مختصر جواب:
مفصل جواب:
انسان کی عقل و جسم کے شکوفا ہونے کے لئے عام طور سے ایک خاص حدو مرز ہوتے ہیں کہ جب انسان اس حد تک پہنچ جاتا ہے تو اس کے جسم و نفسیات میں کمال آجاتا ہے ، لیکن اگر خداوند عالم کسی مصلحت کی بناء پر اس دوران کو اپنے بعض خاص بندوں میں وقت سے پہلے عطا کردے تو کوئی مشکل بات نہیں ہے ، انسانی معاشرہ میں شروع سے لے کر آج تک بہت سے ایسے افراد ملتے ہیں جو اس قاعدہ و قانون سے مستثنی تھے اور خداوند عالم کے لطف و کرم سے ان کو عنایت حاصل ہوئی تھی اس کے ذریعہ وہ امت کی رہبری تک پہنچ گئے تھے ۔
اس موضوع کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے بہت سے استثنائات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
١۔ قرآن کریم نے حضرت یحیی ، ان کی نبوت اور بچپنے میں ان کے نبوت تک پہنچنے کے متعلق فرمایا ہے :
«یا یَحْیی خُذِ الْکِتابَ بِقُوَّةٍ وَ آتَیْناہُ الْحُکْمَ صَبِیًّ« (١) ۔ اے یحیٰی علیہ السّلام! کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لو اور ہم نے انہیں بچپنے ہی میں نبوت عطا کردی۔
بعض مفسرین مذکورہ آیت میں لفظ «حکم« کو ہوش و درایت کے معنی میں لیا ہے اور بعض مفسرین نے اس کلمہ سے مراد «نبوت« لیا ہے ۔ اس نظریہ کی تائید اس سے پہلے والی آیت کرتی ہے جس میں فرمایا ہے «یا یَحْیی خُذِ الْکِتابَ بِقُوَّة« ۔ کتاب دینا ، نبوت کی نشانی ہے، لہذا «حکم« سے مراد یہی نبوت ہے ۔
٢۔ بچے کو بولنا سیکھنے اور تکلم کرنے کے لئے عام طور سے بارہ مہینوں کی ضرورت ہوتی ہے ، لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسی (علیہ السلام) نے اپنی پیدائش سے ہی بولنا شروع کردیا تھا اور اپنی والدہ سے (جو کہ اللہ کی قدرت سے بغیر شادی کے حاملہ ہوگئی تھیں اور آپ نے ایک نوزاد کو جنم دیاتھا اور آپ پر بہت زیادہ تہمتیں لگائی گئی تھیں) دفاع کیا اور دشمنوں کی بیہودہ باتوں کا منطق اور دلیل سے جواب دیا ، جب کہ اس طرح کی باتیں کرنا صرف بڑے انسانوں کی شان ہوتی ہے ۔ قرآن مجید نے ان کی باتوں کو اس طرح نقل کیا ہے :
«قالَ ِنِّی عَبْدُ اللَّہِ آتانِیَ الْکِتابَ وَ جَعَلَنی نَبِیًّا ، وَ جَعَلَنی مُبارَکاً أَیْنَ ما کُنْتُ وَ أَوْصانی بِالصَّلاةِ وَ الزَّکاةِ ما دُمْتُ حَیًّا ،وَ بَرًّا بِوالِدَتی وَ لَمْ یَجْعَلْنی جَبَّاراً شَقِیًّا « (٢) ۔
بچہ نے آواز دی کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے اور جہاں بھی رہوں بابرکت قرار دیا ہے اور جب تک زندہ رہوں نماز اور زکوِٰکی وصیت کی ہے ، اور اپنی والدہ کے ساتھ حَسن سلوک کرنے والا بنایا ہے اور ظالم و بدنصیب نہیں بنایا ہے۔
مندرجہ بالا جو کچھ کہا گیا ہے اس نتیجہ نکلتا ہے کہ ائمہ علیہم السلام سے پہلے بھی کچھ خدا کے بندے ایسے تھے جو خداوند عالم کی نعمت سے برخوردار تھے اوریہ بات صرف اماموں سے مخصوص نہیں ہے ۔
