوا تو وہ معاویہ کے حکم سے خطبوں اورتقریروں میں حضرت علی (علیہ السلام) کو ناسزا کہتا تھا ، اس وقت حجر بن عدی اس کے سامنے کھڑے ہو کر حضرت علی (علیہ السلام) کے فضائل بیان کرتے تھے اور معاویہ کو ذلیل کرتے تھے اور چونکہ حجر بن عدی کی شخصیت معروف تھی اور سب ان سے محبت کرتے تھے ، لہذا یہ اپنے بیان سے مغیرہ کے فتنہ کو ختم کردیتے تھے ۔
کوفہ کے بہت سے لوگ آپ کے ساتھ شامل ہوجاتے تھے اور مغیرہ کی باتوں کی مخالفت کرتے تھے ،مغیرہ ان کا خون بہانے سے ڈرتا تھا اس لئے صبر کرتا تھا ، لیکن ہمیشہ حجر کو ان کی باتوں کے نتیجہ سے ڈراتا تھا اور کہتا تھا ، کوئی بھی حاکم میری طرح برداشت نہیں کرے گا اور تمہارے ساتھ شدت سے پیش آئے گا ۔
٥١ ہجری میں مغیرہ ہلاک ہوگیا تو معاویہ نے زیاد کو جو کہ بصرہ کا حاکم تھا ، کوفہ کا بھی حاکم بنادیا ، ""زیاد"" نے بھی دوسرے ظالم حاکموں اور معاویہ کے حکم سے منبر پر اپنی تقریروں میں حضرت علی (علیہ السلام) کو ناسزا کہنا شروع کیا تو حجر نے اس کی مخالفت کی ۔
حجر بن عدی اور ان کے ساتھی ان باتوں کو برداشت نہیں کرتے تھے لہذا معاویہ کے کارندوں اور زیاد کے مقابلہ میں کھڑے ہوگئے اور یہ لوگ حاکم شام اور آل ابوسفیان کے راز فاش کرنے میں کمی نہیں رکھتے تھے اور ظالم و جابر زیاد کی دھمکیوں کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے تھے ۔
آخر کار زیاد نے ان کو گرفتار کرلیا اور ان کی مذمت میں ایک خط لکھ کر شام کی طرف روانہ کردیا ۔
حجر اور ان کے ساتھیوں کو ""مرج عذرا"" (شام کے نزدیک ایک جگہ) پر روکا ، تاکہ معاویہ کی طرف سے ان کے لئے حکم صادر ہو، حجر اور ان کے ساتھی چودہ افراد تھے ان میں سے سات افراد کے لئے بعض لوگوں نے معاویہ سے سفارش کی تو ان کو نجات مل گئی ،لیکن حجر بن عدی اور ان کے ساتھ چھے افراد کو جو کہ اپنی بات پر قائم تھے (دینداری اور علی (علیہ السلام) سے محبت کے جرم میں ) بہت ہی غلط طریقہ سے شہید کردا (٢) ۔
کتاب کنز العمال (اہل سنت کی مشہور کتاب) میں نقل ہوا ہے کہ حجر نے شہادت کے وقت اس طرح وصیت فرمائی :
"" لا تطلقوا عنی حدیدا و لا تغسلوا عنی دما و ادفنونی فی ثیابی ، فانی لاق معاویة بالجادة و انی مخاصم"" ۔ میرے ہاتھوں ا ور پیروں سے ہتھکڑی اور بیڑیوں کو نہ کھولنا ، میرے خون کو نہ دھونا اور مجھے میرے کپڑوں میں دفن کرنا ! کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ قیامت کے روز اسی حالت میں خدا کے سامنے معاویہ سے ملاقات کروں(٣) ۔
جناب حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کی قبر ""مرج عذرا"" کے علاقہ میں دمشق کے نزدیک مشہور ہے اور بہت زیادہ مسلمانوں کی زیارت گاہ ہے ۔
حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر لوگوں نے اس وقت اور اس کے بعد بہت زیادہ اعتراض کیا اور اس کو معاویہ کی زندگی میں ایک بدنما داغ سمجھا جاتا تھا ۔
