مختصر جواب:
مفصل جواب:
اس میں شک نہیں ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک سنت نبوی کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے ، لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جو کچھ بھی حدیث و سنت کے عنوان سے نقل کی جائے اس کو بغیر استثناء کے قبول کرلیںاور ان پر اعتقاد رکھا جائے یا اس پر عمل کیا جائے کیونکہ :
اولا : ہم جانتے ہیں کہ صحابہ کے درمیان جھوٹ بولنے کے علل و اسباب اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) یا صحابہ کی طرف غلط نسبت دینا بہت زیادہ تھی، اگر چہ صحیح احادیث کو جمع کرنے میں علماء اور محدثین کی زحمتوں کے منکر نہیں ہیں ، لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ صحیح احادیث اور سنت حقیقی کو پہچاننا بہت دشوار کام ہے ، لہذا ابودائود نے اپنی سنن میں پانچ لاکھ احادیث میں سے صرف چار ہزار آٹھ سو حدیثیں نقل کی ہیں (١) ۔
ثانیا : احادیث کو نشر کرنے کی اجازت دیدی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت زیادہ اسرائیلیات حدیث نبوی کے نام سے اسلامی معاشرہ میں منتشر ہوگئیں ۔
شہرستانی کہتے ہیں : مشبھہ نے جھوٹی حدیثیں وضع کیں اور ان کی نسبت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرف دی اور یہ تمام کی تمام حدیثیں یہودیوں سے لی گئی تھیں (٢) ۔
ثالثا : بعض صحابہ اور تابعین نے جعلی حدیثوں کے ذریعہ تجارت کی اور اس راستہ سے اپنی زندگی کا خرچ اٹھاتے تھے ۔
ابن ابی الحدید نے اپنے استاد ابی جعفر سے نقل کیا ہے : معاویہ نے سمرة بن جندب صحابی کو ایک لاکھ درہم دئیے تاکہ وہ روایت جعل کرے کہ یہ آیت « و من الناس من یعجبک قولہ فی الحیاة الدنیا و یشھد اللہ علی ما فی قلبہ و ھو الد الخصام « ،حضرت علی (علیہ السلام) کی مذمت میں نازل ہوئی ہے اور اس کے مقابلہ میں یہ آیت «و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ واللہ رئووف بالعباد « ، ابن ملجم مرادی کی شان میں نازل ہوئی ہے ، اس نے ایک لاکھ درہم لینے سے انکار کردیا تو معاویہ نے دولاکھ دینار دئیے، اس نے پھر بھی قبول نہیں کئے، پھر تین لاکھ دینار دئیے ، اس نے قبول نہیں کئے،اس کے بعد چار لاکھ دینار دئیے اور اس نے قبول کرلئے (٣) ۔
رابعا : یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض اہل سنت نے اپنے مذہب کی تائید میں حدیثیں جعل کی ہیں اوران کی نسبت رسول خدا (ص) کی طرف دی ہے ، جیسا کہ علامہ امینی (رحمة اللہ علیہ) نے اپنی کتاب الغدیر میں ان کے ناموں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ، لہذا ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ کس طرح چاروں مذاہب کے آئمہ کی شان میں حدیثیں جعل کی ہیں اور ان کی نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرف دی ہے (٤) ۔
ان جعلی حدیثوں کے متعلق ہمارا وظیفہ کیا ہے ؟ کیا علماء کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ احادیث کی سند اور دلالت کے اعتبار سے تحقیق اور تنقیح کریں ؟ خاص طور سے ان جگہوںپر جہاں حدیثوں کو جعل کرنے والوں نے کچھ مضامین کو جعل کیا ہے ، یا حدیث کی معتبر سندوں کو جعل کرکے اسلامی معاشرہ کے حوالہ کیا ہے کیونکہ اسلامی حدیثوں کے پیکر پر یہ خود ایک بہت بڑی ضرب ہے ۔
اس بناء پر علماء اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ احادیث کی مختلف طریقوں سے تحقیق کریں جیسے :
١۔ حدیث کو کتاب خدا کے معیار پر پَرکھیں تاکہ وہ اس کی مخالفت نہ کررہی ہو ۔
فخر رازی نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا : اگر میری کوئی حدیث تمہارے سامنے پیش کی جائے تو اس کو کتاب خدا کے سامنے پیش کرو ، اگر اس کے موافق ہو تو قبول کرلو ، ورنہ قبول نہ کرو (٥) ۔