اسی طرح ائمہ علیہم السلام) کی تاریخ زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ خود ائمہ خصوصا امام محمد تقی (علیہ السلام) کی زندگی میں پیش آیا اور انہوں نے استدلال کے ساتھ جواب دیا :
١۔ امام رضا اور امام جواد (علیہما اسلام) کے ایک صحابی علی بن اسباط نے کہا ہے : ایک روز میں امام محمد تقی (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچا اور آپ کی زیارت کرتے ہوئے میں بہت دیر تک آپ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھتا رہا تاکہ آپ کی صورت اچھی طرح سے اپنے ذہن نشین کرلوں اور پھر مصر جاکر اہل مصر کے سامنے بیان کروں (٣) ۔
ٹھیک اسی وقت امام محمد تقی (علیہ السلام) جو کہ ظاہری طور پر میری فکر سے آگاہ ہوگئے تھے ، میرے پاس بیٹھ گئے اور مجھ سے فرمایا : اے علی بن اسباط ! خداوند عالم نے جو کام امامت کے لئے کیا ہے یہ اسی سے مشابہ ہے جو نبوت کے لئے کیا ہے ۔ خداوند عالم نے حضرت یحیی (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : « ہم نے یحیی کو بچپنے میں نبوت کا حکم دیا « (٤) ۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : جس وقت وہ رشد و بلوغ کی حد تک پہنچے تو ان کو نبوت کا حکم اور علم عطا کیا (٥) ۔
اسی طرح حضرت موسی (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : جس وقت وہ رشد و بلوغ کی حد تک پہنچے تو ان کو نبوت کا حکم اور علم عطا کیا (٦) ۔
اس بناء پر جس طرح خداوند عالم کے لئے ممکن ہے کہ وہ چالیس سال کی عمر میں کسی کو علم و حکمت عطا کردے اسی طرح ممکن ہے کہ وہ علم و حکمت کو بچپنے میں کسی شخص کو عطا کردے (٧) ۔
٢۔ امام رضا (علیہ السلام) کے ایک صحابی کہتے ہیں : خراسان میں امام رضا (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچا ، وہاں پر ایک شخص نے امام علیہ السلام سے عرض کیا : میرے سید و سردار ! اگر (خدانخواستہ) کوئی حادثہ پیش آگیا تو ہم کس کے پاس رجوع کریں ؟ امام نے فرمایا : میرے بیٹے ابوجعفر کی طرف رجوع کرنا (٨) ۔ اس وقت اس شخص نے کہا کہ حضرت امام جواد (علیہ السلام) کی عمر تو بہت کم ہے ،امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا : خداوند عالم نے حضرت عیسی بن مریم کو ابوجعفر سے کم عمر میں رسول اور صاحب شریعت قرار دیا تھا (٩) ۔
٣۔ امام رضا (علیہ السلام) نے اپنے ایک صحابی «معمر بن خلاد« سے فرمایا : میں نے ابوجعفر کو اپنی جگہ پر بٹھا دیا اور اپنا جانشین قرار دیا ہے ، ہمارا خاندان وہ ہے جس میں ہمارا چھوٹے سے چھوٹا شخص بھی اپنے بزرگوں کا پورا وارث ہوتا ہے (١٠) ۔
٤۔ تیسری صدی کے شروع میں نہ سال یا اس سے کم عمر کے بچے کی امامت پر اس وقت کے فقہاء اور متکلمین کو تعجب ہوا ، لیکن مامون حقیقت سے واقف تھا ، اس نے سب کو امام محمد تقی (علیہ السلام) سے مناظرہ کرنے کی دعوت دی تاکہ حقیقت سے پردہ اٹھا دیا جائے ، علماء اور دانشوروں کے ساتھ آپ کے مناظرہ نے سینوں میں سانسوں اور منہ میں زبانوں کو بند کردیا ۔
