مختصر جواب:
مفصل جواب:
تاریخ میں ہاشم کی اولاد""بنی ہاشم"" سے اور عبدشمس کی اولاد ""بنی امیہ"" کے نام سے مشہور ہوئی ۔
ہاشم کی کرامت و جوانمردی اور لوگوں کی زندگی کو اچھا بنانے کے لئے آپ کی بخشش و اخراجات اور مکہ کے تاجروں کو تجارت میں آگے بڑھانے کے لئے آپ نے امیر غسان سے معاہدہ ، اسی طرح آپ کا قریش کے لئے ایسا پروگرام بنانا جس سے وہ گرمیوں میں شام سے تجارت کریں اور سردیوں میں یمن سے تجارت کریں ، ان سب چیزوں کی وجہ سے لوگ آپ کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے ۔
عبد شمس کا بیٹا امیہ(ہاشم کا بھتیجا) اپنے چچا کی اس عزت ووقار سے رشک کرتا تھا اور لوگ اس کو کوئی عزت نہیں دیتے تھے جس کی وجہ سے امیہ نے اپنے چچا کی بدگوئی کرنی شروع کردی، لیکن وہ جتنی بھی بدگؤئی کرتا تھا اتنا ہی جناب ہاشم کی عزت وتوقیر میں اضافہ ہوتا تھا ۔ آخر کار امیہ نے حسادت کی آگ میں جل کر اپنے چچا کو مجبور کیا کہ وہ دونوں مل کر ایک کاہن(عرب کے مشہور عالم)کے پاس جائیں اور وہ جس کا بھی احترام کرے گا تمام کاموں کی ذمہ داری اس کودیدی جائیگی ۔ جب امیہ نے زیادہ ہی اصرار کیا تو جناب ہاشم نے اس کی پیشنہاد کو دو شرطوں کے ساتھ قبول کرلیا:
١۔ جو بھی اس فیصلہ میں محکوم ہوگا وہ حج کے دنوں میں سو اونٹ قربانی کرے گا ۔
٢۔ جو شخص محکوم ہوگا وہ دس سال تک مکہ کو چھوڑ کر جلاوطنی کی زندگی بسر کرے گا ۔
اس توافق کے بعد عسفان (مکہ کے نزدیک ایک جگہ کا نام)کاہن کے پاس گئے، لیکن امیہ کی توقع کے خلاف جیسے ہی کاہن کی نظر جناب ہاشم پر پڑی تو اس نے جناب ہاشم کی مدح وثنا کرنی شروع کردی، جس کی وجہ سے امیہ کو دس سال کے لئے مکہ چھوڑ کر شام میں زندگی بسر کرناپڑی(1) ۔
یہ واقعہ نہ فقط ان دو خاندانوں کی دشمنی کو بتا تا ہے بلکہ اس سے شام میں امویوں کے نفوذ کی وجوہات بھی مل جاتی ہیں کہ کس طرح امویوں کے دیرینہ روابط نے بعد میںان کی حکومت کو برقرار کرنے میں مدد کی (2) ۔
ہاشم کی کرامت و جوانمردی اور لوگوں کی زندگی کو اچھا بنانے کے لئے آپ کی بخشش و اخراجات اور مکہ کے تاجروں کو تجارت میں آگے بڑھانے کے لئے آپ نے امیر غسان سے معاہدہ ، اسی طرح آپ کا قریش کے لئے ایسا پروگرام بنانا جس سے وہ گرمیوں میں شام سے تجارت کریں اور سردیوں میں یمن سے تجارت کریں ، ان سب چیزوں کی وجہ سے لوگ آپ کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے ۔
عبد شمس کا بیٹا امیہ(ہاشم کا بھتیجا) اپنے چچا کی اس عزت ووقار سے رشک کرتا تھا اور لوگ اس کو کوئی عزت نہیں دیتے تھے جس کی وجہ سے امیہ نے اپنے چچا کی بدگوئی کرنی شروع کردی، لیکن وہ جتنی بھی بدگؤئی کرتا تھا اتنا ہی جناب ہاشم کی عزت وتوقیر میں اضافہ ہوتا تھا ۔ آخر کار امیہ نے حسادت کی آگ میں جل کر اپنے چچا کو مجبور کیا کہ وہ دونوں مل کر ایک کاہن(عرب کے مشہور عالم)کے پاس جائیں اور وہ جس کا بھی احترام کرے گا تمام کاموں کی ذمہ داری اس کودیدی جائیگی ۔ جب امیہ نے زیادہ ہی اصرار کیا تو جناب ہاشم نے اس کی پیشنہاد کو دو شرطوں کے ساتھ قبول کرلیا:
١۔ جو بھی اس فیصلہ میں محکوم ہوگا وہ حج کے دنوں میں سو اونٹ قربانی کرے گا ۔
٢۔ جو شخص محکوم ہوگا وہ دس سال تک مکہ کو چھوڑ کر جلاوطنی کی زندگی بسر کرے گا ۔
اس توافق کے بعد عسفان (مکہ کے نزدیک ایک جگہ کا نام)کاہن کے پاس گئے، لیکن امیہ کی توقع کے خلاف جیسے ہی کاہن کی نظر جناب ہاشم پر پڑی تو اس نے جناب ہاشم کی مدح وثنا کرنی شروع کردی، جس کی وجہ سے امیہ کو دس سال کے لئے مکہ چھوڑ کر شام میں زندگی بسر کرناپڑی(1) ۔
یہ واقعہ نہ فقط ان دو خاندانوں کی دشمنی کو بتا تا ہے بلکہ اس سے شام میں امویوں کے نفوذ کی وجوہات بھی مل جاتی ہیں کہ کس طرح امویوں کے دیرینہ روابط نے بعد میںان کی حکومت کو برقرار کرنے میں مدد کی (2) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.