٢۔ حدیث کو سنت متواتر کے سامنے رکھو ، کیونکہ سنت متواتر کی سند یقینی ہے ۔
٣۔ حدیث ، عقل سلیم سے موافق ہو جو کہ ہر طرح کے شک و شبہ سے خالی ہے (٦) ۔
اولا : ہم جانتے ہیں کہ صحابہ کے درمیان جھوٹ بولنے کے علل و اسباب اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) یا صحابہ کی طرف غلط نسبت دینا بہت زیادہ تھی، اگر چہ صحیح احادیث کو جمع کرنے میں علماء اور محدثین کی زحمتوں کے منکر نہیں ہیں ، لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ صحیح احادیث اور سنت حقیقی کو پہچاننا بہت دشوار کام ہے ، لہذا ابودائود نے اپنی سنن میں پانچ لاکھ احادیث میں سے صرف چار ہزار آٹھ سو حدیثیں نقل کی ہیں (١) ۔
ثانیا : احادیث کو نشر کرنے کی اجازت دیدی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت زیادہ اسرائیلیات حدیث نبوی کے نام سے اسلامی معاشرہ میں منتشر ہوگئیں ۔
شہرستانی کہتے ہیں : مشبھہ نے جھوٹی حدیثیں وضع کیں اور ان کی نسبت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرف دی اور یہ تمام کی تمام حدیثیں یہودیوں سے لی گئی تھیں (٢) ۔
ثالثا : بعض صحابہ اور تابعین نے جعلی حدیثوں کے ذریعہ تجارت کی اور اس راستہ سے اپنی زندگی کا خرچ اٹھاتے تھے ۔
ابن ابی الحدید نے اپنے استاد ابی جعفر سے نقل کیا ہے : معاویہ نے سمرة بن جندب صحابی کو ایک لاکھ درہم دئیے تاکہ وہ روایت جعل کرے کہ یہ آیت « و من الناس من یعجبک قولہ فی الحیاة الدنیا و یشھد اللہ علی ما فی قلبہ و ھو الد الخصام « ،حضرت علی (علیہ السلام) کی مذمت میں نازل ہوئی ہے اور اس کے مقابلہ میں یہ آیت «و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ واللہ رئووف بالعباد « ، ابن ملجم مرادی کی شان میں نازل ہوئی ہے ، اس نے ایک لاکھ درہم لینے سے انکار کردیا تو معاویہ نے دولاکھ دینار دئیے، اس نے پھر بھی قبول نہیں کئے، پھر تین لاکھ دینار دئیے ، اس نے قبول نہیں کئے،اس کے بعد چار لاکھ دینار دئیے اور اس نے قبول کرلئے (٣) ۔
رابعا : یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض اہل سنت نے اپنے مذہب کی تائید میں حدیثیں جعل کی ہیں اوران کی نسبت رسول خدا (ص) کی طرف دی ہے ، جیسا کہ علامہ امینی (رحمة اللہ علیہ) نے اپنی کتاب الغدیر میں ان کے ناموں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ، لہذا ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ کس طرح چاروں مذاہب کے آئمہ کی شان میں حدیثیں جعل کی ہیں اور ان کی نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرف دی ہے (٤) ۔
ان جعلی حدیثوں کے متعلق ہمارا وظیفہ کیا ہے ؟ کیا علماء کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ احادیث کی سند اور دلالت کے اعتبار سے تحقیق اور تنقیح کریں ؟ خاص طور سے ان جگہوںپر جہاں حدیثوں کو جعل کرنے والوں نے کچھ مضامین کو جعل کیا ہے ، یا حدیث کی معتبر سندوں کو جعل کرکے اسلامی معاشرہ کے حوالہ کیا ہے کیونکہ اسلامی حدیثوں کے پیکر پر یہ خود ایک بہت بڑی ضرب ہے ۔
اس بناء پر علماء اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ احادیث کی مختلف طریقوں سے تحقیق کریں جیسے :
١۔ حدیث کو کتاب خدا کے معیار پر پَرکھیں تاکہ وہ اس کی مخالفت نہ کررہی ہو ۔
فخر رازی نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا : اگر میری کوئی حدیث تمہارے سامنے پیش کی جائے تو اس کو کتاب خدا کے سامنے پیش کرو ، اگر اس کے موافق ہو تو قبول کرلو ، ورنہ قبول نہ کرو (٥) ۔
٢۔ حدیث کو سنت متواتر کے سامنے رکھو ، کیونکہ سنت متواتر کی سند یقینی ہے ۔
٣۔ حدیث ، عقل سلیم سے موافق ہو جو کہ ہر طرح کے شک و شبہ سے خالی ہے (٦) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.