یہاں پر ہم امام محمد تقی (علیہ السلام) کے ایک مناظرہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
یحیی نے امام جواد سے اجازت لی ۔ امام نے فرمایا : اے یحیی تم جو پوچھنا چاہو پوچھ سکتے ہو ۔
یحیی نے کہا : یہ فرمائیے کہ حالت احرام میں اگر کوئی شخص شکار کرے تو اس کا کیا حکم ہے ؟(١١) ۔
اس سوال سے اندازہ ہوتا ہے کہ یحیی حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی علمی بلندی سے بالکل واقف نہ تھا وہ اپنے غرور علم او رجہالت سے یہ سمجھتا تھا کہ یہ کمسن صاحبزادہ ہیں ، روز مرہ کے روزے ، نماز کے مسائل سے واقف ہوں تو ہوں، لیکن حج وغیرہ کے احکام اور حالت احرام میں جن چیزوں کی ممانعت ہے ان کے کفاروں سے بھلا کہاںواقف ہوں گے !
امام نے اس کے جواب میں اس طرح سوال کے گوشوں کی الگ الگ تحلیل فرمائی جس سے اصل مسئلہ کا جواب دئیے بغیر آپ کے علم کی گہرائیوں کا یحیی اور تمام اہل محفل کو اندازہ ہوگیا ۔ یحیی خود بھی اپنے کو سبک پانے لگا اور تمام مجمع کو بھی اس کا سبک ہونا محسوس ہونے لگا ، آپ نے جواب میں فرمایا : اے یحیی ! تمہارا سوال بالکل مبہم اور مہمل ہے ،سوال کے ذیل میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ شکار حل میں تھا یا حرم میں ، شکار کرنے والا مسئلہ سے واقف تھا یا ناواقف، اس نے عمدا اس جانور کا شکار کیا تھا یا دھوکے سے قتل ہوگیا تھا ، وہ شخص آزاد تھا یا غلام، کمسن تھا یا بالغ۔ پہلی مرتبہ ایسا کیا تھا یا اس کے پہلے بھی ایسا کرچکا تھا ، شکارپرند کا تھا یا کوئی اور چھوٹا یابڑا جانور تھا وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے ، رات کو پوشیدہ طریقہ پر اس نے اس کا شکار کیا یا دن میں اعلانیہ طور پر، احرام عمرہ کا تھا یا حج کا۔ جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائے جائیں اس وقت تک اس مسئلہ کا کوئی معین حکم نہیں بتایا جاسکتا ۔
یحیی کتنا ہی ناقص کیوں نہ ہوتا، بہرحال فقہی مسائل پر کچھ نہ کچھ اس کی نظر تھی ، وہ ان کثیرا لتعداد شقوں کے پیدا کرنے ہی سے خوب سمجھ گیا کہ ان کا مقابلہ میرے لئے آسان نہیں ہے اس کے چہرہ پر ایسی شکستگی کے آثار پیدا ہوئے جن کا تمام دیکھنے والوں نے اندازہ کرلیا ۔ اب اس کی زبان خاموش تھی اور وہ کچھ جواب نہ دیتاتھا ۔
مامون نے کہا : میں اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ جو کچھ میں نے سوچا تھا وہی ہوا ۔
اس کے بعد اپنے خاندانی افراد کی طرف نظر کی اور کہا : جس بات کو تم نہیں جانتے تھے اب اس کو قبول کرتے ہو ؟! (١٢) ۔
پھر جب مذاکرات کے بعد سب لوگ چلے گئے اور صرف خلیفہ کے نزدیکی لوگ باقی رہ گئے تو مامون نے امام جواد (علیہ السلام) سے عرض کیا کہ پھر ان تمام شقوں کے احکام بیان فرمادیجئے تاکہ ہم سب کو استفادہ کا موقع مل سکے ۔