امام حسین (علیہ السلام) نے ایک خط میں معاویہ کو حجر اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
"" الست قاتل حجر ، و اصحابہ العابدین المخبتین ، الذین کانوا یستفظعون البدع ، و یامرون بالمعروف ، و ینھون عن المنکر ، فقتلتھم ظلما و عدوانا ، من بعد ما اعطیتھم المواثیق الغلیظة ، والعھود الموکدة جراة علی اللہ واستخفافا بعھدہ "" ۔ اے معاویہ ! کیا تو وہ نہیں ہے جس نے حجر اور ان کے ساتھیوں کو جو کہ عابد و زاہد اور خدا کے سامنے متواضع تھے ، قتل کردیا ؟ یہ لوگ بدعتوں سے بیزار تھے ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے تھے ،لیکن تو نے ان کو ظلم و ستم اور دشمنی کی وجہ سے (محکم عہد وپیمان دینے کے بعد ) قتل کردیا اور تو نے یہ کام خدا کی نافرمانی اور اس کے عہدو پیمان کو سبک شمار کرتے ہوئے انجام دیا (٤) ۔
عایشہ نے بھی معاویہ سے ملاقات کے دوران کہا : تو نے حجر اور ان کے ساتھیوں کو کیوں قتل کیا ؟ معاویہ نے جواب دیا : امت کی مصلحت اسی میں تھی !! عایشہ نے کہا : میں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ان کے متعلق سنا ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا :
""سیقتل بعذراء ناس ، یغضب اللہ لھم و اھل السماء"" بہت جلد ""عذرائ"" کے علاقہ میں کچھ لوگوں کوقتل کیا جائے گا جس سے خداوند عالم اور آسمان والے ناراض ہوجائیں گے (٥) ۔ (٦) ۔
جس وقت ""مغیرہ بن شعبہ "" معاویہ کی طرف سے کوفہ کا حاکم ہوا تو وہ معاویہ کے حکم سے خطبوں اورتقریروں میں حضرت علی (علیہ السلام) کو ناسزا کہتا تھا ، اس وقت حجر بن عدی اس کے سامنے کھڑے ہو کر حضرت علی (علیہ السلام) کے فضائل بیان کرتے تھے اور معاویہ کو ذلیل کرتے تھے اور چونکہ حجر بن عدی کی شخصیت معروف تھی اور سب ان سے محبت کرتے تھے ، لہذا یہ اپنے بیان سے مغیرہ کے فتنہ کو ختم کردیتے تھے ۔
کوفہ کے بہت سے لوگ آپ کے ساتھ شامل ہوجاتے تھے اور مغیرہ کی باتوں کی مخالفت کرتے تھے ،مغیرہ ان کا خون بہانے سے ڈرتا تھا اس لئے صبر کرتا تھا ، لیکن ہمیشہ حجر کو ان کی باتوں کے نتیجہ سے ڈراتا تھا اور کہتا تھا ، کوئی بھی حاکم میری طرح برداشت نہیں کرے گا اور تمہارے ساتھ شدت سے پیش آئے گا ۔
٥١ ہجری میں مغیرہ ہلاک ہوگیا تو معاویہ نے زیاد کو جو کہ بصرہ کا حاکم تھا ، کوفہ کا بھی حاکم بنادیا ، ""زیاد"" نے بھی دوسرے ظالم حاکموں اور معاویہ کے حکم سے منبر پر اپنی تقریروں میں حضرت علی (علیہ السلام) کو ناسزا کہنا شروع کیا تو حجر نے اس کی مخالفت کی ۔
حجر بن عدی اور ان کے ساتھی ان باتوں کو برداشت نہیں کرتے تھے لہذا معاویہ کے کارندوں اور زیاد کے مقابلہ میں کھڑے ہوگئے اور یہ لوگ حاکم شام اور آل ابوسفیان کے راز فاش کرنے میں کمی نہیں رکھتے تھے اور ظالم و جابر زیاد کی دھمکیوں کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے تھے ۔
آخر کار زیاد نے ان کو گرفتار کرلیا اور ان کی مذمت میں ایک خط لکھ کر شام کی طرف روانہ کردیا ۔