امام علیہ السلام نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ جو احکام تھے بیان فرمائے ، آپ نے فرمایا : اگر احرام باندھنے کے بعد «حل« میںشکار کرے اور وہ شکار پرندہ ہو اور بڑا بھی ہو تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے اور اگر ایسا شکار حرم میں کیا ہے تو دو بکریاں ہیں اور اگر کسی چھوٹے پرندہ کو حل میں شکار کیا تو دنبے کا ایک بچہ جو اپنی ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو ، کفارہ دے گا ۔ اور اگر حرم میں شکار کیا ہو تو اس پرندہ کی قیمت اور ایک دنبہ کفارہ دے گا اور اگر وہ شکار چوپایہ ہو تواس کی کئی قسمیں ہیں اگر وہ وحشی گدھا ہے تو ایک گائے اور اگر شتر مرغ ہے تو ایک اونٹ اور اگر ہرن ہے تو ایک بکری کفارہ دے گا ، یہ کفارہ اس وقت ہے جب شکار حل میں کیا ہو ۔ لیکن اگر حرم میں کئے ہوں تو یہی کفارے دگنے ہوںگے اور ان جانوروں کو جنہیں کفارے میں دے گا ،اگر احرام عمرہ کا تھا تو خانہ کعبہ تک پہنچائے گا اور مکہ میں قربانی کرے گا اور اگر احرام حج کا تھا تو منی میں قربانی کرے گا اور ان کفاروں میں عالم و جاہل دونوں برابر ہیں اور عمدا شکار کرنے میں کفارہ دینے کے علاوہ گنہگار بھی ہوگا ، ہاں بھولے سے شکار کرنے میں گناہ نہیں ہے ، آزاد اپنا کفارہ خود دے گا اور غلام کا کفارہ اس کا مالک دے گا ، چھوٹے بچے پر کوئی کفارہ نہیں ہے اور بالغ پر کفارہ دینا واجب ہے اور جو شخص اپنے اس فعل پر نادم ہو وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا ، لیکن اگر اس فعل پر اصرار کرے گا تو آخرت میں بھی اس پر عذاب ہوگا (١٣) ۔
ان تاریخی واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک بچہ خداوند عالم کی عنایت سے بچپنے میں بھی علوم الہی کا مالک اور امام بن سکتا ہے (١٤) ۔
اس موضوع کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے بہت سے استثنائات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
١۔ قرآن کریم نے حضرت یحیی ، ان کی نبوت اور بچپنے میں ان کے نبوت تک پہنچنے کے متعلق فرمایا ہے :
«یا یَحْیی خُذِ الْکِتابَ بِقُوَّةٍ وَ آتَیْناہُ الْحُکْمَ صَبِیًّ« (١) ۔ اے یحیٰی علیہ السّلام! کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لو اور ہم نے انہیں بچپنے ہی میں نبوت عطا کردی۔
بعض مفسرین مذکورہ آیت میں لفظ «حکم« کو ہوش و درایت کے معنی میں لیا ہے اور بعض مفسرین نے اس کلمہ سے مراد «نبوت« لیا ہے ۔ اس نظریہ کی تائید اس سے پہلے والی آیت کرتی ہے جس میں فرمایا ہے «یا یَحْیی خُذِ الْکِتابَ بِقُوَّة« ۔ کتاب دینا ، نبوت کی نشانی ہے، لہذا «حکم« سے مراد یہی نبوت ہے ۔
٢۔ بچے کو بولنا سیکھنے اور تکلم کرنے کے لئے عام طور سے بارہ مہینوں کی ضرورت ہوتی ہے ، لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسی (علیہ السلام) نے اپنی پیدائش سے ہی بولنا شروع کردیا تھا اور اپنی والدہ سے (جو کہ اللہ کی قدرت سے بغیر شادی کے حاملہ ہوگئی تھیں اور آپ نے ایک نوزاد کو جنم دیاتھا اور آپ پر بہت زیادہ تہمتیں لگائی گئی تھیں) دفاع کیا اور دشمنوں کی بیہودہ باتوں کا منطق اور دلیل سے جواب دیا ، جب کہ اس طرح کی باتیں کرنا صرف بڑے انسانوں کی شان ہوتی ہے ۔ قرآن مجید نے ان کی باتوں کو اس طرح نقل کیا ہے :
«قالَ ِنِّی عَبْدُ اللَّہِ آتانِیَ الْکِتابَ وَ جَعَلَنی نَبِیًّا ، وَ جَعَلَنی مُبارَکاً أَیْنَ ما کُنْتُ وَ أَوْصانی بِالصَّلاةِ وَ الزَّکاةِ ما دُمْتُ حَیًّا ،وَ بَرًّا بِوالِدَتی وَ لَمْ یَجْعَلْنی جَبَّاراً شَقِیًّا « (٢) ۔
بچہ نے آواز دی کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے اور جہاں بھی رہوں بابرکت قرار دیا ہے اور جب تک زندہ رہوں نماز اور زکوِٰکی وصیت کی ہے ، اور اپنی والدہ کے ساتھ حَسن سلوک کرنے والا بنایا ہے اور ظالم و بدنصیب نہیں بنایا ہے۔
مندرجہ بالا جو کچھ کہا گیا ہے اس نتیجہ نکلتا ہے کہ ائمہ علیہم السلام سے پہلے بھی کچھ خدا کے بندے ایسے تھے جو خداوند عالم کی نعمت سے برخوردار تھے اوریہ بات صرف اماموں سے مخصوص نہیں ہے ۔
اسی طرح ائمہ علیہم السلام) کی تاریخ زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ خود ائمہ خصوصا امام محمد تقی (علیہ السلام) کی زندگی میں پیش آیا اور انہوں نے استدلال کے ساتھ جواب دیا :
١۔ امام رضا اور امام جواد (علیہما اسلام) کے ایک صحابی علی بن اسباط نے کہا ہے : ایک روز میں امام محمد تقی (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچا اور آپ کی زیارت کرتے ہوئے میں بہت دیر تک آپ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھتا رہا تاکہ آپ کی صورت اچھی طرح سے اپنے ذہن نشین کرلوں اور پھر مصر جاکر اہل مصر کے سامنے بیان کروں (٣) ۔
ٹھیک اسی وقت امام محمد تقی (علیہ السلام) جو کہ ظاہری طور پر میری فکر سے آگاہ ہوگئے تھے ، میرے پاس بیٹھ گئے اور مجھ سے فرمایا : اے علی بن اسباط ! خداوند عالم نے جو کام امامت کے لئے کیا ہے یہ اسی سے مشابہ ہے جو نبوت کے لئے کیا ہے ۔ خداوند عالم نے حضرت یحیی (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : « ہم نے یحیی کو بچپنے میں نبوت کا حکم دیا « (٤) ۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : جس وقت وہ رشد و بلوغ کی حد تک پہنچے تو ان کو نبوت کا حکم اور علم عطا کیا (٥) ۔
اسی طرح حضرت موسی (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : جس وقت وہ رشد و بلوغ کی حد تک پہنچے تو ان کو نبوت کا حکم اور علم عطا کیا (٦) ۔
اس بناء پر جس طرح خداوند عالم کے لئے ممکن ہے کہ وہ چالیس سال کی عمر میں کسی کو علم و حکمت عطا کردے اسی طرح ممکن ہے کہ وہ علم و حکمت کو بچپنے میں کسی شخص کو عطا کردے (٧) ۔