حجر اور ان کے ساتھیوں کو ""مرج عذرا"" (شام کے نزدیک ایک جگہ) پر روکا ، تاکہ معاویہ کی طرف سے ان کے لئے حکم صادر ہو، حجر اور ان کے ساتھی چودہ افراد تھے ان میں سے سات افراد کے لئے بعض لوگوں نے معاویہ سے سفارش کی تو ان کو نجات مل گئی ،لیکن حجر بن عدی اور ان کے ساتھ چھے افراد کو جو کہ اپنی بات پر قائم تھے (دینداری اور علی (علیہ السلام) سے محبت کے جرم میں ) بہت ہی غلط طریقہ سے شہید کردا (٢) ۔
کتاب کنز العمال (اہل سنت کی مشہور کتاب) میں نقل ہوا ہے کہ حجر نے شہادت کے وقت اس طرح وصیت فرمائی :
"" لا تطلقوا عنی حدیدا و لا تغسلوا عنی دما و ادفنونی فی ثیابی ، فانی لاق معاویة بالجادة و انی مخاصم"" ۔ میرے ہاتھوں ا ور پیروں سے ہتھکڑی اور بیڑیوں کو نہ کھولنا ، میرے خون کو نہ دھونا اور مجھے میرے کپڑوں میں دفن کرنا ! کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ قیامت کے روز اسی حالت میں خدا کے سامنے معاویہ سے ملاقات کروں(٣) ۔
جناب حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کی قبر ""مرج عذرا"" کے علاقہ میں دمشق کے نزدیک مشہور ہے اور بہت زیادہ مسلمانوں کی زیارت گاہ ہے ۔
حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر لوگوں نے اس وقت اور اس کے بعد بہت زیادہ اعتراض کیا اور اس کو معاویہ کی زندگی میں ایک بدنما داغ سمجھا جاتا تھا ۔
امام حسین (علیہ السلام) نے ایک خط میں معاویہ کو حجر اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
"" الست قاتل حجر ، و اصحابہ العابدین المخبتین ، الذین کانوا یستفظعون البدع ، و یامرون بالمعروف ، و ینھون عن المنکر ، فقتلتھم ظلما و عدوانا ، من بعد ما اعطیتھم المواثیق الغلیظة ، والعھود الموکدة جراة علی اللہ واستخفافا بعھدہ "" ۔ اے معاویہ ! کیا تو وہ نہیں ہے جس نے حجر اور ان کے ساتھیوں کو جو کہ عابد و زاہد اور خدا کے سامنے متواضع تھے ، قتل کردیا ؟ یہ لوگ بدعتوں سے بیزار تھے ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے تھے ،لیکن تو نے ان کو ظلم و ستم اور دشمنی کی وجہ سے (محکم عہد وپیمان دینے کے بعد ) قتل کردیا اور تو نے یہ کام خدا کی نافرمانی اور اس کے عہدو پیمان کو سبک شمار کرتے ہوئے انجام دیا (٤) ۔
عایشہ نے بھی معاویہ سے ملاقات کے دوران کہا : تو نے حجر اور ان کے ساتھیوں کو کیوں قتل کیا ؟ معاویہ نے جواب دیا : امت کی مصلحت اسی میں تھی !! عایشہ نے کہا : میں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ان کے متعلق سنا ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا :
""سیقتل بعذراء ناس ، یغضب اللہ لھم و اھل السماء"" بہت جلد ""عذرائ"" کے علاقہ میں کچھ لوگوں کوقتل کیا جائے گا جس سے خداوند عالم اور آسمان والے ناراض ہوجائیں گے (٥) ۔ (٦) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.