٢۔ امام رضا (علیہ السلام) کے ایک صحابی کہتے ہیں : خراسان میں امام رضا (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچا ، وہاں پر ایک شخص نے امام علیہ السلام سے عرض کیا : میرے سید و سردار ! اگر (خدانخواستہ) کوئی حادثہ پیش آگیا تو ہم کس کے پاس رجوع کریں ؟ امام نے فرمایا : میرے بیٹے ابوجعفر کی طرف رجوع کرنا (٨) ۔ اس وقت اس شخص نے کہا کہ حضرت امام جواد (علیہ السلام) کی عمر تو بہت کم ہے ،امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا : خداوند عالم نے حضرت عیسی بن مریم کو ابوجعفر سے کم عمر میں رسول اور صاحب شریعت قرار دیا تھا (٩) ۔
٣۔ امام رضا (علیہ السلام) نے اپنے ایک صحابی «معمر بن خلاد« سے فرمایا : میں نے ابوجعفر کو اپنی جگہ پر بٹھا دیا اور اپنا جانشین قرار دیا ہے ، ہمارا خاندان وہ ہے جس میں ہمارا چھوٹے سے چھوٹا شخص بھی اپنے بزرگوں کا پورا وارث ہوتا ہے (١٠) ۔
٤۔ تیسری صدی کے شروع میں نہ سال یا اس سے کم عمر کے بچے کی امامت پر اس وقت کے فقہاء اور متکلمین کو تعجب ہوا ، لیکن مامون حقیقت سے واقف تھا ، اس نے سب کو امام محمد تقی (علیہ السلام) سے مناظرہ کرنے کی دعوت دی تاکہ حقیقت سے پردہ اٹھا دیا جائے ، علماء اور دانشوروں کے ساتھ آپ کے مناظرہ نے سینوں میں سانسوں اور منہ میں زبانوں کو بند کردیا ۔
یہاں پر ہم امام محمد تقی (علیہ السلام) کے ایک مناظرہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
یحیی نے امام جواد سے اجازت لی ۔ امام نے فرمایا : اے یحیی تم جو پوچھنا چاہو پوچھ سکتے ہو ۔
یحیی نے کہا : یہ فرمائیے کہ حالت احرام میں اگر کوئی شخص شکار کرے تو اس کا کیا حکم ہے ؟(١١) ۔
اس سوال سے اندازہ ہوتا ہے کہ یحیی حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی علمی بلندی سے بالکل واقف نہ تھا وہ اپنے غرور علم او رجہالت سے یہ سمجھتا تھا کہ یہ کمسن صاحبزادہ ہیں ، روز مرہ کے روزے ، نماز کے مسائل سے واقف ہوں تو ہوں، لیکن حج وغیرہ کے احکام اور حالت احرام میں جن چیزوں کی ممانعت ہے ان کے کفاروں سے بھلا کہاںواقف ہوں گے !
امام نے اس کے جواب میں اس طرح سوال کے گوشوں کی الگ الگ تحلیل فرمائی جس سے اصل مسئلہ کا جواب دئیے بغیر آپ کے علم کی گہرائیوں کا یحیی اور تمام اہل محفل کو اندازہ ہوگیا ۔ یحیی خود بھی اپنے کو سبک پانے لگا اور تمام مجمع کو بھی اس کا سبک ہونا محسوس ہونے لگا ، آپ نے جواب میں فرمایا : اے یحیی ! تمہارا سوال بالکل مبہم اور مہمل ہے ،سوال کے ذیل میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ شکار حل میں تھا یا حرم میں ، شکار کرنے والا مسئلہ سے واقف تھا یا ناواقف، اس نے عمدا اس جانور کا شکار کیا تھا یا دھوکے سے قتل ہوگیا تھا ، وہ شخص آزاد تھا یا غلام، کمسن تھا یا بالغ۔ پہلی مرتبہ ایسا کیا تھا یا اس کے پہلے بھی ایسا کرچکا تھا ، شکارپرند کا تھا یا کوئی اور چھوٹا یابڑا جانور تھا وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے ، رات کو پوشیدہ طریقہ پر اس نے اس کا شکار کیا یا دن میں اعلانیہ طور پر، احرام عمرہ کا تھا یا حج کا۔ جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائے جائیں اس وقت تک اس مسئلہ کا کوئی معین حکم نہیں بتایا جاسکتا ۔
یحیی کتنا ہی ناقص کیوں نہ ہوتا، بہرحال فقہی مسائل پر کچھ نہ کچھ اس کی نظر تھی ، وہ ان کثیرا لتعداد شقوں کے پیدا کرنے ہی سے خوب سمجھ گیا کہ ان کا مقابلہ میرے لئے آسان نہیں ہے اس کے چہرہ پر ایسی شکستگی کے آثار پیدا ہوئے جن کا تمام دیکھنے والوں نے اندازہ کرلیا ۔ اب اس کی زبان خاموش تھی اور وہ کچھ جواب نہ دیتاتھا ۔
مامون نے کہا : میں اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ جو کچھ میں نے سوچا تھا وہی ہوا ۔
اس کے بعد اپنے خاندانی افراد کی طرف نظر کی اور کہا : جس بات کو تم نہیں جانتے تھے اب اس کو قبول کرتے ہو ؟! (١٢) ۔
پھر جب مذاکرات کے بعد سب لوگ چلے گئے اور صرف خلیفہ کے نزدیکی لوگ باقی رہ گئے تو مامون نے امام جواد (علیہ السلام) سے عرض کیا کہ پھر ان تمام شقوں کے احکام بیان فرمادیجئے تاکہ ہم سب کو استفادہ کا موقع مل سکے ۔
امام علیہ السلام نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ جو احکام تھے بیان فرمائے ، آپ نے فرمایا : اگر احرام باندھنے کے بعد «حل« میںشکار کرے اور وہ شکار پرندہ ہو اور بڑا بھی ہو تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے اور اگر ایسا شکار حرم میں کیا ہے تو دو بکریاں ہیں اور اگر کسی چھوٹے پرندہ کو حل میں شکار کیا تو دنبے کا ایک بچہ جو اپنی ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو ، کفارہ دے گا ۔ اور اگر حرم میں شکار کیا ہو تو اس پرندہ کی قیمت اور ایک دنبہ کفارہ دے گا اور اگر وہ شکار چوپایہ ہو تواس کی کئی قسمیں ہیں اگر وہ وحشی گدھا ہے تو ایک گائے اور اگر شتر مرغ ہے تو ایک اونٹ اور اگر ہرن ہے تو ایک بکری کفارہ دے گا ، یہ کفارہ اس وقت ہے جب شکار حل میں کیا ہو ۔ لیکن اگر حرم میں کئے ہوں تو یہی کفارے دگنے ہوںگے اور ان جانوروں کو جنہیں کفارے میں دے گا ،اگر احرام عمرہ کا تھا تو خانہ کعبہ تک پہنچائے گا اور مکہ میں قربانی کرے گا اور اگر احرام حج کا تھا تو منی میں قربانی کرے گا اور ان کفاروں میں عالم و جاہل دونوں برابر ہیں اور عمدا شکار کرنے میں کفارہ دینے کے علاوہ گنہگار بھی ہوگا ، ہاں بھولے سے شکار کرنے میں گناہ نہیں ہے ، آزاد اپنا کفارہ خود دے گا اور غلام کا کفارہ اس کا مالک دے گا ، چھوٹے بچے پر کوئی کفارہ نہیں ہے اور بالغ پر کفارہ دینا واجب ہے اور جو شخص اپنے اس فعل پر نادم ہو وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا ، لیکن اگر اس فعل پر اصرار کرے گا تو آخرت میں بھی اس پر عذاب ہوگا (١٣) ۔
ان تاریخی واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک بچہ خداوند عالم کی عنایت سے بچپنے میں بھی علوم الہی کا مالک اور امام بن سکتا ہے (١٤) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.